حج کے لغوی معنی قصد کرنے ،گرد
گھومنے ،بار بار لوٹ کر آنے کے ہیں ۔حج کے ایام ہر سال آتے ہیں اس لیے اسے
حج کہا جاتا ہے اور حجاجِ کرام دنیا کے گوشے گوشے سے جوق در جوق ،،مختلف
راستوں سے اور مختلف اطراف سے مکہ مکرمہ (کعبۃ اﷲ ) کی جانب کھینچے چلے آتے
ہیں ۔حج کے مقدس اور با وقار موقعے پر دنیا بھر سے 34 لاکھ سے زائد
مسلمانانِ عالم اسلام کا عظیم اجتماع پوری دنیا کا سب سے بڑا اجتماع دنیا
کے کسی بھی ایک مقام پرصرف حج کا ہی ہوتا ہے ۔حج مبارک اسلام کا پانچواں
بنیادی رکن ہے ۔جس کی زینت قرآن پاک سے ثابت ہے آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں صرف
ایک حج کیا اور ہرصاحب حثیت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے ۔
مقدس مہینے ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا ہواسمندرمیدان
عرفات میں اپنے خالق و مالک کے ہاں سر بسجود ہو کر فریضہ حج ادا کرتا ہے۔
تمام عبادات ہر جگہ ادا ہوسکتی ہیں مگر حج اﷲ تعالیٰ کے گھر پہنچ کر اور اس
کا مہمان بن کر ہی ادا ہوتا ہے۔تمام عبادات میں اطاعت غالب ہے کچھ عبادات
مالی ہیں کچھ بدنی ہیں کچھ میں صرف اطاعت ہے کچھ عبادات عقیدے ہیں ۔مگر حج
میں محبت و عشق غالب ہے کہ حاجی دیوانوں کی طرح کعبہ شریف کے گرد گھومتا ہے
اور لبیک اللھم لبیک کے ساتھ چیخ و پکار کرتا ہے۔مگرحج مالی بھی ہے اور
بدنی بھی ہے۔
حج کے موقع پر ساری دنیا کے مسلمان ایک جگہ اکھٹے ہو کر اپنے مسائل کا حل
تلاش کرتے ہیں گو یا کہ ہر سال مکہ جو زمین کا قلب بھی ہے اس میں مسلمانوں
کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو جاتی ہے(حج کا سب سے اہم یہ بھی مقصد تھا
مگر ہم دیکھتے ہیں اس پر اب عمل نہیں کیا جا رہا آپ ﷺ کے زمانے اور اس کے
بعد صحابہ کے زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے کاش آج پھر اس پر عمل شروع ہو
جائے آج اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے)۔
موجودہ دور میں نفرت ، تعصب ،انتشار ،ظلم و ستم کا دور دورہ ہے ، آج کل
نفرت محبت سے زیادہ طاقت ور ہو رہی ہے رنگ ،نسل ،زبان اور گروہی مفادات نے
مسلمانوں کو تقسیم کر رکھا ہے اس میں اپنے پرائے سب شامل ہیں ۔ ایسے دور
میں حج امن و سلامتی محبت و مساوات کا ایک درس ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔پوری
دنیاسے مسلمان گورے ،کالے بناں کسی رنگ و نسل ،زبان کی تخصیص کے ایک جگہ
اپنے اﷲ کی خوشنودی کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔حج کا اصل مقصد پوری دنیا کے
مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ان میں بھائی چارہ کو مضبوط کرنا ہے ۔
حرم کعبہ میں مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں ، سعی کرتے ہیں اور سب کی توجہ
اپنے خالق و مالک کی طرف ہوتی ہے ۔ایک جیسے لباس میں امیر و غریب ، حاکم و
محکوم اور آقاو غلام کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔سب ہی ایک اﷲ کے بندے بن جاتے ہیں
۔اس کے سوا دنیا کے ہر بادشاہ کی غلامی انسان کے لئے شرک کا درجہ رکھتی ہے
۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے ہم نے لکھاکہ حج سے محبت حقیقی
اور محبت مجازی کی محبت کا درس ملتا ہے اﷲ سبحان تعالی کی خوشنودی کے لیے
اﷲ کے بندوں سے محبت ، عالمی بھائی چارہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس
رشتے کو تقویت ملتی ہے ،مساوات اسلام میں سب برابر ہیں اس میں گورے کو کالے
پر کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ،پابندی وقت ایک ایسی انسانی خوبی ہے جس پر
زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا بھی دارومدار ہوتا ہے حج میں ہم ہر کام کو
اس کے وقت پر کرنا سیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،حج سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ایک
حقیقی مسلمان کیسا ہوتا ہے اس کی تربیت ہوتی ہے ۔
پیارے پڑھنے والو!سوچنے کی بات ہے سمجھنے کی بات ہے (بلکہ شرم سے ڈوب مرنے
کی بھی بات ہے )کہ مناسک حج کے دوران جو سبق ہمارے دلوں پر لکھا جاتا ہے ہم
اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں؟ اپنے رب کے گھر میں اپنے رب سے جو عہد کر تے
ہیں اسے بھول کیوں جاتے ہیں؟ حج میں وقت کی پابندی، مساوات ، احترام
انسانیت، محبت، انس اور بندگی کو جو سیکھ کر آتے ہیں اسے ہم میں سے اکثر
بھول کیوں جاتے ہیں؟ ،بدل کیوں جاتے ہیں ؟، حج کی ادائیگی سے دل میں نرمی ،اخلاق
میں پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے۔یہ وقتی کیوں ہوتی ہے ؟۔ لوگ ایک سا لباس پہن
کر سخت گرمی میں طواف کعبہ کرتے ہیں امیر ،غریب بھی ،بوڑھا بھی اور جوان
بھی ، غلام اور آقا بھی ، ولی ،غوث ،قطب،ابدال بھی سب برابر ہوتے ہیں ۔
لیکن حج سے واپس آکر (سوائے چند ایک کے) ادنی اعلی میں کیوں پڑ جاتے ہیں ۔جتنے
حاجی ہیں اگر وہ ہی صرف ان اصولوں ان باتوں پر عمل کریں جو وہ وہاں سے سیکھ
کر آتے ہیں تو پاکستان جنت نظیر بن جاتا ۔ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے رکن
اسمبلی کی اکثریت حاجی ہے ،تاجر ،دوکاندار،بیورکریٹ وغیرہ حاجی ہیں ۔پھر
بھی بہت سے جھوٹ بولتے ہیں ،ملاوٹ کرتے ہیں ،لوٹ مار کرتے ہیں جن کی وجہ سے
(اﷲ سے معافی اور قارئین سے معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں) لفظ حاجی کا احترام
مجروع ہو رہا ہے اس کی وجہ ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ ۔
زبان سے کہہ بھی دیا لا الا تو کیا حاصل ۔دل و نگاہ نہیں مسلمان تو کچھ بھی
نہیں ۔
۔اﷲ سبحان و تعالی ٔ ہمیں حج کرنے اسے سمجھنے اور اس سے جو کچھ سیکھ کر
آئیں اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی توفیق دے۔ |