گزشتہ دنوں ہماری ویب نے آپ کے سامنے عیدالاضحیٰ کی
مناسبت سے سہراب گوٹھ پر قائم مویشی منڈی میں لائے جانے والے خوبصورت
جانوروں کا احوال پیش کیا تھا- لیکن آج ہم آپ کو اسی مویشی منڈی میں موجود
عام خریداروں اور بیوپاریوں کو درپیش مسائل اور سہولیات سے آگاہ کریں گے-
اسی حوالے سے ہماری ویب کی ٹیم نے گزشتہ روز مویشی منڈی کا دورہ کیا اور
وہاں موجود بیوپاریوں اور خریداروں سے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کے حوالے
سے دریافت کیا- اس کے علاوہ یہاں موجود ان ٹرانسپورٹر حضرات سے بھی خصوصی
بات چیت کی جن کا کام خریدے گئے جانوروں کو خریدار کے گھر تک پہنچانا ہوتا
ہے-
عیدالاضحیٰ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی مویشی منڈی میں آنے والے خریداروں
کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اب معاملہ صرف جانوروں کو دیکھنے کے
لیے آنے والوں سے ہٹ کر حقیقی خریداروں پر جا ٹھہرا ہے-
|
|
خریداروں کے مسائل
پہلے ہم بات کرتے ہیں مویشی منڈی میں جانوروں کی خریداری کے لیے آنے
والے خریداروں سے٬ مویشی منڈی میں موجود خریداروں کا بنیادی مسئلہ خریداروں
اور بیوپاریوں کے درمیان سودے کا طے نہ پانا ہی تھا-
ہماری ویب کی ٹیم نے جب ان خریداروں اس کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا
کہ بیوپاری اتنے زیادہ قیمت مانگتے ہیں جو جانور کے لحاظ سے کسی صورت مناسب
معلوم نہیں ہوتی-
اکثر خریداروں کا کہنا تھا کہ “ وہ مویشی منڈی میں کئی گھنٹوں سے گھوم رہے
ہیں لیکن کسی بیوپاری سے سودا طے نہیں ہوپایا- بیوپاری اپنے جانور کی اتنی
زیادہ قیمت طلب کرتے ہیں کہ بعض اوقات تو سودے کا آغاز ہی نہیں ہوپاتا- اور
اگر کہیں شروعات ہو بھی جائے تو قیمتیں کم کرنے کو تیار نہیں ہوتے“-
|
|
خریداروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ “ جب بیوپاریوں سے جانوروں کی زیادہ قیمت
طلب کرنے کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنے ایسے کئی خرچے گنوانا
شروع کردیتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی- اور 3 سے 4 من کے جانور کے
بھی بیوپاری 1 لاکھ 40 ہزار یا 1 لاکھ 50 ہزار سے کم قیمت نہیں طلب کرتے-
“ ہر بیوپاری کی یہی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دام وصول کرے جبکہ آخری
دنوں میں یہی جانور بیوپاری نقصان کر کے فروخت کریں گے تو اس سے بہتر نہیں
ہے کہ ابھی مناسب دام میں فروخت کردیے جائیں“-
ہم نے جب پچھلے سال تک کراچی کے مختلف علاقوں میں لگنے مویشی منڈیوں کے
حوالے سے سوال کیا تو اکثر خریداروں کا یہی کہنا تھا کہ وہ منڈیاں بھی صحیح
تھی اور انہیں بھی ہونا چاہیے٬ البتہ یہاں آپ کوئی مختلف قسم کے جانور
دکھائی دیتے ہیں اس لیے سودا طے ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں-
دور دراز علاقوں سے آنے والے ان خریداروں کا کہنا تھا کہ وہ جانور کی
خریداری کی کوشش جاری رکھیں گے اور اگر دوسرے روز یا اس کے بعد بھی آنا پڑا
تو ضرور آئیں گے-
مویشی منڈی ہمیں چند سودے طے پاتے بھی دکھائی دیے- اور ان کامیاب ہونے والے
حضرات سے جب ہم نے ان کی کامیابی کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ
