محمد علی کلے امریکی باکسر تھے، وہ امریکی ریاست کنیکٹی
کٹ کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کا سب
سے بڑا اعزاز ”ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ“جیتا اور اولمپک میں سونے
کے تمغے کے علاوہ شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چیمپیئن بھی جیتی۔ وہ تین
مرتبہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے والے پہلے باکسر تھے۔ محمد
علی کلے نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو شکست دی۔ اس
کے بعد مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو زیر کیا۔
باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انہوں نے 56 مقابلے
جیتے اور 37 ناک آؤٹ اسکور کیا۔ اس طرح وہ 20 ویں صدی کے عظیم ترین کھلاڑی
قرار پائے۔
محمد علی کلے اپنے کیریئر کے آغاز میں عیسائی تھے، نام تھا کیسیس کلے۔
عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور ان کا نام محمد علی رکھا گیا۔ جب محمد
علی نے اسلام قبول کیا تو یورپی معاشرے نے اس عظیم ترین قابل قدرکھلاڑی کو
اسلام لانے کی پاداش میں طرح طرح سے زچ کرنا شروع کردیا۔ جس دن انہوں نے
پریس کانفرنس کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ایک امریکی صحافی نے
پوچھا کہ کیا تم واقعی مسلمان ہوگئے ہو؟ انہوں نے کہا ”ہاں“ تو صحافی نے
طنزاً کہا: ”A BLACK MUSLIM ایک کالا مسلمان“محمد علی کلے نے فوراً کہا کہ
تم لوگوں نے کبھی کسی کو کالا عیسائی یا کالا یہودی کیوں نہیں کہا؟ صرف
مسلمان کو ہی کہتے ہو۔
انھی دنوں امریکا ویت نام میں قتل عام کر رہا تھا، امریکا میں ہر صحت مند
نوجوان پر فوج میں بھرتی ہوکر ویت نام جانا ضروری تھا۔ چرچ کے پادری اس سے
مستثنیٰ تھے۔ محمد علی اس وقت اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ایک
دن اس عالمی چیمپیئن کو کہا گیا کہ تمہیں آرمی میں جانا ہوگا، انہوں نے
جواب دیا کہ میں امریکا کے قانون کے مطابق فوج سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ میری
حیثیت بھی مذہب اسلام میں ایک پادری کی طرح ہے، لیکن امریکا کا تعصب اور
مسلمانوں سے نفرت ان کے پیچھے پڑگئی۔ محمد علی کلے کو فوج میں جانے سے
انکار کرنے پر پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
محمد علی سے باکسنگ کا اعزاز بھی واپس لے لیا گیا۔
یورپ ہمیشہ سے اسلام فوبیا کا شکار رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس میں
اضافہ ہوتا نظر آیا ہے۔ اس کی تازہ مثال جرمنی میں مسلمانوں کی مساجد پر
ہونے والے حملوں کے واقعات ہیں۔ جرمنی یورپ کا ایک انتہائی مہذب، ترقی
یافتہ اور کثیر الثقافتی ملک ہے، لیکن اس مہذب یورپی ملک میں اسلام فوبیا
کا یہ عالم ہے کہ جرمنی میں اسلامی مراکز اور مسجدوں پر حالیہ مہینوں کے
دوران حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015ءکے ابتدائی 6 مہینوں میں کم از کم 23
مرتبہ مسجدوں اور اسلامی مراکز پر حملے کیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے
بارہا سیکورٹی کے انتظامات کرنے کی اپیل کے باوجود بھی جرمن حکومت مسجدوں
اور اسلامی مراکز میں سیکورٹی کے انتظامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ صرف
جرمنی کا معاملہ ہی نہیں ہے، بلکہ پورا یورپ اسلام فوبیا میں مبتلا ہے۔
حکومتی اداروں، ذرایع ابلاغ اور شر پسند عناصر کی جانب سے پھیلائے اشتعال
نے امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں ہوشربا اضافہ کیا ہے۔ مسلمانوں سے
نفرت کے سبب ان کے خلاف حملے بڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی
سلوک برتا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ مساجد کے باہر نعرے
بازی، مساجد کے اندر سور کا گوشت پھینکنا اور مساجد کی دیواروں پر اسلام
مخالف نعرے درج کرنے جیسے واقعات کا پیش آنا معمول کی بات ہے۔
