جس طرح انسان اپنی کسی خصوصیت کے سبب الگ شناخت بنا لیتے
ہیں اسی طرح دنیا بھر میں ایسی کئی بستیاں، قصبے اور دیہات ہیں جو کسی
انوکھی وجہ کے سبب اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ تاریخ میں کئی ایسے شہر ہیں جو
اپنے کسی خاص وصف کی بنا پر آج بھی یاد رکھے جاتے ہیں، یونان اور روم میں
فلسفے ، فن اور شاعری کی بنیاد پر کئی شہروں کے نام اسی فہرست میں آتے ہیں
تو اگر مشرق کا رُخ کیا جائے تو کوفہ و بغداد، نیشا پور، بخارہ سمیت کئی
ایک شہروں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن ان تاریخی حوالوں میں زیادہ تر نام
ایسے ہیں جو علم یا سیاست کے مراکز رہنے کی وجہ سے یادگار قرار پائے۔ جب کہ
ہم جن بستیوں کی بات کررہے ہیں، ان کے منفرد ہونے کے اسباب حیرت اور عجائب
سے عبارت ہیں، ان میں سے کئی بستیاں خود انسانوں نے کسی خاص مقصد کے تحت
اپنے ہم پیشہ یا ہم ذوق افراد کے لیے بسائی ہیں تو کئی ایسی بھی ہیں جنھیں
عجیب بنایا نہیں گیا بلکہ وہ خود ہی انوکھی ہیں۔ یوں تو یہ دنیا ہی کارخانہ
عجائب ہے بس اس میں سے دنیا میگزین کے شائع کردہ چند نمونے ، چند منظر
قارئین کی پیش خدمت ہیں۔
|
یہاں گیس ماسک لباس کا حصہ ہے:
ٹوکیو سے 110کلو میٹر دور واقع بستی مٹ اویاما کی آبادی 28ہزار سے زاید ہے۔
اس بستی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے تمام ہی رہایشیوں کو ہر وقت اپنے ساتھ
گیس ماسک رکھنا پڑتا ہے گویا یہ ان کے لباس کا حصہ ہے۔ دراصل اویاما کسی
زمانے میں لاوا اگلنے والا ایک آتش فشاں تھا۔ 1940میں پہلی مرتبہ اس سے
لاوے کا اخراج ہوا جس کی وجہ سے 11افراد مارے گئے بعد ازاں 1962اور 1983میں
بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ 2000میں اس آتش فشاں سے سلفر ڈائی آکسائڈ
کی 20ہزار ٹن سے زاید مقدار کا اخراج ہوا جس کی وجہ سے جزیرے کی آب و ہوا
مہلک گیسوں سے بھر گئی۔ اموات سے بچنے کے لیے حکومت نے اس علاقے کو خالی
کروا لیا۔ پانچ سال بعد جب حالات معمول کی طرف لوٹنے لگے اور جزیرے کو خالی
کرنے کے حکومتی احکامات میں بھی کچھ نرمی ہوئی تو اس علاقے کے رہائیشیوں نے
دوبارہ یہاں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ دو بار آباد کاری کے باوجود اس علاقے
کا ایک تہائی رقبہ ابھی بھی کسی قسم کی رہائش کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
حکومت نے یہاں آکر بسنے والوں کے لیے مستقل بنیادوں پر چیک اپ اور عمر کی
شرط عائد کردی۔ اس بستی کو میاک جیما کہا جاتا ہے۔ شہریوں پر پابندی ہے کہ
وہ ہر وقت گیس ماسک اپنے ساتھ رکھیں ، کیوں کسی بھی وقت آتش فشاں سے
زہریلی گیسوں کے اخراج کا خطرہ رہتا ہے، اور اس سے آگاہ کرنے کے لیے ایک
الارم سسٹم بھی بنایا گیا ہے۔ ان خطرات کے باوجود یہ جزیرہ سیاحتی سرگرمیوں
کا مرکز رہتا ہے۔ ہائیکنگ ، غوطہ خوری اور دیگر ایڈونچرز کے دل دادہ اس
جزیرے کا رُخ کرتے ہیں۔ |
|
روحوں کا شہر:
قبرستان کو شہر خموشاں بھی کہا جاتا ہے لیکن جس بستی کا تذکرہ ہم کررہے ہیں
