وفا

وہ شاید زندگی میں تیسری دفعہ اتنا خوش ہوا تھا۔ پہلی خوشی تب ملی تھی جب اس نے اپنے والد کی آنکھوں میں اپنی وجہ سے خوشی کے آنسو دیکھے تھے۔ مرتضیٰ کے گریجویشن کی بات ہے یہ۔ اس نے اپنی یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اور سٹیج پر حیدر صاحب کو بُلا کر وائس چانسلر نے کہا تھا ’’ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون عظیم والد ہیں جن کے سائے میں مرتضیٰ حیدر جیسے بیٹے نے پرورش پائی ہے‘‘۔ حیدر نے اپنے بیٹوں کو ہمیشہ زمین پر چلنا سکھایا اور اُنکی نظر کو بلندی پہ رکھنے کا حکم دیا اور یہ حکم اس لئے کہ وہ اپنے بیٹوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ محبت چاہے کسی بھی صورت میں کیوں نہ ہو یہ ہمیشہ اس انسان کو وہی سِیکھ دیتی ہے کہ وہ اپنے سے منسلک لوگوں کو اُونچی اُڑان سکھائے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کوئی آپ سے محبت کرتا ہے یا نہیں تو دیکھیں کہ آیا وہ آپ کے پَر کاٹتا ہے یا آپکی پرواز میں آپ کا معاون بنتا ہے۔

دوسری دفعہ اُسے خوشی تب ملی تھی جب وہ اس کے پاس بیٹھی تھی ۔ کوئی بھی انسان اکیلا کچھ نہیں ۔ دوسرا ہٹ کا احساس تنہائی میں رعنائیاں بکھیر دیتا ہے۔مرتضیٰ نے یونیورسٹی میں اس لڑکی کو اتنا دیکھا تھا جتنی طاقت اس کی بینائی میں موجود تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے اس کی آواز کا ارتعاش محسوس کر سکتا تھالیکن وہ اپنے خول میں سمٹی اور سنجیدگی اوڑھے ہوئے محبت کی تمازت محسوس کرنے سے بہت دور تھی۔ اکھٹا ایک ہی پروجیکٹ ملنے پر دونوں کو ایک دوسرے سے بات تو کرنا ہی تھی۔ لیکن بات صرف وہ کر رہی تھی۔ مرتضیٰ تو دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں کو ، اُس کی خم دار پلکوں کو ، انگلیاں مروڑتی بے چینی کو ، گالوں پہ دھنک کو اور وجود میں گریز کو۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی اپنائیت سے اجنبیت کی تمام دیواروں کو ہٹا دیا تھا اور محبت اس ہوا میں تِھرکتی پھرتی تھی جس میں وفا قریشی اور مرتضیٰ حیدر سانس لیتے تھے۔ جب لفظ ضروری ہو گئے تو وفا کا جواب وہی تھا جو ایک سمجھ دار بیٹی کا ہوتا ہے ’’ مجھے چھ سال چاہئے مجھے یہ نہیں پتا کہ ان سالوں میں میرے سر پر چاندی اُترنے لگے گی یا میں اپنی ذات کی کشش کھو دوں گی۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ ان چھ سالوں کے بعد میرے بہن بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے‘‘۔ بغیر والد کے پرورش پانے والی بڑی بہنوں میں ایک مرد خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔جو انہیں معاشرے میں چلنے کی طاقت بھی فراہم کرتا ہے اور ان کا سائبان بھی بنتا ہے۔ مرتضیٰ حیدر نے اس فیصلے کا احترام کیا تھا اور وفا کے دونون ہاتھوں پہ اپنے ہاتھوں سے ساتھ کی مہر ثبت کر دی تھی۔

