مکافاتِ عمل
(rafi ullah, quaid abad khushab)
شام ....چھلکتے جام.........بل کھاتے جسم..... ادا میں شوخی اور مستی.....
گزشتہ رات قریب سے کیا نظارہ...
دوسری شام بھی.......وہ ادائیں وہ شوخیاں.....اور مدحوشیاں.....میخانہ حسن.....کی
یاد میں ........خیال کو زباں پر لایا...... اور ... بڑ بڑایا.....
آج کی شام انہی حسیناؤں کے نام ....... دہلیز سے قدم باہر نکالے اس حال میں
کہ وہ بھی ایک پیکر حسن....مجسمہ شباب تھا................قد کاٹھ.....
جسامت...... چال ڈھال......ہر چیز اس طرح معتدل جیسے کسی سانچے میں رکھی
سونے کی ڈلی..............
بازار حسن کے مین گیٹ پر......سیاہ رنگ کی کار رکی........ اب وہ پیدل چلنے
لگا...........اور موبائل پہ کسی کو میسج کرتے ہوئے.....آگے بڑھ رہا تھا...............کانوں
میں ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی.......
وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا
محتسب میکدہ سے جاتا نہیں
یاں سے ہو کر خراب نکلے گا
یہی چپ ہے تو دردِ دل کہتے
منہ سے کیونکر جواب نکلے گا
جب اٹھے گا جہان سے یہ نقاب
تب ہی اس کا حجاب نکلے گا
عرق اس کا بھی مونہہ کا بو کیجو
گر کبھو یہ گلاب نکلے گا
آؤ بالیں تلک نہ ہو کے دیر
جی ہمارا شتاب نکلے گا
دفترِ داغ ہے جگر اس میں
کسو دن یہ حساب نکلے گا
تذکرے سب کے پھر رہیں گے دھرے
جب مرا انتخاب نکلے گا
میر دیکھو گے رنگ نرگس کا
اب وہ مست خواب نکلے گا
.................................حسینائیں شو پیس کی طرح سامنے... انتخاب
کیا... ایک حور پری کا..............................
کمرہ بھی ایسا کہ ہر چیز مست... خشبو سے معطر.......مدھم روشنی اور رومانسی
ماحول ہر چیز سے شباب کی جھلک....... اور مہک.................
حسینہ .......بیڈ پر بیٹھی نئ نویلی دلھن کی طرح سج دھج کر..........
یہ پاس گیا....ابھی بہت پاس ہونا چاہتا تھا......... کہ اس پری نے لب کھولے
اور کہا..................
میں وہ ہوں کہ ....جس کے سر سے کبھی دوپٹہ بھی نہ سرکا تھا.....
آج قفس میں بند اس چڑیا کی مانند ہوں.......... جس کے پر ابھی مسل دیئے
جائیں.....گے............
ماں نے تو مجھے وضو ء کر کے دودھ پلایا تھا لیکن آج میں......اس مقام پر......
........پہلی رات ہے میری.......
کیوں.............؟؟؟؟؟؟
میرے باپ نے عھد شباب میں اسی طرح.... ایک چڑیا کی مجبوری سے اپنے دامن کی
آگ بجھائی تھی...وہ چیخی تھی چلائی تھی پاؤں پکڑے تھے....... واسطے دیئے....
لیکن.....اس کی نہ سنی گئی...............
دوسرے دن صبح کا سورج طلوع ہوا... اور وہ ہمیشہ کے لیئے خود کو غروب کرگئی....................آج
ابا کی ڈائری کا وہ ورق سامنے ہے.......اور شاید میں اسی مقام پہ ہوں اور
تم.......؟؟؟؟؟؟؟
مکافات عمل......................
از مكافات عمل غافل مشو
گندم از گندم برويد جو زجو
ترجمہ :
....کسی عمل کے بدلے سے سے غافل نہ رہو
...گیہوں سے گیہوں اُگتا ہے‘ اور جَو سے جو
میں نے تو اللہ کو ہر موڑ پہ یاد کیا...... دعائیں کیں....گڑگڑاتی رہی لیکن
باپ کا گناہ مجھے اس مقام پر لایا..........
لیکن آج بھی مجھے میرے خدا پہ یقین ہے..........
ہاں..... یہ مکافات....... کل.......تیری اولاد کو یہاں اور..... تیری جگہ
کسی اور کو کھڑا کرے گی.............
شاید تم بھی کسی کو ناکردہ گناہ کی سزا دینا جاہتے ہو.............سوچو......سوچو........وہ
چلائی...
وہ اندر سے پھٹ پڑا اور گویا ہوا.....
میں اپنے رب کو پانا چاہتاہوں .....مجھے اس گلی کا رستہ شاید میری دعا کی
قبولیت نے دکھایا........یہ راستہ جس پہ چل کہ انسان رسوائیوں کے گڑھے میں
چلا جاتا ہے....لیکن مجھے راہ ھدایت مل گٰئی...تجھے ناکردہ گناہ کی سزا
نہیں ملے گی... اور نہ میں.....کوئی گناہ کروں گا ...جو میری اولاد کے لیئے
طوق بن جائے...will you marry me ...............................آپ مجھ سے
..شادی کریں گی......؟
(جو اللہ کو ہر حال میں یاد کرتے ہیں اللہ انکو رسوایوں کہ حوالے نہیں
کرتا..یہ ہماری ناقص سوچ ہے.....ہم اللہ پر بہتان باندھ دیتے ہیں.....بعض
اوقات جسے ہم غلط سمجھتے ہیں وہی راہ ھدایت ہوتی ہے....) |
|