حقیقت میلاد النبی - ستاونواں حصہ

میلاد شریف کو بطور جشن منانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق کا ایک ثقافتی اِظہار ہے۔ تاریخ اسلام کی روشنی میں جائزہ لیں تو قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک ہر دور میں حیات انسانی کے مختلف شعبوں میں کئی اعتبار سے طرزِ بود و باش، معاشرتی میل جول، خوشی و غمی، جذبات و احساسات کے اظہار کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے وقت کے ساتھ ساتھ رُونما ہونے والی تبدیلیوں کی چند مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں

ہجرتِ مدینہ:-
کتب تواریخ و سیر میں مذکور ہے کہ جب اہلِ مدینہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عازمِ ہجرت ہونے کی اطلاع ملی تو وہ سب سخت گرمی کے موسم میں روزانہ نمازِ فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر باہر مقام ’حرہ‘ پر جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کرتے، تیز دھوپ میں جب سایہ بھی ختم ہو جاتا تو بجھے دلوں کے ساتھ گھروں کو لوٹتے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عویم بن ساعدہ اَنصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :

لما سمعنا بمخرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من مکة، وتوکفنا قدومه، کنا نخرج إذا صلينا الصبح، إلي ظاهر حَرّتنا، ننتظر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فواﷲ! ما نبرح حتي تغلبنا الشمس علي الظلال، فإذا لم نجد ظلاً دخلنا، وذلک في أيام حارة.

’’جب ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے باہر نکلنے اور مدینہ کی طرف تشریف لانے کی خبر سنی تو ہم صبح نماز پڑھ کر باہر نکل آتے اور دن چڑھے تک کھلے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کرتے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت تک انتظار کرتے رہتے جب تک کہ سورج ہمارے سایوں پر غالب نہ آجاتا۔ جب ہم سورج کی تپش سے بچنے کے لیے سایہ نہ پاتے تو اپنے گھروں میں آجاتے، اور یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے۔‘‘

1. ابن هشام، السيرة النبويه : 423
2. طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 571
3. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1 : 331
4. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 196
5. خزاعي، تخريج الدلالات السمعية علي ما کان في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من الحرف : 446

جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ساکنانِ مدینہ خوشی سے جھوم اٹھے، انہوں نے اس قدر دھوم دھام سے خوشی و مسرت کا اظہار کیا کہ سارا شہر استقبالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مدینہ کی حدود سے باہر امڈ آیا۔ معصوم بچیوں نے دف پر خوشی کے گیت گا کر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا۔ خیر مقدمی نعرے لگائے گئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ جلوس کی شکل میں گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا۔

ہجرت، تاریخِ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ یہی ہجرت اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد بنی اور اسلام ایک غالب قوت بن کر ابھرا۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کون سا موقع ہو سکتا تھا مگر آنے والے سالوں میں اہل مدینہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس یوم ہجرت پر خوشی کا اہتمام نہ کیا اس لیے کہ اُس دور کے کلچر اور مزاج میں یہ چیز شامل نہ تھی۔ لیکن آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاندار اور والہانہ استقبال اور اظہارِ مسرت عین فطرتِ انسانی کے مطابق تھا، جس سے کم از کم اس بات کا جواز ضرور ملتا ہے کہ اسلام میں کسی عظیم خوشی کے موقع پر جشن کا اہتمام کرنا اور دھوم دھام سے اظہارِ مسرت کرنا اَمرِ جائز اور فطری تقاضا ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق انسان کی فطرت اور دلی جذبات سے ہے، اس میں کوئی بات شریعت کے منافی نہیں۔ لہٰذا بدعت کہہ کر اس کا انکار ایک مخصوص قلبی کیفیت کا غماز ہے جو محض ہٹ دھرمی کے سوا اور کچھ نہیں۔

میثاقِ مدینہ:-
مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کی مشاورت سے یہود کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا، تاریخِ اسلام میں یہ عظیم معاہدہ ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریاست مدینہ کے آئینی حکمران بنے۔ مسلمانوں کے لیے یہ موقع عظیم خوشی کا تھا، مگر مسلمانوں نے یوم میثاقِ مدینہ منانے کا کوئی اہتمام اس لیے نہ کیا کہ ایسا کرنا اُس زمانے کے کلچر میں شامل نہ تھا۔

یومِ بدر:-
جرت کے بعد مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی خوشی کا دن یومِ بدر تھا جب حق و باطل کے درمیان معرکہ میں باطل کو شکست ہوئی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو اﷲ رب العزت نے فتح و کامرانی سے ہم کنار کیا۔ اِس سے مسلمانوں کو حوصلہ اور ولولہ تازہ ملا۔ قرآن حکیم نے اس دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ قرار دیا ہے. یہ دن بھی دورِ صحابہ میں سال بہ سال بار بار آتا رہا مگر اس دن کو منانے کا ان کے ہاں کوئی رواج نہیں تھا۔

الأنفال، 8 : 41

یومِ فتحِ مکہ:-
اِسی طرح ہجرتِ مدینہ کے بعد فتحِ مکہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم واقعہ تھا جس سے اسلام جزیرہ نمائے عرب میں ایک غالب قوت بن کر اُبھرا۔ یہ وہ دن تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے دس ہزار سربکف جاں نثار صحابہ کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے دوبارہ شہر مکہ میں داخل ہوئے۔ یہ وہی شہرِ مکہ تھا جہاں سے کفار کے ظلم و ستم اور معاندانہ سلوک کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس دن کو قرآن مجید نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا ہے۔ اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ مگر قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے فتح مکہ کا دن نہیں منایا کیوں کہ اُس دور کی ثقافت میں یہ چیز شامل نہ تھی۔

الفتح، 48 : 1

شبِ قدر۔ شبِ نزولِ قرآن:-
ستائیس (27) رمضان المبارک کی شب وہ مبارک رات ہے جس میں نزولِ قرآن ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز ہوا۔ اﷲ رب العزت نے اس عظیم الشان رات احسانِ عظیم فرمایا اور قیامت تک رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ قرآن مجید عطا فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے شبِ قدر منانے کا کبھی اِہتمام نہیں کیا کیوں کہ اُس دور کی ثقافت میں یہ عنصر نہ تھا۔

نئے دور کے نئے تقاضے:-
ہم اگر موجودہ دور کے تہذیبی و ثقافتی پس منظر پر عمیق نظر ڈالیں تو نہ صرف یہ کہ ہم مذکورہ بالا مہتم بالشان ایام مناتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور دن بھی دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اور بہت سے قومی تہواروں کو ایام مسرت کے طور پر مناتے ہیں۔

اِس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں اہم ملّی اور مذہبی اہمیت کے دن بطور تہوار منانے کا کوئی رواج نہیں تھا، اور اس وقت کی ثقافت میں ایسی کوئی روایت کارفرما نہ تھی جس کے تحت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یومِ نزولِ قرآن، یومِ بدر اور یومِ فتحِ مکہ مناتے۔ قطع نظر اس سے کہ ان ایام کی اَہمیت تاریخ اسلام میں کسی اعتبار سے کم نہیں۔ آج اہلِ پاکستان دیگر اسلامی ممالک کی طرح اپنا یومِ آزادی اور دیگر قومی اَیام بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں کیوں کہ ایسا کرنا آج کی ثقافتی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ اِسی طرح سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک میں اُن کے حکمران اپنی تخت نشینی کا دن بہ طور عید مناتے ہیں، ا ور یہ دن اُن کے ہاں ’’العید الوطنی‘‘ کہلاتا ہے۔ اِس طرح ہر ملک و قوم اپنے قومی تہواروں کے اِنعقاد کے ذریعے اپنے نظریات و قومی تشخص اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ پس بدلتے ہوئے ان حالات کے تقاضوں کی روشنی میں آج محافلِ میلاد کا انعقاد بھی ہماری ثقافتی اور مذہبی ضرورت بن چکا ہے جس سے کوئی صاحبِ فکر و نظر اِنکار نہیں کر سکتا۔ محافلِ میلاد کے اِنعقاد کے ذریعے ہم اپنے اور اپنی اگلی نسلوں کے قلوب و اَذہان میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع بہ آسانی روشن کرسکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرسکتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103392 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.