مشکلات تو ضرور آتی ہے اور واقعی دام بھی بہت زیادہ مانگے جارہے ہیں لیکن
اگر بیوپاریوں سے تھوڑی بات چیت کریں تو معاملہ بعض اوقات کم میں بھی طے
ہوجاتا ہے-
|
|
بیوپاریوں کی مشکلات:
اگر ہم مویشی منڈی میں موجود جانوروں کے بیوپاریوں کو درپیش مشکلات کی بات
کریں تو بظاہر تو بیشتر بیوپاریوں کی جانب سے منڈی کے نظام کے حوالے سے کسی
حد تک اطمینان کا اظہار کیا گیا تاہم ایک شکایت جو کہ ہر بیوپاری کو تھی وہ
جانوروں کو دیے جانے والے پانی کے حوالے سے تھی-
بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ انہیں جانوروں کے لیے جو پانی فراہم کیا جاتا ہے
وہ ناکافی ہے- منڈی کی انتظامیہ کی جانب سے بیوپاری کو فی جانور 8 لیٹر
پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ بیوپاریوں کے مطابق انہیں فی جانور 20 لیٹر
پانی کی ضرورت پڑتی ہے-
بیوپاریوں کے مطابق انہیں جانوروں کا پانی پورا کرنے کے لیے باقی پانی خود
خریدنا پڑتا ہے جو کہ انتہائی مہنگا پڑتا ہے- اور اگر جانوروں کو پانی کم
دیا جائے تو جانور بیمار بھی پڑسکتے ہیں جس سے نقصان کا اندیشہ ہے-
|
|
مختلف شہروں سے آنے والے ان بیوپاریوں سے جانوروں کی بہت زیادہ قیمت اور
خریداروں کی جانب سے لگائے جانے والے دام سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا
کہنا تھا کہ “ خریدار اتنی کم قیمت لگاتے ہیں جو ہماری خرید بھی نہیں ہوتی
جبکہ ہمیں جانور مہنگے ملے ہیں اور انہیں یہاں تک لانے میں بھی بہت خرچہ
ہوتا ہے“-
بیوپاریوں کے مطابق خریدار ان کے جانور کے بتائے گئے داموں میں 20 سے 30
ہزار کی کمی چاہتا ہے اور اتنے بڑے فرق کے ساتھ جانور بیچنا ان کے لیے ممکن
نہیں-
گزشتہ کئی دنوں سے مویشی منڈی موجود ان بیوپاریوں میں سے اکثر کا کہنا تھا
کہ وہ اپنے فروخت نہ ہو پانے والے جانور واپس اپنے گاؤں لے جانے کو ترجیح
دیں گے لیکن نقصان پر ہرگز نہیں فروخت کریں گے-
منڈی میں جہاں ایک جانب کئی ایسے بیوپاری نظر آئے جو اپنے ساتھ تو درجنوں
جانور لائے تھے لیکن اب ان کے پاس چند جانور باقی تھے تو دوسری طرف ایسے
بھی موجود تھے جن کے درجنوں میں سے صرف 2 یا 3 جانور ہی فروخت ہوئے تھے-
لیکن یہ بیوپاری فروخت کے حوالے سے پرامید تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کہ
ابھی عیدِ قرباں میں چند دن باقی ہیں تب تک ان کے تمام جانور فروخت ہوجائیں
گے-
|
|
ٹرانسپورٹر حضرات:
ایک طبقہ جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ہے منڈی میں موجود
ٹرانسپورٹر یا گاڑی والے جن کی مدد سے خریدار اپنا جانور اپنے گھر تک
پہنچانے کامیاب ہوتے ہیں ٬ ہماری ویب کی ٹیم نے ان لوگوں سے بھی خصوصی بات
چیت کی ان کے مسائل بھی جانے-
ٹرانسپورٹرز کا کہنا تھا کہ “ ہمیں فی پھیرہ 200 روپے پرچی کے ادا کرنے
پڑتے ہیں جبکہ خریدار سے بھی مناسب کرایہ کم ہی ملتا ہے- ابھی چونکہ آغاز
ہے تو ابھی ہمارا روزانہ 1 یا دو پھیرے لگتے ہیں اور جو کرایہ مناسب معلوم
ہوتا ہے ہم اس پر چلنے کو راضی ہوجاتے ہیں- لیکن آنے والے دنوں منڈی کے رش
میں اضافہ ہوگا تو ایک وقت میں کئی جانور گاڑی چڑھانے پر کرایہ تقسیم
ہوجاتا ہے جو کہ ہمارے علاوہ خود خریدار کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے“- |
|