وہ شہر بھی ہے اور قبرستان بھی ۔ سانس فرانسسکو کی اس بستی کو کولما کے نام
سے جانا جاتا ہے۔ 1900میں مقامی حکومت نے شہر میں کسی نئے قبرستانوں میں
تدفین پر پابندی عاید کردی۔ قبرستانوں میں تدفین رک جانے سے وہاں موجود
قبریں شکست و ریخت کا شکار ہوگئیں اور خرابی اس انتہا کو پہنچی کے صحت کے
لیے مضر ماحول نے جنم لینا شروع کردیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے 1919میں
حکومت نے ایک اور آرڈیننس جاری کیا اور شہر میں قائم تمام قبرستانوں کو
ختم کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ قبرستان کے منتظمین کو یہ احکامات پہنچا
دیے گئے۔ ان میں سے کچھ نے اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش بھی کی۔
اس میں کئی برس لگے لیکن 1937تک ساری قبریں ختم کردی گئیں۔ 1924میں قبرستان
کے منتظمین نے ایک انجمن قائم کی تاکہ آئندہ ایسے کسی بھی حکومتی فیصلے کی
ڈٹ کر مخالفت ممکن ہوسکے، اسی انجمن نے lawndelکے نام سے ایک شہر بسایا جس
کا نام بگڑتے بگڑتے 1941میں کولما ہوگیا۔ کولما میں اس وقت 17قبرستان واقع
ہیں۔ 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق اس شہر کی آبادی 18000تھی جب کہ یہاں
15لاکھ سے زیادہ انسان آسودہ خاک ہیں۔ لاکھوں قبروں کے اس شہر کو زندہ اور
مردہ آبادی کے اس غیر معمولی فرق کی وجہ سے کئی نام دیے جاتے ہیں، اسے
’’روحوں کا شہر‘‘ اور ’’شہر خموشاں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
|
|
بستی ’’عامل کامل‘‘ :
آپ نے شہروں میں جا بہ جا دیواروں پر عامل کامل باباؤں کے اشتہار دیکھے
ہوں گے پورے ملک میں ’’پُر اسرار‘‘ قوتیں رکھنے والے اور روحانی علاج کا
دعویٰ کرنے والوں نے ہر دیوار کو اپنا اشتہار بنا رکھا ہے۔ لیکن دنیا میں
ایک ایسی بستی بھی ہے جس میں بسنے والے سبھی ’’عامل کامل‘‘ ہیں۔لِلی ڈیل کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جادوگروں اور روحانی علاج کرنے کا دعوی کرنے
والے افراد کی دنیا میں سب سے بڑی آبادی ہے جہاں ہر گھر میں کوئی نہ کوئی
روحانی معالج یا جادوگر رہتا ہے۔ اس چھوٹے علاقے کی کل آبادی 275 نفوس پر
مشتمل ہے لیکن ہر سال یہاں 25 ہزار سے زائد افراد ورکشاپس، سروسز، لیکچرز
اور ذاتی مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں۔ دوسری بستیوں کی طرح لِلی ڈیل میں
بھی ڈاک خانہ، لائبریری ، ادارہ انسداد آتش زدگی، کھیل کا میدان وغیرہ ہیں۔
اسی طرح یہاں کافی شاپ اور ریستوران بھی ہیں۔ دو چار گفٹ شاپس بھی بنائی
گئی ہیں اور چند گیسٹ ہاؤس اور ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ گزشتہ 135برس
سے یہاں پر ہر سال روحانی معالجین کی ایک اسمبلی منعقد ہوتی جسے ایک مسیحی
مذہبی تنظیم منعقد کرواتی ہے۔ اس میں شرکت کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ
دنیا سے رخصت ہوجانے والے انسانوں سے رابطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور
ان کے پیغامات زندہ افراد تک پہنچاتے ہیں، ہر سال اس اسمبلی میں ایسے ہی
