حقیقت میلاد النبی - پچپنواں حصہ

فراقِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی کیفیتِ غم:-

مؤذنِ رسول و عاشق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی فراقِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ منورہ سے ہجرت کر کے شام کے شہر حلب کی طرف چلے گئے، کہ شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہتے ہوئے انہیں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں گزرے ہوئے شب و روز یاد آجاتے اور گلی کوچوں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خرام ناز کے مناظر بے اختیار آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے، جس کی وہ تاب نہ لا سکتے تھے۔

شارحِ صحیح البخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے قلبِ مضطر کی وجہ سے شہر مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اس ارادے کا علم ہوا تو آپ نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ پہلے کی طرح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان دیتے رہیں۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا :

إني لا أريد المدينة بدون رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ولا أتحمل مقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خالياً عنه.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر اب مدینہ میں جی نہیں لگتا اور نہ ہی مجھ میں ان خالی و افسردہ مقامات کو دیکھنے کی قوت ہے جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے تھے۔‘‘

کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 15 : 24

صحیح البخاری میں آپ رضی اللہ عنہ کا جواب ان الفاظ میں منقول ہے :

يا أبا بکر! إن کنت إنما اشتريتني لنفسک فأمسکني، وإن کنت إنما اشتريتني ﷲ فدعني.

’’اے ابوبکر! اگر آپ نے مجھے اپنے لیے خریدا تھا تو مجھے روک لیں، اور اگر اللہ کی رضا کی خاطر خریدا تھا تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب مناقب بلال بن رباح ص، 3 : 1371، رقم : 3545
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 396، رقم : 32336
3. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 337، رقم : 1010
4. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 238
5. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 10 : 132، 133
6. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 2 : 24
7. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 481

موسیٰ بن محمد بن حارث تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

لمّا توفي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أذن بلال ورسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لم يقبر، فکان إذا قال : أشهد أن محمداً رسول اﷲ انتحب الناس في المسجد. قال : لما دفن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال له أبوبکر : أذن، فقال : إن کنت إنما أعتقتني لأن أکون معک فسبيل ذلک، وإن کنت اعتقتني ﷲ فخلني ومن أعتقتني له، فقال : ما أعتقتک إلا ﷲ. قال فإني لا أؤذن لأحد بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .

’’جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اُس وقت اذان کہی کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دفن بھی نہ ہوئے تھے۔ جب انہوں نے اشھد ان محمداً رسول اﷲ کہا تو لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دفن کر دیے گئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا : اذان کہیں۔ اُنہوں نے کہا : اگر آپ نے مجھے اس لئے آزاد کیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہوں تو اس کا راستہ یہی ہے، اور اگر آپ نے مجھے اللہ کے لئے آزاد کیا ہے تو مجھے اور اُسے چھوڑ دیجیے جس کے لئے آپ نے مجھے آزاد کیا ہے۔ تو اُنہوں نے کہا : میں نے تمہیں محض اللہ کے لئے آزاد کیا ہے۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا : تو پھر میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کے لئے اذان نہ کہوں گا۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبري، 1 : 419، رقم : 1828
2. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 236، 237
3. أزدي، الجامع، 11 : 234
4. أبونعيم، حلية الأوليا وطبقات الأصفياء، 1 : 150، 151
5. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 439
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 10 : 361

اِس رِوایت کو عربی زبان کی معروف لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کے مؤلف یعقوب فیروز آبادی (729۔ 817ھ) کامل سند کے ساتھ ذِکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

کذا ذکره ابن عساکر في ترجمة بلال رضی الله عنه، وذکره أيضاً في ترجمة إبراهيم بن محمد بن سليمان بسند آخر إلي محمد بن الفيض، فذکره سواء، وابن الفيض روي عن خلائق، وروي عنه جماعة، منهم : أبو أحمد بن عدي وأبو أحمد الحاکم، وأبوبکر ابن المقري في معجمه وآخرون.

