65ء کی جنگ کی کچھ یادیں...سیف وسبو … شفقت نذیر
(سیف وسبو … شفقت نذیر, Stoke-on-trent)
65ء کی جنگ کی کچھ یادیں...سیف
وسبو … شفقت نذیر
کچھ لوگوں کی یہ عادت بن گئی ہے کہ تھوڑا سا اچھا لکھ لیتے ہیں اور لوگ
انہیں جب بہتر لکھاری سمجھنے لگتے ہیں تو پھر وہ ’’ لاف زنی‘‘ پر اتر آتے
ہیں، غرور وتکبر کی زبان بولنے لگتے ہیں اپنے آپ کو بہت بڑا دانشور خیال
کرنے لگتے ہیں اپنے لکھے ہوئے کو حرف آخر سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسی
ایسی دانشوری جھاڑتے ہیں کہ اوپر خدا اور نیچے وہ ۔۔۔ ایسے ہی کچھ لوگ اب
یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان65کی جنگ میں شکست سے دوچار
ہوگیا تھا ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری فوج نے
یہ جنگ شروع کی تھی اس کے استدلال میں وہ سول اور ملٹری کے درمیان طاقت کے
عدم توازن کی بھی مثال دیتے ہیں ۔ یہ ایسے تاریخ دان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ
ہمیں تو تاریخ غلط پڑھائی جاتی ہے ہم تو 65 کی جنگ بھی ہار گئے تھے اگرچہ
میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن بین الاقوامی میڈیا کے حوالے سے 65کی
جنگ میں پاکستان کی فتح کے چند ثبوت یہاں رکھنا چاہتا ہوں۔10 ستمبر 1965
جمعہ کو دی ڈیلی ٹیلی گراف کی ایک خبر میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج کو
پاکستان نے واپس اس کو اپنے علاقے کے اندر دھکیل دیا ہے فیروز پور میں
موجود بھارتی فوج پر پاکستانی توپ خانہ شدید گولہ باری کررہا ہے اور بھارت
کا شہر امرتسر اس وقت شدید خطرے میں ہے اخبار نے جو سرخی بنائی وہ یہ تھی
India Admits Army Driven Back Battle Zone
گیارہ ستمبر 1965 ہفتے کی دی ٹائمز کی اشاعت میں کہا گیا کہ لاہور کے محاذ
پر پاکستان کے بھاری حملے کے بعد ہندوستان نے پسپائی تسلیم کرلی اخبار کی
سرخی یہ تھی۔
Pakistan Clams Defeat of Final Thrust
اسکاٹس ڈیل ڈیلی پراگرس نے 10ستمبر 1965 کی اپنی اشاعت میں لکھا کہ ’’
پاکستان نے بھارتی فوج کو اپنے علاقے سے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
India Troops Thrown Back by Pakistan
نیو پورٹ ڈیلی نیوز نے 10 ستمبر 1965 کی اشاعت میں یہ خبر دی کہ سرحدوں پر
جاری غیض وغضب کی جنگ نے بھارتیوں کو اٹھا کر پیچھے دھکیل دیا۔
Border Battle Rages Indians Thrown Back
دی ا سٹار نے پیر 13ستمبر 1965کی اپنی اشاعت میں لکھا کہ بھاری تصادم نے
ہندوستانی ٹینکوں کو ناک آئوٹ کردیا۔
Huge Clash Knocks out India Tanks
ٹائیرون ڈیلی ہیرلڈ نے 13 ستمبر 1965 پیر کی اشاعت میں یہ سرخی جمائی کہ
ہندوستانی توپ خانے کا تیسرا حصہ مکمل تباہ کردیا گیا۔
Says Third of India Armor is Destroyed
دی ہالینڈ ایوننگ سینٹینل نے 11ستمبر 1965 کی اشاعت میں لکھا کہ پاکستانی
فوج نے ہندوستانی فوج کو پیچھے دکھیل دیا، پاکستانی ٹینک ہندوستان میں دس
میل تک اندر گھس آئے۔
Pakistan Pushes
Back Indian Units Tanks Move 10 Miles in to India
مجھے ایسے نام نہاد دانشوروں اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے ایسے
صحافیوں سے کچھ لینا دینا نہیں جو جھوٹے سچ کی لت میں مبتلا ہوکر دروغ گوئی
کی آبپاری کررہے ہیں۔ مجھے تو بس اتنا یاد ہے کہ وہی ایک ایسا وقت تھا جب
پوری قوم زندہ ہوگئی تھی میری عمر اس وقت تقریبا 8سال ہوگی اور آر99بنی
محلہ سے ہم محلہ راجہ سلطان نذر بھٹہ نیک عالم کے کرائے کے مکان میں منتقل
ہوئے تھے۔ ہمارے مکان کے بائیں جانب ایک خالی پلاٹ تھا پھر اس کے بعد ایک
گرائونڈ اور اس سے ملحقہ قبرستان اور اسی گرائونڈ میں ایک مسجد بھی تھی
دائیں جانب بالکل ساتھ والا گھر خالہ عرب کا تھا اور اس کے ساتھ خان پور
بانڈی بریلہ کے بشیر صاحب اور ان کے بھائی اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہتے
تھے ان کے دونوں بیٹے طارق اور طاہر میرے دوست بن چکے تھے۔ سامنے کی لائین
میں صابر کا گھر تھا جس کا والد مکینک تھا وہ بھی ہم عمر ہونے کی وجہ سے