کئی پیغامات جاری کیے جاتے ہیں۔ ہر برس ہزاروں افراد اس بستی کا رُخ کرتے
ہیں اور وہاں کے رہائشیوں کے بقول ’’ماورائی دنیا میں اپنے مسائل کا حل
تلاش کرنے یہاں آتے ہیں۔‘‘بھارت میں آسام کے قریب بھی ایسی ہی ایک بستی
ہے جسے ’’کالے جادو کی سرزمین‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماینگ نامی اس علاقے کے بارے
میں یہ مشہور ہے کہ یہاں پائے جانے والے جانور دراصل کسی گزرے زمانے میں
جادو گر رہے تھے اور اب شکل بدل چکے ہیں۔ اس شہر میں قدیم آیوروید اور
کالے جادو کا ایک میوزیم بھی قائم ہے۔
|
|
وہ شہر نہیں رہا:
گو کہ ہانک گانک میں واقع کولون والڈ سٹی کو 1994میں مسمار کردیا گیا لیکن
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں اب تک کا سب سے گنجان آباد شہر
تھا۔ اس شہر میں چھے سے سات ایکڑ زمین پر 33سے 50ہزار افراد رہائش پذیر تھے۔
بنیادی طور پر یہ شہر سولہویں صدی میں چینیوں کی تعمیر کردہ ایک قلعے کے
اندر بسایا گیا تھا جس پر 1898میں انگریزوں نے قبضہ جما لیا تھا۔ جنگ عظیم
دوم کے بعد چین نے یہ قلعہ واپس لینے کا اعلان کیا تو پناہ گزینوں کی بڑی
تعداد نے اس شہر کا رُخ کیا۔ 1947تک یہاں صرف 2000 کوارٹرز تھے۔ برطانوی
فوج نے پناہ گزینوں کو شہر سے بے دخل کرنے کی کوشش کی مگر بڑھتی ہوئی تعداد
کے آگے انھیں شکست تسلیم کرنا پڑا اور وہ یہ شہر چھوڑ گئے۔ 1950تک چین اور
برطانیہ دونوں ہی نے اس شہر سے اپنی توجہ ہٹا لی جس کے باعث یہ شہر منشیات
فروشی اور جرائم کا مرکز بن گیا۔ یہاں منظم جرائم پیشہ گروہ بننے لگے جنھیں
ٹیریڈز کہا جاتا تھا۔ 1980تک اس شہر پر جرائم پیشہ مافیا گروپس کی حکمرانی
رہی، اس کے بعد یہاں پر قانون کی صورت حال بہتر ہونا شروع ہوئی۔ 1960میں
کولون میں تیزی سے تعمیرات شروع ہوئیں۔ کسی بھی ضابطے کے بغیر ہونے والی ان
تعمیرات میں جس کا جہاں دل چاہا اس نے عمارتیں کھڑی کردیں۔ چھوٹی بڑی
عمارتوں میں جس کے جہاں سینگ سمائے رہایش اختیار کرلی، جہاں جی چاہا
کاروبار شروع کردیا۔ برطانوی اور چینی حکام نے شہر میں جرائم کی شرح پر تو
قابو پالیا لیکن یہاں ہونے والی بے ہنگم تعمیرات کا کوئی حل سجھائی نہ دیا
اور اس شہر میں بڑی سطح پر عمارتیں مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے
کے خلاف یہاں کے شہریوں نے شدید احتجاج شروع کردیا۔ جیسے تیسے یہاں سے
آبادی کا انخلا کروایا گیا اور اس شہر کو مسمار کرنے کے لیے تین بلین ہانک
کانگ ڈالر بھی خرچ کیے گئے۔ بعد ازاں اسے بڑے سٹی پارک میں تبدیل کردیا گیا۔
|
|
پرندے خودکُشی کرتے ہیں:
آسام میں بوریل ہلز کے پہاڑی علاقے میں جتنگا نامی ایک ایسا علاقہ ہے جو
طویل عرصے سے ایک اسرار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ ہر سال ستمبر سے اکتوبر
کے دوران اس علاقے سے ہجرت کرنے والے پرندوں کا گزر ہوتا ہے۔ اس عرصے میں
خاص طور پر جب راتوں میں دھند اور اندھیرا زیادہ ہوتا ہے ان پرندوں میں سے
سیکڑوں پرندے تیزی سے اڑتے ہوئے، درختوں اور عمارتوں سے ٹکرا کر مر جاتے
