عیدالاضحی اور روح قربانی
(Abdul Rehman Jalalpuri, )
اسلام کے دو عظیم تہواروں میں سے
ایک تہوار ’’عیدالاضحی ‘‘ ہے جسے نہایت مذہبی عقیدت اور باوقار انداز میں
منایا جاتا ہے۔ اسلامی تہوار متانت، سنجیدگی اور وقار کا بہترین شاہکار ہیں۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے
اس کی عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔
عیدالاضحی کا تعلق تاریخ ِ اسلام کے ایک نہایت ہی درخشاں باب سے ہے۔یہ روزِ
سعید ایک عظیم واقعہ کی یاد دلاتا ہے جو دراصل اسلام کی روح کا پتا دیتا ہے
وہ بتاتا ہے کہ عبدیت کیا چیز ہے؟ رب کی بندگی کیا چیز ہے؟ اور جب بندہ
اپنے رب سے بندگی کا عہد کرتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اور اسلام کی
روح کیا ہے؟ یہ ہمارے سامنے ہونا ضروری ہے ۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہم اسلام کے
نام لیوا ہیں۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ اور اسلام کا حقیقی مطلب ’’اﷲ کے ہر حکم
کے آگے سرتسلیم خم کرنا‘‘ہے۔ اسلام کی حقیقی روح کا پتا ہمیں اس قول رسول ﷺ
سے ملتا ہے کہ ’’محبت اﷲ کے لیے ، بغض اﷲ کے لیے، کسی کو عطا کیا تو اﷲ کے
لیے، کسی کو دینے سے ہاتھ روکا تو اﷲ کے لیے‘‘ یعنی انسان کا ہر عمل اور اس
کی پسند وناپسند اﷲ کی مرضی کے تابع ہوجائے۔ اﷲ کے حکم کی تعمیل کے لیے اور
اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے بلکہ بڑی سے
بڑی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ یہ اسلام کی اصل روح ہے اور اس کا پتا
اولاً ہمیں اسلام کے پہلے داعی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ملتا
ہے۔
عیدالاضحی کا نام سنتے ہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی
یاد ذہن میں آتی ہے جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی بندگی کی عظیم مثال قائم کی۔
اوراسلام کی حقیقت کو اس طرح پورا کیا کہ 87برس کی عمر میں ملنے والی
اولادجب ساتھ چلنے کے قابل ہوئی تو رضائے الہٰی حاصل کرنے کے لیے اسے قربان
کرنے کو تیار ہوگئے۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں کچھ یوں درج ہے۔ فَلَمَّا
بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ ٰیبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ
اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ط قَالَ ٰٓیاَبَتِ افْعَلْ مَا
تُؤْمَرُ ز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ہ
(۳۷:۱۰۲) (ترجمہ) ’’پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام) ان کے ساتھ دوڑ کر چل
سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے
بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ
تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسماعیل علیہ السلام نے) کہا: ابّاجان! وہ کام (فوراً)
کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر
کرنے والوں میں سے پائیں گے،۔‘‘
آگے فرمایا:فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ (۳۷:۱۰۳) (ترجمہ)
’’پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم
کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا
‘‘( ذبح کرنے کے لیے ) روایات میں آتا ہے کہ چھری بھی چلا دی تھی لیکن اﷲ
کو بس امتحان لینا مقصود تھا۔ چنانچہ فرمایا وَنَادَیْنٰہُ اَنْ
یّٰٓاِبْرٰھِیْمoقَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَاج اِنَّاکَذٰلِکَ نَجْزِی
الْمُحْسِنِیْنَ ‘‘ (۳۷:۱۰۴،۱۰۵) (ترجمہ)‘‘ہم نے اسے ندا دی کہ اے
ابراہیم!واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچا کر دکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو
ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (سو تمہیں مقامِ خلّت سے نواز دیا گیا ہے)‘
گویا حضرت ابراہیم ؑ اپنے امتحان میں کامیاب ہوگئے بلکہ انہیں اس شان سے
کامیابی ملی ہے کہ خود اﷲ تعالیٰ نے تحسین کی اور آپ ؑ کو شاباش دی فرمایا’’
اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ ‘‘(۳۷:۱۰۶) (ترجمہ)بے شک یہ
بہت بڑی کھلی آزمائش تھی۔
آگے فرمایا ’’وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ o وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی
الْاٰخِرِیْنَ (۳۷:۱۰۷،۱۰۸) (ترجمہ)’’ اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے
ساتھ اِس کا فدیہ کر دیا،اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر
برقرار رکھا ‘‘
یعنی پیکر رضائے الہٰی کو خواب میں اشارہ دیا جاتا ہے کہ اپنے بڑھاپے کا