ان حالات میں یہ سوال غور طلب ہے کہ یورپ میں اسلام فوبیا کی آخر کیا وجہ
ہے؟ محققین کہتے ہیں کہ یورپ میں اسلام فوبیا کی وجہ یہ ہے کہ یورپی ملکوں
میں نو مسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسلام کو خطے کا سب
سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب قرار دیا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب
مسلمان یورپ، برطانیہ وغیرہ میں اجنبی تھے۔ اہل یورپ نے مسلمانوں کے لیے
دروازے ضرورکھولے، مگر ان کے دل نہیں کھلے تھے،لیکن آج اسلام امریکا و
برطانیہ سمیت پورے یورپ میں بڑے جوش وخروش سے پھیل رہا ہے، اسلامی لٹریچر
تقسیم ہو رہا ہے۔ لوگ قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ
اور تحقیق کے بعد اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور یورپ کے غیر مسلموں کو
اسلام کا یوں روزفزوں ترقی کرنا کسی طور بھی قبول نہیں ہے۔ یورپ میں
مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی بہت سے متعصب اہل مغرب کو خوفزدہ کیے
ہوئے ہے۔ اسی لیے آئے دن گیرارڈ بیٹن اور ٹیری جونز جیسے متعصب لوگ یورپ
میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوفزدہ ہوکر اسلام کی توہین پر اتر
آتے ہیں۔ کبھی نعوذ باللہ دنیا کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کو آگ لگاکر
اپنے بغض کا اظہار کیا جاتا ہے اور کبھی قرآن مجید کے بعض حصوں سے لاتعلقی
کے اظہار کا کہا جاتا ہے۔ کبھی خانہ کعبہ و مدینہ منورہ پر حملے کی دھمکیاں
دی جاتی ہیں اورکبھی مساجد کے مینار گرانے، مساجد کو مسمارکرنے اور مساجدکی
تعمیر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب پر پابندی
لگاکر مسلمانوں کو ستایا جاتا ہے۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں:”یورپ میں جو
مسلمان ہیں، وہ عموماً اپنے اسلامی نام نہیں لکھتے اور نہ اپنے اسلام کا
عام طور پر اعلان کرتے ہیں۔ جیسے ہی یورپ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں
شخص مسلمان ہوگیا ہے، فوراً اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔“ اس وقت دنیا کی
آبادی لگ بھگ 7 ارب ہے جس میں سے تقریباً پونے دو ارب آبادی مسلمانوں کی
ہے۔ عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد
مسلمان ہے ، دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، جس میں
آیندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس
کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے اور اس میں
مزید تیزی کے ساتھ اضافہ ہوگا۔ 2010 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ
کے قریب تھی، جو 2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔
فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے نے عالمی سطح پر بین
المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ،جس کے مطابق 2030ءمیں جب دنیا کی آبادی
تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی
2ارب20کروڑ ہوگی۔ اسلام کے پھیلتے دائرہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی
خاتون صحافی اوریانہ فلاسی کہتی ہیں کہ آنے والے بیس سال میں پورے یورپ کے
کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے ،کیونکہ ان شہروں میں
مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے
کہ اسلام قبول کرنے والوںمیں بڑی تعداد عورتوں کی ہے۔ یورپ میں اگر چار
افراداسلام قبول کرتے ہیںتو ان میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں
کی اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے پورا یورپ خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو مختلف
طریقوں سے تنگ کررہا ہے، لیکن اسلام ایسی قوت ہے، جس کو جبروتشدد کے ذریعے
دبایا نہیں جاسکتا۔ قدرت نے اس میں ایسی لچک رکھی ہے کہ اس کو جتنا دبایا
جائے گا یہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔
|