ہیں۔ پرندوں کی اس ’’اجتماعی خودکُشی‘‘ کے بارے میں سب سے پہلے ایک معروف
سائنس داں ای پی جی نے 1960میں انکشاف کیا تھا۔ تحقیقات کے بعد اس حوالے سے
مختلف آرا سامنے آئی بعض ماہرین کا خیال ہے کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ
پرندے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور بانس کے کھمبوں سے ٹکرا جاتے
ہیں، بعض کے خیال میں مرنے والے زیادہ تر پرندوں کی تعداد کم عمر پرندوں کی
ہے یا پھر ایسے پرندوں کی ہیں جو مقامی نقل مکانی کرنے والے پرندے کہلاتے
ہیں۔ حال ہی میں اس حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ پرندے دیہاتیوں
کے گھروں میں ہونے والی روشنی کی جانب لپکتے ہیں، اور نیچی اُڑان بھرتے ہیں
جس کی وجہ سے یہ ٹکراؤ ہوتا ہے۔ ان اسباب کے سامنے آنے کے بعد انڈیا میں
وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے آگاہی مہم شروع کی جس کے بعد پرندوں کی اموات میں
40 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
|
|
جڑواں بچوں کے دو گاؤں:
بھارت ہی کے دو شہر ایسے ہیں جن کی وجہ شہرت ایک ہے اور انتہائی عجیب بھی۔
ان میں سے ایک گاؤں جنوبی ہند کی ریاست کیرلا کا کوڈنہی گاؤں ہے اور
دوسرا الہ آباد کا عمری ۔ کیرلا کے ضلع مالپّورم میں واقع کوڈنہی کی کل
آبادی 2000بتائی جاتی ہے جس میں 350ہم شکل جڑواں افراد کے جوڑے شامل ہیں۔
سائنس داں اور تحقیق کرنے والے آج بھی اس کا راز سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس
علاقے میں پیدا ہونے والے ہزار بچوں میں سے 12 بچے جڑواں اور ہم شکل ہوتے
ہیں اور اسی لیے اسے ٹوئن ٹاؤن بھی کہا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس
علاقے میں پیدا ہونے والے ہزار بچوں میں سے 42 جڑواں ہوتے ہیں۔ اس حساب سے
اس علاقے میں بسنے والے ہر خاندان کے گھر میں کم از کم دو ایسے بچے ضرور
ہیں جو جڑواں بھی ہیں اور ہم شکل بھی۔ الہ آباد میں محمد پور عمری کے نام
سے ایک گاؤں کو بھی ٹوئن ٹاؤن کہا جاسکتا ہے۔ 900 کی آبادی رکھنے والے اس
چھوٹے سے گاؤں میں 60جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں
جڑواں بچوں کی پیدایش کی مجموعی شرح سے یہاں جڑواں بچوں کی پیدایش کی شرح
300گنا زیادہ ہے اور شاید یہ دنیا کا واحد ایسا علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ
ہم شکل جڑواں افراد رہتے ہیں۔
|
|
ہر کوئی لڑاکا ہے یہاں:
وسطی چین میں تیانزو کے پہاڑی سلسلو میں چھپا یہ چھوٹا سا گاؤں جسے گانزی
دونگ کہا جاتا ہے اپنے رہایشیوں کی خاص مہارت کی وجہ سے حال ہی میں دنیا
بھر کی نظر میں آیا۔ اس گاؤں میں بسنے والے تقریباً تمام ہی افراد سیلف
ڈیفنس اور لڑائی کے فن کنگ فو میں مہارت رکھتا ہے۔ دونگ ایک ایسی برادری یا
کمیونٹی ہے جس کا شمار چین کی جانب سے سرکاری طور پر تسلیم کی گئی 56
کمیونٹیز میں ہوتا ہے۔ اس گاؤں میں اسی کمیونٹی کے افراد بستے ہیں۔ یہاں
کے لوگوں کا پیشہ زراعت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کنگ فو میں مہارت رکھتے