آج اسے زندگی کی تیسری بڑی خوشی ملی تھی۔ وہ اسپین کا دیوانہ تھا اسے وہاں کی کرنسی یورو بھی پُرکشش لگتی تھی۔ اسپین کے پہاڑ اور دریا اسکی روح سے جُڑے ہوئے لگتے تھے۔ اسپین کی معیشیت نپولین کی جنگ کے بعد بدحالی کی بد ترین شکل کو جا پہنچی تھی اور سیاسی نظام بھی تقسیم ہو گیا تھالیکن پھر اس جنگ کے نتیجے میں بننے والے دونوں گروہوں ( جن میں سے ایک قدیم خیالات کے مالک اور ایک ترقیاتی خیالات کے مالک ہیں) میں حکومت کے انتظام کی ترسیل نے وطن کو قائم رکھا اب وہی اسپین معیشیت یورپین یونین میں تیسرے نمبر اور خریداری کی بنیاد پر سولہویں نمبر پر ہے۔

ٹیلی فونیکا ۱۹۲۴؁ء میں اسپین میں قائم ہونے والی ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہے جس میں مرتضیٰ حیدر کو اسکی قابلیت کی بناء پر بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔ اب وہ ائیر پورٹ پہ کھڑا تھا اور سامنے وفا قریشی۔ نارنجی رنگ کے دوپٹے اور سفید چکن کی قمیض میں بھی اسکی رنگت پیلی پڑ رہی تھی جیسے سارا خون نچڑ کر رہ گیا ہو۔ مرتضیٰ نے اسکی نم پلکون کو دیکھ کر التجا کی تھی ’’ جیسے بھی حالات کیوں نہ ہو جائیں تم میری رہنا۔ تمہیں میرا رہنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ میری وفا کا خیال رکھنا۔ میری وفا کی لاج رکھنا‘‘۔ وفا نے جواب میں سی کی آواز بھی نہیں نکالی تھیاسے ان لفظوں سے تکلیف ہوئی تھی جیسے کوئی خنجر پل پل کر کے سینے میں اُتارا جائے۔وہ کہنا چاہتی تھی کہ اعتبار بھی ضرور ی ہے جتنی محبت ضروری ہے مگر خاموش رہی اسے معلوم تھا کہ وقت خود بتائے گا۔

چھ سال گزر گئے۔ مرتضیٰ حیدر داخلی دروازے سے کمرے کے راستے تک آنے والے خوش رنگ پھولوں کو دیکھ رہا تھا۔ نظر دیوار پر پڑی ۔ ڈیجیٹل کلاک میں 13 بج کر 13 منٹ ہوئے تھے۔ پسینے کے قطرے نے سر کے آخری حصے سے کمر تک کا سفر طے کیا۔ اس نے اپنی نیلی زرٹ کے کالر کو غیر مرئی قوت کے زیرِ اثر ڈھیلا کیا۔ کمرے کے اندر جاتے ہی اس نے وفا کی والدہ کو دیکھا۔ سنجیدگی کا لبادہ جو بہت سال پہلے ان کی بیٹی کے گرد تھا اسی نے آج اُنکا احاطہ کر رکھا تھا۔ وہ ضرور کسی گہری سوچ میں تھیں۔ان ظالم سالوں نے مرتضیٰ حیدر کو باپ کی شفقت سے محروم کر دیا تھا۔ اس نے قریب جا کر آنٹی کو سلام کیا۔ ’’ وعلیکم السلام ، خوش رہو‘‘۔ تھوڑی دیر میں وفا کی چھوٹی بہن حِرا سوپ لے کر آ گئی۔دھوئیں کے مرغولے میں ہر دل اپنے اندیشے اور اپنی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ سوپ کے کٹورے ہاتھوں میں آ گئے تھے۔ وفا سلام دُعا کرتی داخل ہوئی اور ماں کی پائنتی سے جُڑ گئی تھی۔ اُس کی انگلیاں آج بھی ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں مرتضیٰ دل ہی دل میں مُسکرا دیا۔ نمک کی شیشی سے نمک ماں کے پیالے میں اُنڈیلا تو پھر حِرا کو پکڑا دیاتاکہ وہ بھی اپنے سوپ کو مزیدار کر سکے۔ اس سے پہلے کے حِرا شیشی نیچے رکھتی ایک سوپ کا کٹورا وفا نے اُٹھا لیا کہ یہاں اس موقع پر کچھ نہ کرنے سے بہتر سوپ پینا ہے، اور نمک شامل کر لیا گیا۔ ٹھنڈے پسینے نے مرتضیٰ حیدر کی ساری کمر کو بھگو دیاتھا۔ اس کے ہاتھوں سے کٹورا چھوٹ گیا۔حِرا فوراً سے صفائی کے لئے کپڑا لے آئی۔ سوپ صفائی والے تولیے میں جذب کیا گیااور پھر جھاڑو سے شیشے کے ٹکڑے اُٹھائے گئے۔ جھاڑو لگاتے ہوئے جھاڑو نے ایک دفعہ مرتضیٰ کی پینٹ کو چھوا تھا ور ایک دفعہ وفا کے پائنچوں کو۔ مرتضیٰ کی آنکھوں میں وحشت تھی اور وفا کی آنکھوں میں نا سمجھی۔’’ واپس آکر میرا دل چاہا کہ میں آپ سب سے ملوں ، لیکن ابھی وقت کی قلت ہے پھر آؤں گا‘‘۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ ایک ماں کی اُمید ٹوٹی تھی اور ایک لڑکی کا مان۔