سہارا ہماری راہ میں قربان کردے تو وہ خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تیار
ہوجاتے ہیں کہ میرا مالک راضی ہو جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بے مثال بندگی اور
بے مثال سرفروشی سے خوش ہو کر قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لیے قربانی
کی سنت کو جاری کر دیا۔
ذی الحجہ کی نویں تاریخ سے ہی دنیا کے سامنے اسوۂ ابراہیمی ؑ کی لازوال
زندگی کا عجیب وغریب منظر ہوتا ہے ۔ تاریخ ہزاروں برس کا سفر طے کرنے کے
بعد ہر سال اپنے آپ کو دہراتی ہے تاکہ اسلام کے داعی اول کی زندگی ایک
مرتبہ پھر اپنے جمال جہاں آرا سے قالب مردہ میں نئی جان ڈال دے اور رہروان
حقیقت کے سامنے صبر وضبط اور ایثار واستقلال کا سبق پیش کرے، اور صاحب
ایمان ان کی اس سنت کو پورا کرکے صبر وضبط اور ایثار واستقلال کا جذبہ لیے
اسلام پر کاربند ہوں۔ چنانچہ ایک موقع پر نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ’’اے اﷲ
کے رسولؐ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:’’تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی
سنت ہیں‘‘
تمام اہل ایمان کے لیے سنت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ابراہیم واسماعیل
علیہماالسلام سے ایک چھوٹی سی ، محدود زندگی طلب کرکے ایک ایسی ابدی اور
سرمدی زندگی عطا فرمائی جو عزت وکرامت کی انتہاء پر ہو۔ آج دنیا کے چپے چپے
پر بسنے والے مسلمان حکم الہٰی کو مانتے ہوئے قربانی کرتے ہیں اور حضرت
ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کو بھی یاد کرتے ہیں۔
عیدالاضحی کا اصل پیغام یہی ہے کہ بندہ ،اﷲ کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم
کردے، قربانی کی روح کو حاصل کرے اور قربانی کی روح یہ ہے کہ آدمی اﷲ کی
رضا کی خاطر بڑی سے بڑی شئے قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔
چنانچہ حقیقت ِ قربانی کو قرآن مجید میں کچھ یوں ذکر کیا گیا ہے’’لَنْ
یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ
التَّقْوٰی مِنْکُم‘‘(ترجمہ)’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت
پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، ‘‘
یوں تو ہر عمل کے دوپہلو ہوتے ہیں۔ ایک اس کی ہیئت (Form) اور دوسری اس کی
روح، روح کا تعلق اس کے عقیدے او ر نیت کے ساتھ ہے جبکہ ہیئت کا تعلق ظاہری
شکل وصورت سے ہے۔ اسی طرح قربانی کا ظاہری پہلو (عمل) یہ ہے کہ قربانی کا
جانور اچھے سے اچھا ہو، وہ شرائط پر پورا اترے (بکرا اور اس کی جنس کے
جانور کی عمر کم از کم 1(ایک) سال، گائے اور اس کی جنس کے جانوروں کی عمر
کم از کم 2(دو)سال، اونٹ اور اونٹی کی عمر کم از کم 5سال ہو، نیز ان
جانوروں میں کوئی عیب نہ ہو)اسے اﷲ کے نام پر شرعی تقاضوں کے مطابق ذبح کیا
جائے، اس کا گوشت رشتہ داروں اور دوست احباب میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ
غربائاور فقراء میں بھی تقسیم کیا جائے نیز اس میں سے خود بھیکھایا جائے ۔
اور قربانی کا دوسرا پہلو(روح) تقوی ہے، جیسا کہ آیت بالامیں مذکور ہے۔یعنی
اگر زید اس نیت سے اچھا جانور خرید کر قربانی کرتا ہے کہ لوگ اسے داد دیں،
اس کی تعریفیں کریں ۔ تو بالشبہ اس نے قربانی کا ظاہر عمل تو پورا کیا لیکن
حقیقت ِقربانی اور روح ِقربانی سے محروم رہا، جو کہ تقوی تھا۔ جانور کا ذبح
کرنا درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور انہوں نے اﷲ کے حضور
اپنی سب سے پیاری چیز ، اپنے بڑھاپے کا سہارا، اپنا نورچشم قربان کرنے کا
نہ صرف ارادہ فرمایا بلکہ اس کی تکمیل کے لیے میدان منی تک جا پہنچے اور
اپنے بیٹے کو لٹا کر اس کے گلے پہ چھڑی بھی چلا دی، بے شک اﷲ تعالیٰ نے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا کر ان کے جگہ دنبہ بھیج کر ذبح کروا دیا
لیکن اس سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ قربانی کی روح تب حاصل ہو گی جب
صبروضبط اور ایثار واستقلال کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اﷲ کی راہ میں جانور
قربان کرو گے۔ اور دکھاوا چھوڑ کر اﷲ کی رضا کے لیے یہ سب کرو گے۔ یعنی
جانور بظاہر فربا نہ ہو اور نیت رضائے الہٰی کی ہو تو روح قربانی حاصل
ہوجائے گی لیکن اگر جانور تو فربا ہو لیکن نیت دنیا کو دیکھانے کی ہو تو
پھر روح قربانی حاصل نہیں ہو گی اور مقصد قربانی فوت ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ
ہمیں روح اسلام اور روح ایمان عطا فرمائے اور اسوۂ ابرہیمی ؑاور اسوۂ محمدی
ﷺکو اپنا کر اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین
|
|