مختلف مدارج میں زبان کی ارتقاء ا ور نشوونما
(Abdul Ghani Shaikh, India)
مادری زبان ہو یا علاقائی زبان ہوکسی بھی
تہذیب و تمدن کے لییروح کی حیثت رکھتی ہے۔ زبان اظہار مافی الضمیر کا ایک
وسیلہ ہے، جو ایک دوسرے کے خیالات، افکار، روزمرہ کے کارہائیوں اور مخفی
صلاحیتوں کو پرکھنے اور سنوارنے میں معاون ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ، معاون ہی
نہیں بلکہ قوموں کے عروج کا منبع کہا جائے، چنداں مضائقہ نہیں۔
بقول: ہالی ڈے!
زبان کے زریعہ بچہ اپنے خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ضروریات کی تکمیل
کرپاتاہے۔ نیز اپنے رویؤن، میلانات پر ضبط پاتے ہوئیدوسروں یعنی ہم عمر
گروہ (پیر گروپس) سے باہمی عمل اور ردعمل کو انجام دیتے ہوئے اور انکی
تعمیر نو کرتے ہوئے، تجربات کی صراحت"زبان"کے وساطت کرپاتا ہے۔
زبان ایک قینچی کی مانند ہے۔ جو فرد بشر کے ہاتھ کو تھوڑی حد تک کتر بھی
سکتی ہے، اسی طرح کسی بھی کاغذ یا کپڑے کو کتر بھی سکتی ہے۔ لہزا فرد کایہی
ہاتھ قینچی یعنی زبان کااستعمال کرتے ہوئیاس عمل کو مثبت رخ دے پاتاہے۔
اپنے اظہار خیال، علامتوں، یا عقل و شعور کی بنا پرمظہر خیالات کو زبان کی
مدد سے ترسیل کرپاتاہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس امر کے مصداق میں مستثنی دلائل
بھی پائے جاتے ہیں؛
۱۔ فرد یا بچہ ماحول کے تیئں زبان سیکھتاہے۔
۲۔ مسلسل جامع تجربات کی بنا پر زبان پر عبور حاصل ہوتاہے۔
۳۔ فرد یا بچہ میں گود سیہی اندرونی زبانی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
اورام نو م چمسکی:
1950کے اثنا میں اورام نومچومسکی نامی ماہر لسانیات نے Generative Grammar
نامی نظرۂ کو پیش کیا۔ اس نظریہ کے تحت زبان کے میدان اور مطالعہ میں چند
نت نئے تغیرات پنپ لیں۔
اس نے بتلایا کہ، وراثتی طور پر فرد کو جو صلاحیتیں حاصل ہوتی ہیں، عین اسی
طرح لسانی یا زبان کی صلاحیت بھی پیدائش سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح انسانی
جسمانی اعضا دل، پھیپڑے، معدہ، گردیبطور مورثتی فرد کوملتے ہیں، لسانی
صلاحیت بھی اسی طرح حاصل ہوگی۔ یہی لسانی صلاحیت نفسیات کی زبان میں
Language Facultyکہلاتی ہے۔ اس کی مثال راقم کے قیاس تخیل میں کچھ اس طرح
ہے۔۔ ملاحظہ ہو۔۔۔
بطور مثال:
کسی بھی بچے یا شخص کو"اس لال یا سرخ رنگ والے گھر جاؤ"کہا جائے۔ تو وہ فرد
یا بچہ گھر کے بیرونی حصے پر نمایاں سرخ رنگ والے گھر کو ہی جائیگا۔ اس کے
برعکس کونسا سرخ رنگ؟ گھر کے اندرونی حصے والا یا بیرونی حصے والا؟ ایسے
سوالات نہی کرے گا۔ آفاقی طور پر کوئی بھی بچہ سرخ رنگت والے گھر کی طرف ہی
گامزن ہوگا نہ کہ، مبہم و بے جا سوالات کرتا رہے گا۔ اس کی اہم وجہ عالم
گیر سطح پر بنی نوع انسانی میں ایک ہی قسم کی لسانی مفاہمت تا پیدائش ہی
پیوست ہوتی ہے۔ لہذا زبان، نفسیات کا ایک دروں حصہ ہے نہ کہ، علاحدہ ایک کل
بلکہ یہ ایک جزو ہے۔
زبان کی اہم مہارتیں۔۔
۱۔سننا - listening
۲۔ بولنا speaking-
۳۔ پڑھنا- reading
۴۔ لکھنا - writing
لہذا سرپرست، اساتذہ کا بنیادی فرض بنتا ہیکہ، مذکورہ بالا مہارتوں کے
تناظر گھر اور مدرسہ میں خوشگوار اکتساب کا ماحول فراہم کیا جائے۔ اور ان
بچوں کو اپنے شوق وذوق کے تحت آموزشی سرگرمیوں کا معقول نظم کیا جائے۔ اور
انہیں مٹی کے ظروف کو جس طرح کمہار تشکیل و تصنع میں اپنا پسینہ روندتا ہے،
ایک مالی جس طرح اپنے باغ کے حصار میں ان پودوں کی آبیاری اور نگہبانی میں
ہمہ تن قربان کرتاہے۔ جس کے بدولت بیش بہا ثمر آور، صارفین کے بھوک کا
وسیلہ بنتے ہیں۔ عین اسی طرح یہ بچے، قوم کے نوعمر میراث اپنی زبان چاہے وہ
اردو ہو یا اپنی علاقائی یا مادری زبان کوئی اور کیوں نہ ہو۔۔
ان زبانوں میں پنپتے ہوئے، اجاگر ہوتے ہوئے ملک اور قوم کے لیے ایک قیمتی
اثاثہ بن سکتے ہیں۔
آیئے: ہم آج ہی یہ عہد پیماں کرلیں اور اس بات کو ہم لاگو کرلیں کہ زبان کا
تحفظ کا ذمہ ہمارے شانوں پر ہے۔ اگر یہ عزم مصمم میں استقامت اور تسلسل و
ترسیل کا سبیل کوچ کر پاتاہے، تو ہمارا عہد پیماں آنے والے کل کے لیے مصداق
ثابت ہوگا۔ مبادا!۔۔۔۔۔۔
ہم زبان کے تیئں غفلت برتیں اور ہنوز طیرہ تیرہ عقائد میں اسیر رہیں گے۔ تو
وہ وقت قریب تر کہ یہ زبانیں، اردو، ہندی، گجراتی، مراٹھی، اڑیہ، بنگالی،
وغیرہ ملک کے طبعی اور حقیقی ارض ہندوستانی سے معدوم ہوجایئں گی۔۔ |
|