تین دن بعد وفا کے موبائل پر صوتی پیغام موصول ہوا۔’’ اسپین میں 13 کا ہندسہ بد شگونی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور جب میں تمہارے گھر داخل ہوا تو تمہارے برآمدے کی گھڑی 13 بج کر 13 منٹ بجا رہی تھی۔اسپین میں سُنا تھا کہ ایک دستر خوان میں نمک دانی تین لوگوں کے درمیان نہیں گھومنی چاہئے اسے ٹیبل پر ہونا چاہئے۔ لیکن تم جانتی ہوکہ اس دن کیا ہوا۔ اسپین میں اگر کسی شخص کو صفائی کرتے ہوئے جھاڑو لگ جائے تو اس کی کبھی شادی نہیں ہوتی۔ میرے پاس کہنے کیلئے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم کبھی ایک نہیں ہو سکتیـ‘‘۔

وفا نے گرتے ہوئے اندازمیں بیڈ کی سائیڈ کو پکڑا اور زمین پہ بیٹھ گئی کاش وہ اُسے بتا سکتی کہ برآمدے میں لگی گھڑی وفا کے والد لائے تھے اور وہ سالہا سال سے رُکی ہوئی ہے مگر موجود ہے۔ نمک وفا کے کٹورے میں حِرا نے خود ڈالا تھا ۔ صرف تین لوگوں کے کٹوروں میں نمک ضرور تھا مگر نمک دانی نے لمس صرف دو لوگوں کا محسوس کیا تھا۔ اور تم کیوں بھول گئے مرتضیٰ کہ ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے کہ جس کو جھاڑو چُھو لے اُسکا صرف قد چھوٹا رہ جاتا ہیاور پمارے ہاں اکثر صفائی کرنے والے لمبے ہی ہوتے ہیں۔ تم اسپین جا کر اپنے ساتھ کیا لائے؟ وہاں کے دریاؤں سی سرد مہری؟ وہاں کے پہاڑوں سا غرور؟ تمہیں یورو یاد رہے اسلام بھول گیا۔ لیکن وہ خود اس کے لئے نامحرم تھی اپنے منہ سے نام کیسے لیتی۔ وہ خود بھی تو باعمل مسلمان نہیں تھی۔ اس نے اپنے نام کی لاج تو رکھ لی تھی۔ لیکن اپنے مذہب کی نہیں۔ وہ کس طرح سے مرتضیٰ حیدر کو روکتی۔ کسی کو روکنے کے لئے کوئی وجہ نہیں چاہئے ہوتی۔ رُکنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ محبت کی زنجیریں تبھی اثر کرتی ہیں جب محسوس کیا جائے۔ وہ خاموشی سے اُٹھی اور بستر پر لیٹ گئی۔ وہ سونا چاہتی تھی کیونکہ نیند میں انسان سب بُھلا دیتا ہے۔
Mariyam Jahangir
About the Author: Mariyam Jahangir Read More Articles by Mariyam Jahangir: 6 Articles with 6125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.