حقیقت میلاد النبی - چھپنواں حصہ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور رِحلت دونوں رحمت ہیں:-

اُمت کے حق میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور رِحلتِ اَطہر دونوں باعثِ رحمت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

حياتي خير لکم تحدثون ونحدث لکم، ووفاتي خير لکم، تعرض علي أعمالکم، فما رأيت من خير حمدت اﷲ عليه، وما رأيت من شر استغفرت اﷲ لکم.

’’میری حیات تمہارے لیے باعثِ خیر ہے کہ تم دین میں نئی نئی چیزوں کو پاتے ہو اور ہم تمہارے لئے نئی نئی چیزوں کو پیدا کرتے ہیں۔ اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیر ہے، مجھے تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ پس جب میں تمہاری طرف سے کسی اچھے عمل کو دیکھتا ہوں تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور جب کوئی بری چیز دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں۔‘‘

یہ حدیث مبارکہ واضح کرتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک بھی اسی طرح امت کے حق میں رحمت ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ طیبہ سارے عالم کے لیے دائمی رحمت ہے۔

1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925

2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
3۔ حکيم ترمذي، نوادر الاصول في احاديث الرسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 4 : 176
4۔ دیلمی نے ’’الفردوس بماثور الخطاب (1 : 183، رقم : 686)‘‘ میں اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
5۔ قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 : 19
6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔

7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257

8۔ زین الدین ابو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

قدرے اِختلافِ اَلفاظ کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت درج ذیل محدثین نے بھی نقل کی ہے :

9. ديلمي، الفردوس بما ثور الخطاب، 2 : 137، 138، رقم : 2701
10. عجلوني، کشف الخفاء و مزيل الإلباس، 1 : 442، رقم : 1178

بکر بن عبد اﷲ مزنی سے مرسلاً اس روایت کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے :

11. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 194
12. ابن إسحاق، فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 38، 39، رقم : 25، 26
13. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 34

14۔ احمد بن عبد الہادی نے ’’الصارم المنکی فی الرد علی السبکی (ص : 266، 267)‘‘ میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں اور بکر ثقہ تابعین میں سے ہے۔
15۔ محدث ابن الجوزی نے بکر بن عبد اﷲ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ’’الوفا باحوال المصطفیٰ (ص : 826، رقم : 1564، 1565)‘‘ میں بیان کی ہے۔
16۔ امام جلال الدین سیوطی نے ’’کفایۃ الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب (2 : 491)‘‘ اور ’’مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا (ص : 3)‘‘ میں لکھا ہے کہ ابن ابی اسامۃ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں بکر بن عبد اﷲ المزنی اور بزار نے اپنی’’مسند‘‘ میں عبد اﷲ بن مسعود سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے۔
17۔ اس بات کی تائید علامہ خفاجی اور ملا علی قاری نے ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کی شروحات ’’نسیم الریاض (1 : 102)‘‘ اور ’’شرح الشفا (1 : 45)‘‘ میں بالترتیب کی ہے۔

18. عجلوني، کشف الخفاء ومزيل الإلباس، 1 : 442، رقم : 1178

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال اُمت کے لیے باعثِ شفاعت ہے:-

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کی حکمت ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

إن اﷲ عزوجل إذا أراد رحمة أمة من عباده، قبض نبيها قبلها، فجعله لها فرطاً وسلفاً بين يديها، وإذا أراد هلکة أمة، عذبها، ونبيها حي، فأهلکها وهو ينظر، فأقر عينه بهلکتها حين کذّبوه وعصَوا أمره.

’’جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر اپنا خاص کرم کرنے کا اِرادہ فرماتا ہے تو اس امت کے نبی کا وصال کر کے اس امت کی شفاعت کا سامان کر دیتا ہے۔ اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے اپنے نبی کو جھٹلانے اور اس کے حکم کی نافرمانی کے باعث اس کی ظاہری حیات میں ہی اُنہیں عذاب میں مبتلا کر کے ہلاک کر دیتا ہے۔ اور اس امت کی ہلاکت کے ذریعے اپنے نبی کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرماتا ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إذا أراد اﷲ رحمة أمة قبض نبيها قبلها، 4 : 1791، 1792، رقم : 2288
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 22، رقم : 6647
3. بزار، البحر الزخار (المسند)، 8 : 154، رقم : 3177
4. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 315، رقم : 4306
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 11، 12

مذکورہ حدیث میں لفظ فرط کی تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری (م 1014ھ) لکھتے ہیں :

أصل الفرط هو الذي يتقدم الواردين ليهيئ لهم ما يحتاجون إليه عند نزولهم في منازلهم، ثم استعمل للشفيع فيمن خلفه.

’’فرط کسی مقام پر پہنچنے والوں کی ضروریات کو اُن کی آمد سے پہلے مہیا کرنے والے شخص کو کہا جاتا تھا، پھر یہ لفظ اپنے بعد آنے والے کی سفارش کرنے والے کے لیے اِستعمال ہونے لگا۔‘‘

ملا علي قاري، شرح الشفاء، 1 : 45

اِس اُمت پر اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی عنایت ہے کہ آخرت میں پیش ہونے سے پہلے ہی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لیے بہ طور شفیع اپنے پاس بلا لیا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرا وصال بھی تمہارے لیے رحمت ہے۔ لہٰذا یہ بات طے پاگئی کہ امت کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و وفات دونوں رحمت و نعمت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اُمت کے حق میں پہلی نعمتِ عظمیٰ ہے کہ اس کے ذریعے ہی دوسری نعمت حاصل ہوئی۔

