رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام
کی طاقت کے جاہ و جلال کا مظاہر کر کے شرک کی استقامت و پائیداری کے ہر
ارادے کو پاش پاش کر دیا اور اب آپ نے یہ کوشش کی کہ ابوسفیان کے ذریعے
قریش کی استقامت و پائیداری کو بھی چکنا چور کر دیں۔ اس موقع سے پورا فائدہ
اٹھالیں چنانچہ اس کے بعد آپ نے ابوسفیان سے کہا کہ وہ قریش کے درمیان جائے
اور ان سے کہہ دے کہ جو کوئی اسلحہ زمین پر رکھ کر اپنے گھر میں بیٹھے رہے
گا یا مسجد الحرام میں پناہ لے گا یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ گزیں ہوگا
اسے کسی قسم کی گزند نہیں ہوگی۔ (السیرة النبویہ لابن ہشام ج۴ ص ۴۶ ، ۴۷)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اقدام اس امر کا باعث ہوا کہ قریش کے
ان سرداروں نے جو سینہ سپر ہو کر سپاہ اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے جب
ابوسفیان کی یہ کیفیت دیکھی تو انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔
قریش کو زیر کرنے کے جتنے بھی مراحل ہوسکتے تھے وہ اب طے ہو چکے تھے اور وہ
وقت آن پہنچا تھا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تشریف فرما
ہوں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سعی و کوشش تھی کہ سپاہ اسلام
شہر میں اس طرح داخل ہوں کہ کوئی تصادم و حادثہ پیش نہ آئے۔ چنانچہ اس مقصد
کے تحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سپاہ اسلام کو چار دستوں میں تقسیم
کر کے ان میں سے ہر ایک پر ایک فرماندار مقرر فرمایا اور ہر دستے کو یہ حکم
دیا کہ اندرون شہر اس راستے سے جائیں جو ان کے داخل ہونے کے لیے مقرر کر
دیا گیا ہے اور سب کو یہ ہدایت کر دی کہ اس کے علاوہ جو تم سے جنگ کرنا
چاہے اس سے جنگ و پیکار نہ کرنا مگر اس کے ساتھ ہی دس ایسے افراد کے نام
بھی آپ نے لیے جن کا خون بہانا جائز و مباح قرار دیا گیا۔ (مغازی ج۲ ص ۲۵)
اہل لشکر مقررہ راستوں سے مکہ میں داخل ہوئے۔ اندرون شہر ایک دشمن کی مختصر
سی جماعت نے ہی استقامت و پائیداری کی کوشش کی مگر جب ان کے بہت سے سپاہی
قتل ہوگئے تو ان کی استقامت و پائیداری کا بھی خاتمہ ہوگیا باقی سپاہ اسلام
نے کسی خونریزی کے بغیر مکہ کو فتح کرلیا۔
اہل مکہ بالخصوص شرک کے حامی و طرفدار نہایت ہی اضطراب و بے چینی سے یہ
انتظار کر رہے تھے کہ دیکھئے کہ کب انجام کیا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اوپر اب
تک وہ جو مظالم کرچکے تھے انہیں یاد کر کے انہیں اپنی موت سامنے نظر آرہی
تھی۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تو بتوں کو سرنگوں کیا اور اس کام
سے فارغ ہونے کے بعد ان لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی جو وہاں موجود تھے۔ اس
فتح و کامیابی پر خداوند تعالیٰ کی حمد و ستائش کرتے ہوئے آپ نے قریش سے
خطاب کرتے ہوئے فرمایا”کہو کیا کہنا چاہتے ہو اور بتاؤ تمہارے دلوں میں کیا
گمان و وسوسے ہیں؟
سب نے آہ و زاری کرتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض
کیا کہ ہمیں آپ سے یہی توقع ہے کہ آپ ہمارے ساتھ خیر و نیکی کا سلوک
فرمائیں گے۔ ہمیں یہی عرض کرنا ہے اور اس کے علاوہ ہمارے دلوں میں کوئی
خیال و فکر نہیں۔ آپ ہمارے برادر محترم ہیں اور ہم آپ کو اپنے بھائی کا
فرزند سمجھتے ہیں۔ باقی آپ کو اختیار ہے۔ (کمغازی ج۲ ص ۸۳۵)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ”میں تم
سے اپنے بھائی ”حضرت یوسف کی طرح چشم پوشی کرتا ہوں۔“ لاتثریب علیکم الیوم