میرے دوستوں میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ اسی گلی میں ایک پورا خاندان آباد
تھا جن کے اکثر لوگ نئے جوتے، زری چپلیں اور کھسے بنانے کا کام کرتے تھے۔
ان کے کچھ لوگ فوج میں تھے ان کے بھی اکثر بچے ہمارے ساتھ اکٹھے کھیلتے اس
گلی کی دوسری جانب ایک سڑک گزرتی تھی جو اصغر مال کالج سے شروع ہوکر ہولی
فیملی ہسپتال ای بلاک کے سامنے سے ہوتی ہوئی ایف بلاک سٹلائٹ ٹائون تک جاتی
تھی۔ اسی گھر میں نے پہلی بار قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب کے ایچ
خورشید کو اپنے والد کے ساتھ دیکھا تھا۔ ہم اپنی گلی سے باہر نکلتے تو
سامنے سڑک کے پار ’’پائیارفیق‘‘ (رفیق چوہان) کی دکان تھی جو کہ فیض
محمدچوہان کے بیٹے تھے (اُ س علاقے کےپہلے بی ڈی ممبر) اسی دکان سے ہم سودا
سلف لیتے اور اپنا ’’ چونگا‘‘ بھی ’’ پائیارفیق‘‘ مجھے ٹیڈی بابو کہا کرتے
خالہ عرب کاکردار ہم سب کے سرپرست کا تھا جب 65 کی جنگ شروع ہوئی تو ان کے
گھر میں ہی خندق کھودی گئی اور ہم سب فضائی حملے کے وقت اسی خندق میں پناہ
لیتے یہ ایسا وقت تھا جب بڑے بوڑھوں کا جذبہ تو اپنی جگہ ہم جیسی عمر کے
بچے بھی کسی سے کم نہیں تھے اکثر دن کو جب فضائی حملے کے سائرن بجتے تو ہم
چھت پر جاچڑھتے اور آسمان پر جہاز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ایک مرتبہ جب ہم
میدان میں کھیل رہے تھے تو جہازوں کی ایک ٹکڑی بہت تیزی سے ہمارے سروں کے
اوپر سے گزرتی ہوئی چکلالہ ائرپورٹ پر لینڈ کرگئی، اسی ٹکڑی میں ایک جہاز
بڑا بھی تھا جو ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ سی ون 30 تھا اور یہ سب دشمن کے
ٹھکانوں پر بمباری کرکے لوٹے تھے(سی ون30 کو بمبار میں تبدیل کرنے کا
کارنامہ بھی پاک فضائیہ کا تھا) ہم نے سن رکھا تھا کہ بھارتی جاسوس پاکستان
میں موجود ہیں اور جو بھارتی فضائیہ کو زمین سے روشنی کے اشارے دے کر
بمباری کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرتے ہیں ہم بچوں نے آپس میں طے کیا کہ رات
کے اندھیرے میں ان جاسوسوں کو ہم تلاش کریں گے اور انہیں جہنم واصل کریں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں نے بچوں کی ایک فورس تیار کرلی تھی جس میں سات
سے گیارہ سال کی عمر کے پندرہ سے بیس بچے تھے میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ
ہمیں بیلٹس بنا کر دیں انہوں نے ہمیں کپڑے کی بہت سی بیلٹس بنا کر دیں جن
میں اسلحہ رکھنے کی جگہ بھی تھی اور وہ اسلحہ تھا کچن نائف اس کے علاوہ ہم
نے خود ایک اسلحہ ایجاد کیا جو کہ تیر کمان کی طرز پر تھا ایک کانے کے آگے
سوئی لگا کر اور دھاگے کی نلکی کے خول کے ایک سرے پر ربڑ باندھ کر اس اسلحہ
کو تیر کمان کی طرح استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اگرچہ اس کی ٹریننگ میں سوئیاں
کئی مرتبہ ہماری انگلیوں کے آر پار ہوگئیں لیکن اس کو چلانے کی مہارت حاصل
کرنے سے ہم باز نہ آئے۔ ہماری پوری بچہ فورس رات کو گلیوں محلوں میں ایک
پریڈ کی صورت میں گشت کرتی اور آخری چکر سب سے خطرناک ہوتا ہمارے محلے سے
کچھ آگے ایک بڑا قبرستان بھی تھا جو گھنے اور بلند درختوں سے گھرا ہوا تھا۔
اس میں ہم دن کو جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے اور رات کو تو سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا تھا وہاں روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا رات کو گھپ اندھیرا ہوتا تھا
باہر سڑک پر سٹڑیٹ لائٹس ’’بلیک آئوٹ ‘‘ کی وجہ سے بند رہتی تھیں، ہمارا
آخری چکر اس قبرستان کے اندر ہوتا تھا ہمارے ننھنے منے دل تیز رفتاری سے
دھڑک رہے ہوتے اور کوئی پرندہ بھی اڑتا تو بلیوں اچھل پڑتے لیکن جذبہ ایسا
کہ دشمن کے جاسوس ڈھونڈنے کی دھن پھر بھی ختم نہ ہوتی ہمارا یہ آخری چکر
جنگ ختم ہونے تک جاری رہا، ہم دشمن کا کوئی جاسوس تو نہ ڈھونڈ سکے
مگربڑے،بوڑھوں ،جوانوں اور بچوں تک نے یہ بتادیا کہ ایک زندہ قوم کیا ہوتی
ہے،کاش آج بھی یہ جذبہ ہم میں واپس آسکتا۔۔۔۔!۔
|
|