نعمت پر شکر بجا لانا حکمِ خداوندی ہے:-

اﷲ کی نعمت کے حصول پر خوشی کا اِظہار اور شکر بجا لانا اللہ رب العزت کا حکم ہے جس کی تفصیل گزشتہ َابواب میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی سابقہ غم پر شکر بجا لاتے ہوئے غم و اندوہ اور افسوس کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ایسا کرنا تو نعمت کی ناقدری کے مترادف ہوگا۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا :

وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌo

’’اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘

ابراهيم، 14 : 7

غم اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی نعمت ختم ہو جائے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد بھی ختم ہو جائیں اور اس کے اثرات و نتائج کا سلسلہ بھی بند ہو جائے مثلاً کسی کے ہاں بیٹا ہوا اور وہ فوت ہوگیا۔ اب اس کے مرنے پر تو اسے غم ہوسکتا ہے کہ بیٹے کی نعمت اس سے چھن گئی لیکن پھر بھی شکرگزار مومنین کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ مال و دولت اور اولاد کی محرومی پر خدا سے شکوہ کریں، کیوں کہ یہ آزمائشیں تو آتی رہتی ہیں اور اﷲ تعالیٰ ایک نعمت چھن جانے پر اس کا نعم البدل عطا فرما دیتا ہے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے موقع پر سوگ منانا اور غم کرنا اُمتِ مسلمہ کا وطیرہ اور شیوہ نہیں اس لیے کہ سوگ نعمت کے خاتمے پر کیا جاتا ہے۔

اِظہارِ خوشی بدعت نہیں تقاضائے فطرت ہے:-

حصولِ نعمت پر خوشی منانا ایک فطری تقاضا ہے۔ جلیل القدر اَئمہ اسلام نے تصریح کی ہے کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت پر دھوم دھام سے خوشی کا اظہار عین شرعی اور فطری تقاضوں کی بجا آوری ہے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال پر غم کا اِظہار خلافِ شریعت اور اِسلام کے اَبدی اصول کے منافی ہے۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) اس حوالے سے اُصولِ شریعت بیان کرتے ہیں :

إن ولادته صلي الله عليه وآله وسلم أعظم النعم علينا، ووفاته أعظم المصائب لنا، والشريعة حثّت علي إظهار شکر النعم والصبر والسکون والکتم عند المصائب، وقد أمر الشرع بالعقيقة عند الولادة وهي إظهار شکر وفرح بالمولود، ولم يأمر عند الموت بذبح ولا بغيره. بل نهي عن النياحة وإظهار الجزع، فدلّت قواعد الشريعة علي أنه يحسن في هذا الشهر إظهار الفرح بولادته صلي الله عليه وآله وسلم دون إظهار الحزن فيه بوفاته.

’’بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہمارے لیے نعمتِ عظمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اِظہارِ شکر کا حکم دیا ہے اور مصیب پر صبر و سکون کرنے اور اُسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اِسی لیے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اِظہار کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔‘‘

1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 54، 55

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مسلمانوں سے اس اَمر کا متقاضی نہیں کہ وہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضانِ نبوت تاقیامت جاری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برزخی زندگی میں دنیاوی زندگی سے بڑھ کر حیات کے مالک ہیں۔ ملا علی قاری (م 1014ھ) نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بارے میں کیا خوب کہا ہے :

ليس هناک موت ولا فوت بل انتقال من حال إلي حال وارتحال من دار إلي دار.

’’یہاں نہ موت ہے اور نہ وفات بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقلی ہے اور ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف سفر کرنا ہے۔‘‘

ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 45

مفتی محمد مظہر اﷲ دہلوی لکھتے ہیں :

’’میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو، یہ دونوں جائز ہیں۔ ان کو ناجائز کہنے کے لیے دلیل شرعی ہونی چاہیے۔ مانعین کے پاس اس کی ممانعت کی کیا دلیل ہے؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرام نے نہ کبھی اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز اَمر کو کسی کا نہ کرنا اس کو ناجائز نہیں کر سکتا۔‘‘

مظهر اﷲ دهلوي، فتاوي مظهري : 435، 436

اُردو زبان میں سیرتِ طیبہ پر لکھی جانے والی پہلی کتاب کے مصنف مفتی محمد عنایت احمد کاکوروی (1228۔ 1279ھ) کا قول ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر منعقد ہونے والی محفل اِظہارِ مسرت کے لیے ہوتی ہے، اس میں غم کا اِظہار کرنا مناسب نہیں۔ آپ لکھتے ہیں :

’’مسلمانوں کو چاہیے کہ بہ مقتضائے محبتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل شریف کیا کریں اور اس میں شریک ہوا کریں۔ مگر شرط یہ ہے کہ بہ نیت خالص کیا کریں، ریا اور نمائش کو دخل نہ دیں۔ اور بھی اَحوالِ صحیح اور معجزات کا حسبِ روایاتِ معتبرہ بیان ہو کہ اکثر لوگ جو محفل میں فقط شعر خوانی پر اِکتفاء کرتے ہیں یا روایاتِ واہیہ نامعتبر سناتے ہیں خوب نہیں۔ اور بھی علماء نے لکھا ہے کہ اِس محفل میں ذکر وفات شریف کا نہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ یہ محفل واسطے خوشی میلاد شریف کے منعقد ہوتی ہے۔ ذکرِ غم جانکاہ اِس محفل میں نازیبا ہے۔ حرمین شریفین میں ہرگز عادتِ ذکرِ قصۂ وفات کی نہیں ہے۔‘‘

کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 15

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93521 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.