یغفر اللہ لکم وھو ارحم الراحمین ”آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہیں
معاف کرے وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔“ چنانچہ جب انہوں نے معافی کی
درخواست کی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ”اذھبوا فانتم الطلقاء(مغازی ج۲ ص
۸۳۵)۔۔”جاؤ تم سب آزاد ہو۔“
جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کر دیا اور شرک
کے حامی و طرفدار لوگوں کے اعمال سے چشم پوشی کی تو مکہ کے لوگ جوق در جوق
آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرنے لگے۔ یہی
نہیں بلکہ عرب خواتین نے بھی ان خاص آداب کے مطابق جو مقرر کئے گئے تھے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی چنانچہ قرآن مجید نے اس بے نظیر
تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے” ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ
افواجا“۔۔ ترجمہ ”اے نبی، دیکھ لو گے کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں
داخل ہو رہے ہیں۔“ (تفسیرالمیزان ج۲ ص ۳۷۲)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس خیال کے پیش نظر کہ بت پرستی ہر جگہ
سے کلی طور پر نیست و نابود ہو جائے لوگوں کو ہدایت کی کہ جس کسی کے پاس
کوئی بت ہو وہ اسے پاش پاش کر دے۔ اس کے علاوہ آپ نے مکہ کے باہر بھی چند
افراد کو بھیجا تاکہ جہاں کہیں بھی کوئی بت خانہ ہو اسے ویران کر دیں اور
لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں۔ (مغازی ج۲ ص ۸۷۳)
پیغمبر خدا رسول ہدایت و اصلاح نہ کہ انتقام جو مسلمانوں کے ہاتھوں شہر مکہ
کی تسخیر، مشرکین کے سرداروں کی شکست و ریخت اور ان لوگوں کے ساتھ رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے غیر متوقع و بے مثال درگزر و چشم پوشی نے جو بیس
سال سے زیادہ عرصہ تک اسلام سے دشمنی میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
سے برسر پیکار ہے ثابت کر دیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد
گمراہ و نادان لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنگ و
تصادم کے واقعات پیش آئے ان میں آپ کا عزم ہدایت و اصلاح ہی تھا ناکہ
انتقام جوئی اور جاہ طلبی۔ چنانچہ ایسی عظیم الشان فتح کے باوجود صرف وہ دس
افراد (چھ مرد اور چار عورتیں) جو سخت و سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے تھے
قابل سزا قرار دیئے گئے اور ”مہد ورالدم“ کے عنوان سے انہیں یاد کیا گیا۔ (مغازی
ج۲ ص ۸۲۵)
ان میں سے بھی چار افراد کو قتل کر دیا گیا اور باقی کسی نہ کسی بہانے سے
امان پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اگرچہ ایسے موقعوں پر رہبران انقلاب سینکڑوں
نہیں بلکہ ہزاروں بالخصوص انہیں جو دشمن کے محاذ پر پیش پیش ہوتے ہیں تہ
تیغ کر دیتے ہیں۔ لیکن جب ساری دنیا کے پیامبر یعنی ”رحمة العالمین“ سے بعض
مسلمان سپاہیوں نے یہ کہا کہ ”الیوم یوم الملحہ“ آج کا دن انتقام لینے اور
گھروں کو تہ و بالا کر دینے کا دن ہے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
یہ شعار اختیار کیا ”الیوم یوم المرحمہ“ آج کا دن رحمت کا دن ہے چنانچہ اس
کیفیت کو استاد حمیداللہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے۔”جب رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کسی شہر کا فاتح ہو تو اس سے اس عظمت و بزرگواری
کے علاوہ اور کوئی توقع رکھنی ہی نہیں چاہیے۔“
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |