بعض علماء کرام نے وہ افعال سر
انجام دیئے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترک فرمایا:
١۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دعائے ختم قرآن کو جائز قرار
دیتے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فعل نہیں کیا: "المغني"
میں ابن قُدامہ کہتے ہیں:"ختم قرآن کے بارے میں فصل": فضل بن زیاد نے کہا:
میں نے ابو عبد اللہ (يہ امام احمد کی کنیت ہے) سے سوال کیا: میں کہا: میں
قرآن ختم کروں گا تو میں اسے وتر میں ختم کروں یا تراویح میں؟ انہوں نے
فرمایا: اسے تروایح میں ختم کرنا تاکہ وہ دو کے مابین ہمارے لیے دعا ہو
جائے۔ میں نے کہا: اس کا طریقہ کیا ہو؟ فرمايا:جب تم قرآن پاک کا آخر تلاوت
کر لو تو رکوع سے قبل اپنے دونوں ہاتھوں کو (دعا کے لیے) بلند کرواور ہمارے
ساتھ دعا کرو، درآں حالانکہ ہم نماز میں ہوں اور قیام کو طویل کرو۔ میں نے
کہا: کیا دعا مانگو؟ فرمایا: جو چاہو۔ جیسا انہوں نے کہا میں نے ویسا ہی
کیا اور وہ میری اقتداء میں تھے، انہوں نے کھڑے ہو کر دعا مانگی اور اپنے
دونوں ہاتھ بلند کئے۔
حنبل کہتے ہیں: میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو ختم قرآن کے بارے میں فرماتے
سنا: جب تم "قل أعوذ برب الناس" پڑھ لو تو رکوع سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ
دعا کے لیے بلند کرو۔ میں نے عرض کی: اس معاملہ میں آپ نے کیا مذہب اختیار
کیا؟ فرمایا: میں نے اہل مکہ کو ایسا کرتے پایا اور حضرت سفیان بن عیینہ
رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں ایسا کیا کرتے تھے، انتھی۔ (المغني،
كتاب الصلاة، باب الساعات ...، فصل في ختم القرآن في الصلاة)
تو یہ ایسا کام ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا بلکہ
اسے ترک فرمایا، کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیا ہوتا
تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ضرور اسے ہم تک منتقل کرتے، کیونکہ وہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے نقل کرنے کے حریص تھے، تو یہ بدعت حسنہ
ہے، جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا اور اس کے بارے میں فتویٰ دیا
اور ان سے قبل اہل مکہ مکرمہ نے حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ كے
ہمراہ یہ فعل کیا، اگرچہ ان کے پاس قرآن و حدیث سے اس پر کوئی مخصوص دلیل
نہیں تھی جس کو وہ دلیل بناتے، اور ایسا انہوں نے صرف اس لیے کیا کہ وہ
شریعت مطہرہ کی حقیقت سے واقف تھے، جس میں عام قواعد واُصول بیان کیے گئے
ہیں، جن کے تحت کثیر ایسے جزئیات مندرج ہے، جن میں سے ہر ایک پر کوئی ایسی
دلیل نہیں جو بعینہ اس کے ساتھ خاص ہو۔
تو ہم امام احمد واما م سفیان بن عیینہ رحمہما اللہ تعالیٰ سے خاص اس مسئلہ
کی دلیل کیوں طلب نہیں کرتے؟ اور ہم ان کے فعل اور فتویٰ کا انکار بھی نہیں
کرتے۔ جبکہ اس كا انکار کرتے ہیں جو کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مناتے ہیں، گیارہوں شریف کا انعقاد کرتے ہیں، پندرہویں شعبان شب
بیداری کرتے، فرض نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرتے ہیں، جبکہ یہ
مسائل بھی دعا بعد ختم قرآن کے مسئلہ کی طرح روشن شریعت کے اُصول عامہ کے
تحت مندرج ہیں؟!!