’’جیسا کہ یہ روایت ابن عساکر نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حالات میں ذکر کی ہے اور اسے ابراہیم بن محمد بن سلیمان کے حالات میں ایک اور سند کے ساتھ بیان کیا اور وہ سند مشہور محدث محمد بن فیض تک جا پہنچتی ہے۔ ابن فیض نے یہ روایت کثیر محدثین سے نقل کی اور آگے ابن الفیض سے روایت کرنے والے بھی کثیر محدثین ہیں، جیسے : ابو احمد بن عدی، ابو احمد الحاکم، ابو بکر بن المقری اور دیگر محدثین۔‘‘

فيروز آبادي، الصلات و البشر في الصلاة علیٰ خير البشر : 187، 188

چنانچہ یہ کہہ کر کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، آپ شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زِیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :

ما هذه الجفوة، يا بلال! أما آن لک أن تزورني؟

’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا کیوں چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘

خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر ’’لبیک یا سیدي یا رسول اﷲ‘‘ کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آ کر مل جاؤ، غلام حلب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر اَنوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے : بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیوں کہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مشورہ کیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنھما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

يا بلال! نشتهي نسمع أذانک الذي کنت تؤذن به لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المسجد.

’’اے بلال! آج ہم آپ سے وُہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے نانا جان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اِس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘

اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اُسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :

فلما أن قال : اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال : أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ، ازداد رجّتها، فلما قال : أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ، خرجت العواتق من خدورهن، و قالوا : بعث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما رُئي يوم أکثر باکياً ولا باکية بالمدينة بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من ذالک اليوم.

’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بہ آوازِ بلند) اَﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اِضافہ ہوتا چلا گیا)، جب اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے کلمات ادا کئے تو گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتیٰ کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رِقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا)۔ لوگوں نے کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔‘‘

1. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم : 39، 40
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 7 : 97
3. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، 3 : 204، 205
4. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 358
5. فيروز آبادي، الصلات و البشر في الصلاة علي خير البشر صلي الله عليه وآله وسلم : 187

6۔ ھیتمی نے ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم (ص : 27)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ واقعہ جید سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔

7. سخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة : 221

8۔ شامی نے ’’سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (12 : 359)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ واقعہ ابن عساکر نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، 2 : 308، 309

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اَذانِ بلال کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

اذاں اَزل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اِک بہانہ بنی

اِقبال، کلیات (اُردو)، بانگِ درا : 81

ماہِ ربیع الاوّل میں خوشی و غم باہم گلے مل جاتے:-

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور میں جب بھی ولادت کا دن آتا تو جہاں اُنہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی ہوتی، وہاں غم و اندوہ کی کیفیات بھی زخمِ جدائی کو ہرا اور ماحول کو افسردہ کر دیتیں جس کے باعث ان کے لیے دھوم دھام سے جشنِ ولادت کا اہتمام کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی کیفیات تابعین اور تبع تابعین کے اَدوار میں بھی رہیں، تابعین نے اگرچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شب و روز کا اَز خود مشاہدہ نہ کیا تھا مگر اس کا تذکرہ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سنا اور پھر ان سے تبع تابعین نے سنا۔

ولادت کی خوشی غمِ وصال پر بعد اَزاں غالب آتی گئی:-

جب تبع تابعین کا دور گزر گیا تو بعد میں آنے والوں نے چوں کہ ولادت اور صحبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحوال کو دیکھا تھا نہ وصال کے غم و ہجر کا مشاہدہ کیا تھا۔ اِمتدادِ زمانہ سے رفتہ رفتہ خوشی کا پہلو غم پر غالب آتا چلا گیا اور وقت کے ہاتھ نے جدائی کے زخم پر مرہم رکھ دیا۔ اَفرادِ اُمت اس نعمتِ عظمی کی خوشی کے مقابلے میں غم بھول گئے اور انہیں یقین آگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات اور وفات دونوں اُمت کے لیے سراپا خیر ہے۔ دوسرے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور ان کے لیے موجبِ راحت و طمانیت تھا۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103413 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.