ماں

انسان کو اشرف المخلوقات کہاجاتاہے۔ کیوں کہ اس کو عقل وشعور اور دانش و حکمت سے نوازا گیاہے اور اپنی عقلمندی اور محنت سے چاند تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوچکاہے اور اب مریخ پر جانے کی تیاری میں لگا ہواہے اتنی کامیابیوں کے باوجود انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے۔

انسان اتنا کامیاب کیسے ہوا ہے؟ کون سی فیکٹری تھی جس میں اس نے کامیابی کے گُر سیکھے۔ کون سی درس گاہ تھی جس نے اس میں ایسے فن پیدا کردئیے جس کی وجہ سے دنیا میں اتنا مشہور ہوگیا۔کوئی بھی ذی روح چیزجب پیدا ہوتی ہے اس کے ابتدائی دن بڑے اہم ہوتے ہیں اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔پھر اگر بات کی جائے انسان کی تو اس کی پرورش سب سے مشکل کام ہے۔ انسان کا بچہ پالنا انتہائی مشکل کام ہے یہ ذمہ د ار ی ماں کے حصہ میں آتی ہے ماں پڑھی لکھی ہو ۔ یا پھر ان پڑھ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات اس کے دل میں اسکی اولاد کے لئے ایسی محبت پیدا کر دیتی ہے کہ اسے یہ مشکل کام تمام دوسروں کاموں سے آسان لگتاہے اور ماں بچوں کی پرورش کے گُربھی سیکھ لیتی ہے اپنے آرام کی فکر کئے بغیر وہ بچے کو ہر طرح کا سکون مہیا کرتی ہے ماں اپنی اولاد کے بغیر بولے بھی ان کی ضرورتیں سمجھ لیتی ہے جب بچہ چھوٹا ہوتاہے جب بول بھی نہیں سکتا۔ ماں بچے کو اس وقت بھی سمجھتی ہے۔ اپنا ہر قسم کا آرام ماں اپنی اولاد کے لئے قربان کردیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنت جیسی عظیم نعمت کو بھی اﷲ تعالیٰ نے ماں کے قدموں میں رکھا دیاہے ماں وہ ہستی ہے جس کانعم البدل دنیا میں نہیں ہے۔ انسان کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی ہستی کا نام ماں ہے۔ جب بھی انسان مشکل میں ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کے بعد اگر اس کے منہ سے کوئی لفظ نکلتا ہے تو لفظ ماں ہے۔ آپ تجربہ کر کے دیکھیں جب کبھی مشکل میں ہوں تین دفعہ لفظ ماں پکاریں یقین کریں آپ کو ایک تسکین اور راحت کا احساس ہوگا۔ بات تو احساس کی ہے اگر محسوس کرنے کی طاقت نہ ہو توپھر خرابی ہماری اپنی ہے ہمارے پاک نبیﷺ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہا ایک شخص کی جان آسانی سے نکل نہیں رہی تھی اس شخص کو آپﷺکے
دربار میں پیش کیا گیا۔آپ ﷺ نے فرما یا ۔اس کی ماں کو بلایا جائے۔ و ہ شخص ماں کی نافرمانی کیا کرتا تھا۔جس کی وجہ سے اس پر یہ عذاب مسلط ہواتھا۔ آپ ﷺ نے اسکی ماں کو ارشاد فرمایا کہ اپنے بیٹے کو معاف کر دیں تاکہ اس کی روح آسانی سے پرواز کرسکے۔ ماں نے انکار کردیا ۔کیوں کہ وہ اپنی ما ں کو بہت ستاتا تھا۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام سے فرمایا۔ کہ آگ جلاؤ اور اس کو اس میں ڈال دو تاکہ اس کی جان نکل سکے۔ ماں نے جب یہ سنا تو فورا کہا نہیں نہیں ایسا نہ کریں میں اس کو معا ف کرتی ہوں۔ یہ ہے ماں کی محبت کا ایک رنگ۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا توحضرت موسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اب ذرا سنبھل کر آنا کیوں کہ اب آ پ کے لئے دعا کرنے والی ہستی دنیا میں نہیں رہی۔اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک امتی کو جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نصیب ہوا۔ کیوں کہ اس کی ماں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتی تھی کہ اے میر ے اﷲ ! میرے بیٹے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پڑوس نصیب فرما۔ اسی طر ح ایک قصہ سنا تھا کہ ایک بچے کی ماں فوت ہوگئی تو اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی۔تو اس کی سوتیلی ماں نے اس کی پرورش کی۔کسی جب اس بچہ سے پوچھا کہ حقیقی ماں اور سوتیلی ماں میں کیا فرق ہے تو بچے نے کہ میری ماں جھوٹی تھی اور سوتیلی ماں سچی ہے۔وجہ یہ بتائی کہ جب میر ی ماں مجھ سے ناراض ہوتی تھی توکہتی تھی کہ تمہیں کھانا نہیں دوں گی اور جب میں سو جاتا تومجھے جاگاکر کھانا کھلاتی تھی لیکن جب سوتیلی ماں ناراض ہوتی ہے اور کہتی ہے کھانا نہیں دوں گی تو پھر مجھے کھانا نہیں ملتا۔ ایک شخص نے اپنی بوڑھی ماں کو کئی حج اپنے کندھے پر اٹھا کر کروائے اور اﷲ کے پاک نبیﷺ سے پوچھا کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا تو جواب ملا ابھی تو اس ایک رات کا حق بھی ادا نہیں ہوا ۔جب تم چھوٹے تھے اور بستر گیلا کر دیتے تھے تو تمہاری ماں سردیوں کی راتوں میں خود گیلی جگہ سو جاتی تھی اور تم کو خشک جگہ پر سُلاتی تھی۔ ایک دوست نے بڑی پیاری با ت کی کہ ماں کبھی نہیں مرتی۔ چاہے دنیا سے چلی بھی جائے ۔ ہاں ان کے لئے مر جاتی ہے جو اُن کی قبر پر جانا چھوڑ دے۔ ماں کتنی عظیم ہستی ہے اس کا اندازہ اور قدرخوش بخت لوگ ہی کر سکتے ہیں۔

جن کی مائیں زندہ ہیں اﷲ تعالیٰ ان کو تادیر سلامت رکھے اور انھیں چاہیے کہ ماؤں کی قدر کریں اور انکی خدمت کرکے دنیاو آخرت کی کامیابیاں حاصل کریں۔ کبھی ماں کو دکھ نہ دیں۔ ان سے ہمیشہ دعائیں لیں۔ماں کے لئے سب کچھ چھوڑ دینا۔لیکن کسی بھی چیزیا انسان کے لئے کبھی ماں کو مت چھوڑنا۔ماں قدرت کا انمول تحفہ ہے۔

اورجن کی مائیں اس دنیامیں نہیں رہیں۔وہ ان کے لئے دعا مغفرت کریں۔ان کے لئے صدقہ کریں۔اور ان کے نام پر ایسے کام کریں جن کا ان کو فائدہ پہنچے۔ ان کو ایصال ثواب کریں۔ اور سب سے اہم بات کہ ان کی قبر کی زیارت کو اپنا معمول بنائیں۔ والدین یا کسی ایک جو فوت ہوجائے جمعہ کے دن ان کی قبر پر جانا حدیث شریف کے مطابق مقبول حج کا ثواب کا ذریعہ ہے۔یہ سب جاننے کے باوجود ا گر ہم اس طرف دھیان نہ دیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کوتاہی کہاں ہے۔ اور اس کو ختم بھی کرنا چاہیے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں ماں جیسی عظیم ہستی کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
 
MUHAMMAD IMRAN ZAFAR
About the Author: MUHAMMAD IMRAN ZAFAR Read More Articles by MUHAMMAD IMRAN ZAFAR: 29 Articles with 34983 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.