ہیں۔ چینی مارشل آرٹ کے اس انداز کو مختلف طریقوں سے سیکھنے کا شوق یہاں
عروج پر پایا جاتا ہے۔ کنگ فو میں مختلف ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی مہارت
حاصل کی جاتی ہے اور یہاں ہر ایک فن کے کئی کئی چیمپئن بستے ہیں۔یہاں کے
باسیوں میں مارشل آرٹس کا اس قدر کیوں شوق پایا جاتا ہے ابھی تک اس کے
اسباب تو نامعلوم ہی ہیں مگر چینی روایات کی قدر کرنے والے اپنی ان ہم
وطنوں پر بہت نازاں ہیں، اس گاؤں کے حوالے سے چینی سوشل میڈیا پر ایک
باقاعدہ مہم کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زراعت سے
منسلک ان لوگوں کو سب سے زیادہ فکر اپنے مویشیوں کی ہوتی ہے جن پر اکثر
درندوں کے حملے ہوتے رہتے ہیں، ان سے بچاؤ کے لیے انھوں نے یہ فن سیکھا ہے۔
بعض کا کہنا یہ بھی ہے کہ شروع شروع میں اس کمیونٹی نے اس علاقے میں بسنے
کے لیے یہاں آئے تو انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آس پڑوس میں بسنے
والوں نے انھیں قبول نہیں کیا۔ انہی مشکلات سے نمٹنے کے لیے انھوں نے مارشل
آرٹ کے استادوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا اور پھر ان اساتذہ نے انھیں اس
فن سے آراستہ کیا۔ غرض یہ کہ اس گاؤں اور اس کے باسیوں سے متعلق بھانت
بھانت کی کہانیاں مشہور ہیں لیکن کوئی بھی اس بات کا اصل راز نہیں جانتا کہ
کھیتی باڑی کرنے والے یہ کسان مارشل آرٹ سے ایسی گہری وابستگی کیوں رکھتے
ہیں۔ اس گاؤں میں 123گھر ہیں اور ہر گھر میں مارشل آرٹ سیکھا اور سکھایا
جاتا ہے۔ نوجوان نسل شہروں کا رُخ کرنے لگی ہے لیکن ان کی تربیت بچپن میں
ہوچکی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کو بھی سلائی کڑھائی اور گھریلوں کاموں
کی طرح مارشل آرٹ سکھایا جاتا ہے۔
|
|
اس قصبے کی یادداشت کھو چکی ہے:
جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا کے شمال مغرب میں ایک خوب صورت وادی انٹیوکیوا
ہے۔ جنت ارضی کا منظر پیش کرنے والی اس وادی میں ایسے افراد کی غیر معمولی
تعداد بستی ہے جو الزائمر کے مرض کا شکار ہیں اور ان میں ساٹھ سال سے کم
افراد کی بڑی تعداد شامل ہے۔ انٹیوکیوا میں رہنے والوں کی اکثریت الزائمر
کی مختلف اسٹیجز کا شکار ہیں۔ انٹیوکیوا میں بسنے والے الزائمر کے شکار
افراد میں زیادہ تر اس بیماری کے شدت 35سے چالیس برس کے درمیان ہی ظاہر
ہونے لگتی ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ بیان کی جاتی ہے ’’جین‘‘۔ گذشتہ تین سو
سال سے اس علاقے میں رہنے والے اپنے خاندان اور علاقوں سے باہر شادیاں نہیں
کرتے۔ اس کی وجہ سے متاثرہ جین دوسرے متاثرہ جین سے مل کر اس بیماری کے
امکانات کو بڑھاتے رہے۔ مختلف رشتے ناتوں سے ایک ہی خاندان کے افراد شمار
ہونے والے ایسے افراد کی تعداد 5ہزار تک جا پہنچی ہے۔ اسی وجہ سے انٹیوکیوا
دنیا میں الزائمر سے متاثرہ افراد کی سب سے بڑی بستی بن چکا ہے۔ ان افراد
کے جین میں آنے والے اس نقص کو ’’پیسا‘‘ کہا جاتا ہے، یہ کروموزوم 14میں
پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے واقع ہوتے ہیں اور اس نقص کے شکار ہونے والوں
کو کولمبو ’’پیساز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انٹیوکیوا میں بسنے والے کئی
ادھیڑ عمر افراد کی دیکھ بھال ان کے بوڑھے والدین کو کرنا پڑتی ہے۔ اسی
وادی میں یرومال نامی ایک گاؤں میں 82 سالہ مسز کیوارٹاز رہتی ہیں جو اپنے
تین ’’بچوں‘‘ کی دیکھ بھال کرتی ہیں یہ تینوں الزائمر کا شکار ہیں۔ ان کی
عمریں بالترتیب48،50 اور 61ہیں۔ اس عمر میں آکر ان کے دو بیٹے اور ایک
بیٹی ایسے ہیں جو یہ بھی بھول چکے ہیں کہ جرابیں پاؤں میں پہنی جاتی ہیں
اور ٹوپی سر پر۔ الزائمرز پر تحقیق کرنے والے ماہریں نے اس علاقے میں ایک
’’برین بینک‘‘ بھی قائم کررکھا ہے جس میں انٹیوکیوا کے رہنے والے افراد
مرنے سے پہلے اپنے اعضا عطیہ کردیتے ہیں۔ متاثرہ افراد کے دماغوں کا تجزیہ
کرکے مرض کے مختلف اسباب پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس مرض اور اس کے دیگر اثرات
کی وجہ سے اس علاقے میں منشیات کے استعمال اور خود کشی کی شرح انتہائی بلند
ہے۔ اس کی ایک وجہ الزائمر کے مرض کا خوف بھی بتایا جاتا ہے۔
|
|
جہاں سرپر چھت نہیں ’’زمین‘‘ ہے:
آسٹریلیا کے اس دور دراز علاقے کو پہلی نظر میں دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے
کہ شاید کسی آفت نے اس شہر بستی کو تباہ کردیا تھا یا پھر ریگستان میں یہ
کوئی آسیب زدہ جگہ ہے۔ جہاں تک نگاہ جاتی ہے دور تک اونچے نیچے ٹیلے اور
نا ہموار زمین نظر آتی ہے۔ یہ بستی ’’کُوبر پیڈی‘‘ کے نام سے مشہور ہے،
اور اس کی ساری آبادی زیر زمیں ہے۔ یہ بستی 1915میں اس وقت قائم ہوئی تھی
جب یہاں جواہرات کی کانیں دریافت ہوئیں، یہ علاقہ عقیق کی کانوں کی وجہ سے
مشہور ہوگیا اور پورے یورپ سے مالا مال ہونے کے خواہش مند یہاں پہنچنے لگے۔
صحرا کی شدید گرمی کے باعث یہاں آنے والوں نے جلد ہی اندازہ لگا لیا کہ اس
علاقے میں زمین پر رہنے کے بجائے زمین کے اندر رہنا زیادہ آسان ہے۔ شدید
گرمی اور انتہائی نا موافق آب و ہوا سے مقابلے کے لیے ان لوگوں نے یہ
تدبیر کی کہ کان کَنی کے دوران بنائی گئی سرنگوں ہی میں بسیرا کرنا شروع
کردیا۔ کوبر پیڈی میں 51سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت معمول کی بات ہے، اگر گھر
زمین کے اوپر بنائے جاتے تو ایئر کنڈیشنگ کے بغیر یہاں گزارہ ممکن نہ تھا
لیکن زیر زمین بنائے گئے گھروں میں درجہ حرارت نارمل رہتا ہے۔ خیال یہ
گزرتا ہے کہ شاید ان سرنگوں میں انسانوں نے رہنے کے لیے محض ’’بِلیں‘‘
بنانے پر اکتفا کیا ہوگا لیکن اس زیر زمین بستی میں ساڑھے چار سو مربع گز
رقبے کے گھر بھی موجود ہیں۔ رہائشی مکانات کے علاوہ گرجا گھر، اسٹورز،
گیلریز اور ہوٹل بھی بنائے گئے ہیں۔ ان کانوں نے نکلنے والے عقیق اور دیگر
جواہرات کی نمائش کے لیے بھی یہاں ایک خوب صورت گیلیری بنائی گئی ہے۔ اپنی
اس انفرادیت کی وجہ سے یہ بستی فلم بینوں کی پسندیدہ لوکیشنز میں شامل کی
جاتی ہے اور یہاں کئی ہالی ووڈ فلموں شوٹنگ بھی ہوچکی ہے۔ |
|