(کم از کم) علمی مسائل اور موازین فقہ ودین میں یہ تناقض نہیں ہونا چاہیے۔
اللہم ألہمنا الصواب واھدنا سُبُل الرِشاد۔
2۔ ذکر اللہ عزوجل کے سلسلہ میں ابن تیمیہ کی بدعت:
حافظ عمر بن علی بزّار کی کتاب "الأعلام العلیۃ في مناقب ابن تیمیۃ" میں ہے:
"میں ان کی عادت جانتا تھا، نمازِ فجر کے بعد بلا ضرورت کوئی ان سے کلام نہ
کرتا، وہ دوران ذکر صرف اپنی آواز سنتے یا کبھی اس کے ذکر کی آواز سن لیا
کرتے جو ان کے پہلو میں بیٹھا ہوتا، باوجودیکہ اس دوران وہ اپنی نگاہ کثرت
سے آسمان کی جانب اٹھایا کرتے، یہی ان کا طریقہ تھا، یہاں تک کہ سورج بلند
ہو جاتا اور نماز کا ممنوع وقت گزر جاتا۔
دمشق میں اپنی مدت قیام کے دوران میں نے دن کے اُجالے اور کثیر راتیں ان کے
ساتھ بسر کیں، كبھی وہ مجھے اپنے پہلو میں بٹھالیتے، اور اس وقت میں وہ کچھ
سنا کرتا جو وہ تلاوت و اَذکار کرتے تھے، تو میں نے انہیں سورۃ فاتحہ تلاوت
کرتے دیکھا، وہ اس کی تکرار کرتے اور یہ تمام وقت (میری مراد فجر سے لے کر
سورج بلند ہونے تک ہے) اسی کی تکرار میں کٹ جایا کرتا۔
میں نے اس میں غور وفکر کیا، کہ انہوں نے صرف یہی سورۃ مبارکہ اپنے اُوپر
کیونکر لازم کی، کوئی دوسری کیوں نہیں؟ تو انہوں نے مجھ سے کہا: "واللہ
اعلم، وه چاہتے تھے کہ وہ اس وقت اس کے ذریعے جو کچھ اَحادیث میں وارد ہوا،
اسے جمع كريں، اور جو کچھ علماء کرام نے فرمایا: کیا اس وقت تلاوت قرآن کو
وارد شدہ اَذکار سے مقدم کرنا مستحب ہے یا بالعکس؟ تو ان کی رائے یہ تھی کہ
فاتحہ پڑھنے اور اس کی تکرار میں دونوں اقوال جمع ہوتے ہیں، دونوں فضیلیں
حاصل ہوتی ہیں، اور یہ سب ان کی قوی ذہانت اور تیز نگاہ کے سبب تھا، انتھی۔
(الأعلام العلیۃ في مناقب ابن تیمیۃ، ص:38، ط:المكتب الاسلامي، بيروت)
ذرا غور کیجئے کہ یہ عمل محض ابن تیمیہ کی جانب سے بدعت تھا، کیونکہ اس نے
محض اپنی طرف سے بعینہ ایک ذکر کو ایجاد کر کے خاص کر لیا، جبکہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی، اور اس
نے اس ورد کے لیے وقت مخصوص کیا جبکہ اس بارے میں بھی کوئی نص وارد نہیں
ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ ابن تیمیہ کی اس قسم کی بدعت کی کیوں مدح کی گئی، اور کیونکر
اسے اس کی قوی ذہانت اور ثاقب بصری میں شمار کیا گیا؟ !! جبکہ صوفیاء کرام
رحمہ اللہ السلام کے ان اوراد کو بدعت شمار کرتے ہیں جو کہ انہوں نے خود
اپنے لیے اختیار کئے، جیسا کہ ابن تیمیہ نے کیا۔ اور کہاں ہیں ابن تیمیہ کے
پیروکار، جو اسے "شیخ الاسلام" کہتے ہیں ، وہ اس کی اس بدعت سے کیوں صرف
نظر کئے ہوئے ہیں؟!! اور کیونکر وہ اس کی ایسی عبادت کا انکار نہیں کرتے
جسے اس نے خود اپنی لئے اختیار کیا جبکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی جانب سے وارد نہ ہوئی اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین کی جانب
سے؟!! تو کیا ان کی نظر میں کچھ لوگوں جو بدعت ایجاد کریں وہ تو ناجائز ہو
اور کچھ کی بدعت کو وہ مقرر رکھتے ہیں؟!!! سبحانک اللہم ہذا بہتان عظیم۔ |