میں چھوٹا سا تھا جب میرے نانا
نانی فوت ہو گئے تھے۔ میری والدہ کے گیارہ بہن بھائی پہلے ہی فوت ہو چکے
تھے۔ کسی کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ میری کوئی بہن بھی نہیں تھی۔ اسلئے میں
لوگوں کو دیکھ کر اکثر حسرت کا شکار ہو جاتا۔ میری والدہ کی طرف کے لوگوں
میں سے میرے والدہ کے چچا جان شریف اور میرے والدہ کی ممانی جان اقبال مجھے
بہت پیار کیا کرتے۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں ہیں اور
میرا ایک بچپن کا دوست تھا جمیل اور ہے بھی۔ ہم بالوں کے سٹائل سے لے کر
کپڑوں کے فیشن تک حتی الامکان ایک جیسے رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ بچپن سے آگے
تک اکھٹے ہی بڑے ہوئے تھے۔ جمیل کا تعلق ایک نہایت شریف خاندان سے تھا۔ جب
میں ان کے گھر جاتا تو میں بھی اس گھر میں ویسے ہی رہتا جیسے وہ اپنے گھر
میں۔ بلکہ اپنے گھر سے زیادہ خوش۔ میرے گھر میں میرا ہم عمر کوئی نہ تھا۔
میں جمیل کے سارے رشتہ داروں کو جانتا تھا اور وہ مجھے۔ دوستی تھی، پیار
تھا، مذاق اور مزاح بھی۔ جو لوگ اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے
کردار میں کتنی ہی اونچ نیچ آ جائے لیکن شاندار لوگ شاندار ہی رہتے ہیں۔
جمیل کے چھوٹے بھائی شکیل کی منگنی ہو چکی تھی۔ میں کالج سے جمیل کے گھر
پہنچا تو رات کے کھانے پر میری ملاقات فریحہ سے ہوئی۔ فریحہ جمیل کی خالہ
کی بیٹی تھی۔ برٹش نیشنل تھی اور کبھی کبھی پاکستان آیا کرتی تھی۔ اس دفعہ
فریحہ بہت لمبےعرصے کیلئے پاکستان آئی تھی۔ فریحہ لندن میں رہتی تھی اور
میں اس سے لندن کے بارے میں بہت سوال کیا کرتا تھا۔ فریحہ نے مجھے بتایا
اویس بھائی کہ سارا انگلینڈ صاف نہیں ہے۔ لندن کی سڑکوں کے ساتھ راہگیروں
کے لئے بنے ٹائلٹ تو اتنے گندے ہیں کہ آپ تو وہاں کبھی نہیں جا سکتے۔ میں
نے بڑی حیرت سے یہ بات سنی۔ پھر ایک دفعہ فریحہ نے مجھے بتایا کہ لندن میں
ایسے علاقے ہیں جہاں کالے ہر جانے والے کو لوٹ لیتے ہیں اور شہر میں جہاں
بھی موقع ملے۔ ان سے بچ کر رہنا پڑتا ہے۔ چوریاں بھی ہوتی ہیں اور بےایمانی
بھی ہے۔ اکثر گورے ٹیکسی میں سفر کر کے بیسے ادا نہیں کرتے اور بھاگ جاتے
ہیں۔ فریحہ نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ گھر کے نیچے گیراج سے شور کی آواز
آئی ۔ جب دیکھا تو پتہ چلا کہ پولیس چند ڈاکوؤں کو لے کر آئی تھی۔ ان
ڈاکوؤں نے بہت بڑا ڈاکہ مارا تھا اور ڈاکے کی رقم ان کے گیراج میں چھپا گئے
تھے۔ انہوں نے کسی طرح گیراج کا درازہ کھول لیا تھا۔ پولیس نے گیراج کا
دروازہ توڑ کر تلاشی لی اور اندر سے پاؤنڈوں سے بھرے ہوئے تھیلے برآمد ہو
گئے۔ پھر تو پولیس نے آپ لوگوں کو بھی بہت تنگ کیا ہوگا۔ نہیں انہوں نے
ہمیں ساری کہانی سنائی، معذرت کی اور چلے گئے۔ میں نے لندن سے آنے والے کئی
لوگوں کو سنا تھا وہ تو انگلینڈ کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیتے تھے۔
جبکہ مجھے تو وہاں کی بس ایک ہی اچھی بات پتہ چل سکی تھی کہ وہاں قانون کی
حکمرانی تھی۔ جانے کیوں کچھ لوگ وہاں کے بارے میں جھوٹی کہانیاں سنا کر
یہاں کے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔
فریحہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ فریحہ کو آئے کچھ دن ہی گزرے تھے۔ شکیل کے متوقع
طے شدہ سسرال ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ میں باہر سے آیا تھا سب کمرے خالی
تھے۔ میں ڈرائنگ روم میں گیا اور مہمان دیکھ کر واپس کمرے میں آ کر بیٹھ
گیا۔ میری غیر موجودگی میں شکیل کی ہونے والی ساس نے میرے بارے میں جانے
کیا کہہ دیا کہ شکیل کی والدہ کو اور سب کو برا لگا۔ بات بڑھ گئی اور بات
کا اختتام یوں ہوا کہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ سب خاموش تھے میں نے جمیل کے کان میں
کہا کہ فریحہ اور شکیل سے بات کرے اور اگر وہ دونوں راضی ہوں تو ان کا رشتہ
بہت مناسب ہوگا۔ بات ہوئی اور کچھ دن میں رشتہ ہو گیا اور پھر آخرکار شادی
بھی ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد یہ ساری فیملی انگلینڈ شفٹ ہو گئی اور آج بارہ سال
بعد میں، جمیل، جمیل کے والدین اور فریحہ اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ مائرہ
بھی تو لندن ہی میں ہوتی ہے کبھی ملی ہے۔ میں نے پوچھا۔۔۔ مائرہ جمیل کی
چھوٹی بہن کی دوست تھی۔ بچپن سے لے کر شادی تک اس گھر میں بڑی ہوئی تھی۔
یتیم تھی۔ بات چلتی گئی اور اور میں جمیل کا منہ دیکھنے لگا ۔ بات ہی ایسی
تھی۔ مائرہ جمیل کی چھوٹی بہن کی دوست نہیں بلکہ اس گھر میں کام کرنے آتی
تھی۔ اس گھر والوں نے اسے کبھی نوکر نہیں سمجھا تھا۔ کبھی ڈانٹا نہیں تھا۔
وہ توان کے گھر میں بیٹی بن کر رہی تھی۔ اور یہ بات مجھ سے بھی چھپی رہی
تھی۔ کبھی کوئی اسے نوکروں کی طرح سمجھتا تو تب ہی تو مجھے پتہ چلتا۔ مجھے
سب سے پیار تو پہلے ہی تھا لیکن سب لوگ مجھے بہت شاندار شاندار لگے۔ ہم نے
کھانا کھایا۔ پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔ اور بات شادیوں پر آ کر ٹک گی اور
پھر میں فریحہ کا منہ تکنے لگا۔ اس نے بھی تو بات ایسی کی تھی۔ کسی ظالم
ساس کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ فریحہ کے دو بیٹے ہیں اور فریحہ نیت کر رہی تھی
کہ جب میرے بیٹوں کی شادی ہوگی میں تو کسی کی بیٹیوں کو اپنی بیٹی کی طرح
رکھوں گی۔ کوئی فرق نہیں رکھوں گی۔ آخر میں بھی تو بیٹی والی ہوں۔ میں اس
سارے گھر کو جانتا ہوں۔ تین بہوؤں کو بیٹیوں کی طرح خوش و خرم رہتے دیکھا
تھا اور آج ان کی بہو بھی اس راستے پر چلنے کی نیت کر رہی تھی۔ واقعی
شاندار لوگ شاندار ہی ہوتے ہیں۔ چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا یو کے میں۔
میرے نظر میں وہ تمام بیٹیاں اور بہنیں آ گئیں جن کا ساسوں کے ظلم کی وجھ
سے، کہیں نندوں اور کہیں خاوندوں کے ظلم کی وجہ سے ان کے اور ان کے پچھلوں
کی زندگی ایک عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کاش ان کی ساسوں، نندوں اور
خاوندوں کی سوچ بھی شاندار ہو جائے۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ خود بخود۔۔۔؟
یقیناً ہم سب کو اس کیلئے کوشش کرنی ہوگی اور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مذمت کر کے، پیار سے سمجھا کر، کسی طرح بھی۔ کیا میں، ہم، آپ وقت آنے پر
ایسا کرسکیں گے۔ |