شک

ہوٹل کی بالائی منزل میں مقیم.....دسمبر کی پہلی برف باری... پہاڑ برف کی چادر اوڑ چکے تھے... درختوں اور چھتوں پر بھی کافی مقدار میں برف جم چکی تھی میں جس ہو ٹل میں مقیم تھا وہ پہاڑوں کے دامن میں گھنے ......اور لمبے درختوں کے درمیان تھا...... شام کا سایہ ڈھل چکا تھا....... برف باری پہلے سے کم ہو چکی تھی...... ہو ٹل کی لائٹس آن ہوگئیں.....................عشاء کی نماز کے بعد ..........مقصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا عزم لیے لیپ ٹاپ اٹھائے دوبارہ مرر کے سامنے بیٹھ گیا..اب اندھیرا کافی پھیل چکا تھا ....رات کا اندھیرا ہوٹل کی لائٹس درختوں کا جھرمٹ.......برف کی سفیدی..... خوبصورت اور کچھ ڈراؤنا منظر پیش کر رہا تھا.............................میں نے روم ک لائٹس آف کردیں...........باہر سے آنے والی روشنی کچھ بھیانک اور افسردہ... ماحول بنا چکی تھی جیسے قید تنھائی میں کوئی پرندہ جس کے پر کاٹ دیئے ہوں ..نہ اڑنے کے قابل نہ پھڑ پھڑانے کے..............میں نے مرر کھول دیا خوں منجمد کر دینے والی ہوا کاایک جھونکا آیا ............. اور میرے سامنے وہ منظر تھا... صاب میری بیٹی کا میرے علاوہ کوئی نہیں..... مجھے مت ماریں.. میں آپ کا ملازم ساری زندگی آپ کے تلوے چاٹنے کے لیئے تیار ہوں لیکن مجھے میری بیٹی سے مت دور کریں .....میں اپنی بیٹی کے لیے زندہ ہوں...بلیک سوٹ پہنے وہ شخص فائر کر چکا تھا..... ایک چیخ اور آواز مسکت.....وہ شخص زندہ تھا!!!!!...... گولی اسکی بیٹی کو لگی... لیکن وہ خاموش تھا....نہ آنسو ..نہ نوحا ..نہ آہو بکا.... بلکل خاموش... درد کے آخری مقام پر کھڑا تھا.. ..... درد جب ایسا ہو جو کبھی کم نہ ہو سکتا ہو.. وہاں آہو بکا اور آنسو.... نہیں بلکہ دل روتا ہے......اسی لمحہ ایک کال آی سیٹھ صاحب آپکی بیٹی مل گئی ہے..... وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ملک سے باہر بھاگ گئی تھی....اپنے ملازم کو کچھ نہ کہیں اور باقی جو شک کی وجہ سے پکڑے گئے انکو بھی چھوڑ دیں......لیکن شک ایک ملازم کی لخت جگر کی جان لے چکا تھا..... اب وہ ایک بت تھا...... زندہ بت.......رات بارہ بجے سیٹھ صاحب چلے گئے لیکن..... مجھے درخت کے نیچے سردی میں کانپتا جسم نظر آیا........میں ہوٹل کے بالائی حصے سے نیچے اترا خوفناک...... اور ڈراؤنے ماحول میں انسانیت کی خاطر اسکے قریب گیا...... اس نے ایک دم میرا ہاتھ پکڑا قریب کیا اور کہا اپنے قارئین کو بتا دینا کبھی کسی پر شک نہ کرنا کیونکہ شک!!!..جان لے لیتا ہے......... اور پھر اسنے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا....

(تمام قارئین سے معذرت اگر کہانی زیادہ درد ناک ہو ... کیونکہ ہمارے معاشرے میں شک کی بیماری تیزی سے طول پکڑ رہی ہے...... یہ بھی ایک المیہ ہے جو اس کہانی سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے........
rafi ullah
About the Author: rafi ullah Read More Articles by rafi ullah: 5 Articles with 10352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.