افسانہ : تمہیں بھول جانے کی طاقت نہیں ہے۔
(Johar Altaf, Kohat, kpk )
تمہیں کہا تھا نا کہ تمہارے بعد
میری زندگی ایسی ہوگی جیسے ساقی کو مے کدہ سے نکال باہر پھنک دیا جائے ۔ تم
کہا کرتی تھی کہ میرے بعد اپنے زندگی کو برباد نہیں کروگے ، اُ س نے سانس
پھولتے ہوئے بولا کیا ضروری ہے کہ پیار کرنے والے شادی بھی کریں ۔ انوشے کی
آنکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ خذیفہ کے دائیں ہاتھ کو اپنے
سفید اور نرم ہاتھوں میں لے کر بولنے لگی ، خذیفہ اگر ہمارے قسمت میں ساتھ
نہ لکھا ہو نا تو تمہیں میری قسم تم اپنی زندگی کو برباد نہیں کروگے ، تم
شادی کروگے ، تم بس اُ س کی جگہ مجھے لایا کرو کہ وہ میں ہوں ، میں تمہارے
بچے دیکھنا چاہتی ہوں ، اور ہاں تم نے اپنے ایک بچی کا نام انوشہ رکھنا ہے
کہ مجھے کبھی نہ بھول جاو تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تو میرے پاگل ہو اور انوشے کو تم
اپنے سب بچوں سے زیادہ پیار کروگے ۔ وہ بولتی جارہی تھی خذیفہ لفظ کے ساتھ
ساتھ مرتا جارہا تھا ، وہ پاگل اتنی تھی کہ یہاں خذیفہ کو دلاسہ دے رہی تھی
وہاں آنسو آنکھوں کے سرحدوں کو کب کے عبور کرچکے تھے ۔ انوشے کے گال پر
آنسو تیرتے ہوئے نیچے گر ہی رہے تھے کہ خذیفہ نے پلک جھپک میں اپنا بائیں
ہاتھ آگے بڑھا کر آنسو کو تھام لیا ہچکی لیتے ہوئے اُ س نے انوشے کو سینے
سے لگا کر کہا کہ چڑیل خُدا توانصاف کرے گا نا ۔۔۔۔۔
میرا مولا تو انسانوں کی طرح ظالم نہیں ہے نا ۔۔۔
وہ تو دلوں کو جوڑتا ہے توڑتا نہیں ہے نا۔۔۔
انوشے اور خذیفہ کے درمیان اب خاموشی کا سفر شروع ہوا ۔۔۔۔۔ خذیفہ کے
ہچکیوں کی آواز اب دونوں کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔ اور حسب معمول
خذیفہ جب جب وہ روتا رہا تو اُ س کے سینے میں درد شروع ہوجاتا تھااور یہ
بہت زیادہ رونے کی وجہ سے اُ س کا دل تھک چُکا تھا اور احتجاج کرتا تھا کہ
رونے سے کوئی نہیں ملا کرتا لیکن وہ پاگل تھا ، انوشے چھوٹے بچوں کی طرح
خذیفہ سے لپٹ گئی تھی ۔ خاموشی کا دور عروج پر تھا ، خذیفہ نے بلکل پانچ
سالہ گناہوں سے پاک بچے کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے ناک اور آنسووں کو صاف
کرتے ہوئے اُ بھری ہوئی آواز میں پھر اللہ سے اپنی فریاد انوشے کے واسطے سے
پہنچانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا لیکن پھر اللہ ہمیں کیوں جُدا کرنا
چاہتاہے ؟سب کچھ جانتا بھی ہے پھر بھی ۔۔۔۔۔۔ اس بات نے انوشے کو حواس
باحتہ کیا وہ خذیفہ کو بس اب صرف تکتی رہی شائد وہ خذیفہ سے اتنی گہری بات
کرنے کی توقع نہیں کررہی تھی اور اُ س کے پاس اس درد کی کوئی دوا نہ تھی
۔۔۔۔
انوشے نے اپنے ہاتھوں سے چہرے پر پڑے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے کانوں کی طرف
کر دئیے اور کہنے لگی اگر ہم جسمانی طور پر ایک نہ بھی ہوئے روحانی تو ہم
ایک ہے نا وہ تو ہمیں کوئی بھی جُدا نہیں کرسکتا نہ کوئی رواج ، نہ والدین
نہ کسی کی منت انوشے اب ماحول کو سازگار اور خذیفہ کو ورغلانا چاہتی تھی
کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ خذیفہ اب رو نہیں سکتا اُ س کے سینے سے چکی
پیسنے کی آوازیں آرہی تھی اور اس کا کوئی واضح حل نہیں تھا تو کیوں نہ چند
لمحوں کو خوشیوں اور یادوں کا حصہ بنائیں بجائے اس کے کہ رونا دھونا کریں ،
انوشے کو خذیفہ کے مقابلے میں یہ کریڈت جاتا ہے کہ وہ حالات پر جلدی قابو
پالیتی ہے ۔ انوشے نے جو بھی منتر اُ س پر پھونک مارا خذیفہ بہرحال چپ
ہوگیا ، شرارت کے اندازمیں کو مُکا دے کر بولنے لگی کہ سچ میں پاگل ہو تم
چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا بُرا حال کرلیتے ہو پاگل کچھ تو سامنے یٹھی عورت
سے بھی حیا کرنی چاہئے مردوں کی بے عزتی پر تُلے ہوئے ہو اب انوشے اور
خذیفہ مسُکرا رہے تھے ۔ انوشے نے بات کو طول دیتے ہوئے کہا کہ آج تک زندگی
میں صرف دو مردوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے ایک جب بڑی بہن رِ مشا کی شادی تھی
تب ابو کی آنسو بے ساحتہ بہ رہے تھے اور ایک تمہیں دیکھا پھر خذہفہ سے چمٹ
گئی ۔
رِ مشا کی باتیں سننے کے بعد خذیفہ نے کھانس کر کہا کہ چڑیل آنسووں کو
اداکاری نہیں آتی آنسو دل کے سفیر ہوتے ہیں اور دل کا پیغام پہنچانے کا کام
ایمانداری سے نبھاتے ہیں خُذیفہ نے مُسکرا تے ہوئے بولا کہ تعلقات کی بہتری
کیلئے سفارتی اور مواصلاتی نظام صاف اور شفاف ہونا چاہئے ۔ انوشے کیلئے تو
خذیفہ سر تا پیر کرشمہ تھا لیکن اُ س کی مُسکراہٹ جو بہت کم اُ س کے لبوں
پر مہمان بن کر آتی تھی انوشے کو چیر کے رکھ دیتی تھی، انوشے نے خذیفہ کے
بانہوں سے سر نکال کر بولا کہ پاگل ایک تو تم بولتے بہت ہو باتیں کوئی تم
سے سیکھیں دونوں پھر مُسکرائے۔
خذیفہ نے انوشے کے کالے، لمبے، اور کھلے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
کہ کوئی طاقت بھی جُدا نہیں کرسکتی۔ ہاں عارِ ضی فراق ، جُدائِ ہوسکتی ہے
لیکن ہم ایک ہونگے مجھے اپنے محبت پر ایمان ہے۔ انوشے اب بیٹھ گئی اور کہنے
لگی کہ تم جتنا پیار ، عزت ، مجھے کوئی چاہ کر بھی نہی دے سکتا اور تم نے
مجھے کسی سے پیار کے قابل چھوڑا بھی نہیں ، صرف وفا کرونگی پیار کبھی نہیں
کر پاسکوں گی - |
|