غزوات فتح و حنین اور طائف
غزوہ فتح
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لیے صلح ”حدیبیہ“ کے بعد یہودیوں کے
خطرات دور کرنے اور مدینہ کے شمال میں آباد عرب قبائل کے درمیان عراق، شام
کی حدود تک اشاعت اسلام کو وسیع کرنے کے امکانات روشن ہوگئے۔ قلمرو اسلام
میں اب تنہا جو طاقت باقی رہ گئی تھی اور جس کا وجود عربستان کے باہر ترویج
اسلام کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا وہ قریش مکہ تھے۔ دشمن کی اس اساسی پائگاہ
کی دو اہم ترین خصوصیات تھیں۔ پہلی تو یہ کہ یہ شہر بہت سے مسلمانوں نیز
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وطن تھا۔ اور دوسری وجہ یہ بھی کہ کعبہ
ابراہیم علیہ السلام یعنی اساسی مرکز توحید اور ان کا قبلہ اسی شہر میں
واقع تھا۔ ان دو وجذوہ کے علاوہ مسلمانوں نے اپنی اسلامی زندگی کے دوران جو
صدمات برداشت کئے ان میں سے اکثر و بیشتر اسی شہر کے لوگوں نے انہیں
پہنچائے تھے۔ مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر مکہ کا شمار ان اہم ترین مراکز
میں ہوتا تھا جنہیں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جزیرہ نما عرب میں دشمن
کے وجود سے پاک و صاف کر دینا چاہتے تھے۔ اور یہی منصوبہ عرصے سے آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر تھا۔
غزوہ ”حدیبیہ“ اور ”عمرة القضا“ دو ایسے بڑے کامیاب معرکے تھے کہ جن کے
باعث قریش کی عسکری بالادستی اور مکہ پر اجارہ داری ختم ہوگئی اور مسلمانوں
کے لیے مکہ واپس آنے، مناسک حج ادا کرنے اور اشاتع دین کے لیے راہیں ہموار
ہوگئیں مگر اس کے باوجود قریش کی سیاسی و ثقافتی برتری اور لعنت شرک و بت
پرستی اب بھی مثل سابق وہاں موجود تھیں۔
قریش کے خلاف تیسرا اور آخری قدم اٹھانے کے لیے اب مسلمانوں کے سیاسی حالات
و عسکری انتظامات قطعی طور پر موافق و سازگار تھے اور جو چیز اس راہ میں
رکاوٹ بنی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کسی قسم
کی عہد شکنی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر قریش نے اپنی طرف سے عہد و پیمان
توڑنے میں چونکہ پیش دستی کی اور قبیلہ ”بنی بکر“ کی حمایت میں انہوں نے
قبیلہ ”بنی خزاعہ“ کے بیس افراد کو محض اس بنا پر بے دردی سے قتل کر ڈالا
کہ ان کا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ باہمی معاہدہ تھا لہٰذا
یہ دشواری بھی دور ہوگئی۔ چنانچہ اب وہ وقت آن پہنچا کہ رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور مکہ پر تسلط حاصل کر کے کعبہ
کو بتوں سے پاک کریں اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنائیں۔ تاکہ شرک کی
سب سے بڑی اساسگاہ کے وجود اپنی قوم سے نیست و نابد کر دیں۔ بالخصوص ان
حالات میں جبکہ قبیلہ خزاعہ کا سردار اپنے ہم قبیلہ افراد کو ساتھ لے کر
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو چکا تھا اور اس نے ان
رقت انگیز واقعات کو بیان کر کے جو اس کے قبیلے کے لوگوں پر گزرے تھے قریش
کی عہد شکنی کا ذکر کیا اور ان کے خلاف اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
سے مدد کی درخواست کی۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو کو کوچ کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کی جانب اپنے ایلچی روانہ کئے تاکہ
انہیں بھی اس میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے۔ کوچ کا حکم ملتے ہی دس ہزار
سپاہی جمع ہو گئے اور یہ ایسی کثیر تعداد تھی جو اہل مدینہ نے کبھی اپنے
آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو غفلت
میں ڈالنے کے لئے تمام حفاظتی اقدامات کئے۔ ابتداء میں آپ نے اپنے قصد و
ارادے کو کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ وہ تمام راستے جو مکہ کی طرف جاتے تھے ان
کی سخت ناکہ بندی کر دی گئی۔ لوگوں کو دوسری جانب متوجہ کرنے کے لیے رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سپاہ کا ایک دستہ ”ابو قتادہ“ کی فرمانداری
میں ”اضم“ نامی مقام کی جانب روانہ کیا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا رخ اسی جانب ہے۔ اس کے بعد آپ نے بارگاہ ایزدی میں
التجا کی کہ قریش کی آنکھوں اور ان کے کانوں پر غفلت کا پردہ پڑ جائے اور
ہوش انہیں اس وقت آئے جب وہ اچانک سپاہ اسلام کو اپنے سروں پر مسلط پائیں۔
(مغازی ج۲ ص ۷۹۶)
یہ اقدام اس وجہ سے کیا گیا کہ دشمن اس سے قبل کہ اپنے دفاع کی خاطر اپنی
عسکری طاقت کا استعمال کرے خود ہی بغیر کسی تصادم کے حق کے سامنے سر تسلیم
خم کر دے اور حرم مکہ یعنی مقدس و معنوی پناہ گاہ ایزدی حتی الامکان
خونریزی کے بغیر فتح ہو جائے۔
تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود ”حاطب بن ابی بلیغہ“ نامی شخص نے قریش کو خط
لکھ دیا اور ”سارہ“ نامی عورت کو خط دے کر قریش مکہ کی جانب روانہ کیا تاکہ
انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا احتمالی عزم و
اقدام کیا ہوسکتا ہے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعے اس شخص کی خیانت کا علم
ہوگیا۔ چنانچہ آپ نے فوراً ہی حضرت علی علیہ السلام اور زبیر کو اس کام پر
مقرر فرمایا کہ اس عورت سے خط حاصل کریں اور اسے واپس مدینہ لے آئیں۔
(السیرة النبویہ ج۴ ص ۴۱۴)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ١٠رمضان سنہ ۸ ہجری کو دس ہزار مسلمانوں کے
ساتھ مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ چنانچہ جب آپ ”مرالطہران“ نامی مقام
پر تشریف فرما ہوئے تو دشمن کو آپ کے آنے کا ذرا بھی علم نہ ہوسکا۔
یہاں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ سپاہی وسیع میدان میں
منتشر و پراگندہ ہو جائیں اور ان میں سے ہر شخص آگ روشن کرے۔ رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس حربے نے اہل مکہ کو سخت وحشت و سراسیمگی میں مبتلا
کر دیا۔ (مغازیج۲ ص ۸۱۴)
ابو سفیان کے ہمراہ کچھ قریش سردار مکہ سے نکل کر باہر آئے تاکہ حالات کا
جائزہ لیں۔ راستے میں ان کی ملاقات سب سے پہلے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو سپاہ اسلام کے پہنچنے سے
قبل ہی وہاں پہنچ گئے تھے اور ان سے حالات کے بارے میں پوچھا۔ حضرت عباس
رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارا 10 ہزار
سپاہ کے ساتھ محاصرہ کر لیا ہے اب تمہارے لیے راہ نجات یہی ہے کہ دین اسلام
قبول کرلو۔ ابوسفیان کے ساتھ ”حکیم بن حزام“ اور بدیل ورقا“ بھی تھے۔ یہی
بات انہوں نے ان سے بھی کہی۔
یہ بات سن کر قریش کے سرداروں کے اوسان خطا ہوگئے اور حضرت عباس رضی اللہ
عنہ سے اتنا ہی کہا کہ اب ہم آپ کے رحم و کرم پر ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ
عنہ انہیں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے قریش کی وضع و کیفیت کے بارے میں کچھ سوالات
کئے اور ضروری اطلاعات حاصل کرنا چاہیں۔ نیز انہیں دین اسلام قبول کرنے کی
دعوت دی۔ انہیں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بات تسلیم کرنے کے علاوہ
کوئی چارہ نظر نہ آیا اور اس رات وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی
رہے۔ صبح کے وقت تمام سپاہ نے باآواز بلند اذان دی جسے سن کر ابوسفیان پر
خوف طاری ہوگیا اس کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اسے
ایک ٹیلے پر لے جایا گیا۔ سپاہی منظم دستوں کی شکل میں مسلح ہو کر سامنے سے
گزرے اور اس نے اسلام کی شان و عظمت اور عسکری معنوی طاقت اپنی آنکھوں سے
دیکھ لی۔ (مغازی ج۲ ص ۸۱۸)
۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |