یوں تو ہمارے ملک اورعوام
کو بے شمار مسائل گمبھیر کاسامنا ہے لیکن اس وقت ایک مسئلہ سنگین صورتحال
اختیار کر چکا ہے جسے ہم کر پشن ،رشوت اور بد عنوانی جیسے ناموں سے پکا رتے
ہیں۔ رشوت ہمارے قومی جسم کے اندر سرایت کر چکی ہے یہ ایسی بیماری ہے جو
ختم ہونے کے بجائے پھیل رہی ہے۔ اس مہلک بیماری کی روک تھا م کیلئے کئی
ادویات دریافت ہوئیں ،کئی قسم کی چاہ جوئی کی گئی لیکن یہ مرض بڑھتا گیا
جوں جوں دواکی ۔کسی بھی قوم کی تباہی وبربادی کی بڑی وجہ کر پشن ہے۔مفلسی ،ظلم
،ناانصافی ،کرپشن اور جہالت کا تعلق بھی کر پشن سے ہے۔ اگر آپ اپنے معاشرے
کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو وہاں سے کر پشن کی جڑوں کو سرے سے اکھا
ڑنا ہو گا توغربت ختم ہوگی۔ اقرباء پروری نے ہمارے معاشرے میں بڑی ناہمواری
پیدا کر رکھی ہے جیسے لوگ کسی اعلی عہدے پر پہنچتے ہیں وہ اپنے عزیز،رشتہ
داروں کو ان کی اہلیت اورقابلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے مختلف عہدوں پر
فائز کر کے اہل افراد کو محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ جس سے قومی ترقی رک
جاتی ہے اور قومی ترقی کے رکنے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے ملازم سے کام
لیناہو یاملک کے کسی بڑے سے آپ رشوت کے بغیر اس تک نہیں پہنچ سکتے رشوت
جیسے ناسور نے ملک کو برباد کردیاہے۔
حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو شخص عامل مقرر ہوتاتھا اس
کو ایک فرمان عطا ہوتا تھا ،جس میں اس کی تقرری اور اختیارات اورفرائض کا
ذکر ہوتا تھا اس کے ساتھ بہت سے مہاجرین اور انصار کی گواہی ثبت ہوتی تھی
عامل جس مقام پر جاتا تھا ،تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ فرمان پڑھتا تھا جس
کی وجہ سے لوگ اس کے اختیا رات اور فرائض سے واقف ہو جا تے تھے جب وہ ان
اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھتا تھا تو لوگوں کو اس پر گر فت کا موقع ملتا
تھا ۔آپٍٍٍـؓنے ایک خطبہ میں عاملوں کو مخاطب کر کے یہ الفاظ فر مائے'' یاد
رکھو میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا ہے بلکہ
امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ ہماری تقلید کریں آپؓ جب کسی کو سرکاری عہدوں
پر فائز کرتے تھے تو ان کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے
اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپؓ اس
کاسخت احتساب کرتے تھے۔ آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے
کبھی ترکی گھوڑے پر نہ سوار ہونا،چھنا ہوا آٹانہ کھانا۔ آپؓ نے دنیا میں
پہلی بار حکمرانوں ،سرکاری عہدیداروں اور والیوں کیلئے اثاثے ڈکلیئر کرنے
کا تصور دیا ۔آپؓ نے نا انصافی کرنے والوں کو سزادینے کا سلسلہ بھی شروع
کیا اور آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کااحتساب شروع فرمایا۔ آپؓ
فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں ۔
آپ ؓ کا فرمان تھاـــــــقوم کا سردار قوم کاسچا خادم ہوتا ہے آپؓ کی مہر
پر لکھا تھا عمر! نصیحت کیلئے تو موت ہی کافی ہے امیر سے امیر بننے کی
خواہش رشوت ستانی کی اہم وجہ ہے جب تک یہ ختم نہیں ہوگی رشوت کا لین دین
جاری و ساری رہے گا دولت ضرورت ہے مگر ایمان نہیں۔ کرپشن کی دیمک نے ملک
اورمعاشرے کی بنیادوں کو کھو کھلا کر دیا ہے۔ہمارے ملک عزیز کی ترقی و
استحکام میں کر پشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین میں رشوت کا
نام و نشان نہیں ملتا اور یہی چین کی ترقی کا راز ہے۔ چین کر پشن کے معاملے
میں بہت سخت ہے آج سے 20سال پہلے چین نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ
کیااگر کوئی چین میں رشوت لیتا ثابت ہو جائے تو اسے سزائے موت دی جا تی ہے۔
ہمارے ملک میں رشوت ستانی کے عام ہونے کی وجہ آج کے دورکا مسلمان وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اﷲ اور اس کے محبوب پیغمبر محمد
صلی اﷲ وعلیہ وسلم کا خوف اس کے دل سے نکلتاجا رہا ہے۔ اس میں اچھے اور برے
،حلال اور حرام کی تمیز مٹ چکی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر
دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کرنا ہو گا ۔رشوت
ستانی میں ملوث عناصر کی سرکوبی کیلئے سخت سزائیں مقررکرناہوں گی۔ اسلام کی
تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا ۔وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت کیلئے لازم ہے کہ
اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری عہدیداران کو کرپشن کی غلاظت سے دوراورپاک رکھنے
کیلئے احتساب کاخودکار،غیرجانبدار،خودمختاراوربااختیار ادارہ بناناہوگا۔
اسلام کی روسے کوئی احتساب سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ ان دنوں رشوت خوروں
اوربدعنوانوں کیخلاف جاری آپریشن خوش آئند ہے۔سیاستدان ایک دوسرے کااحتساب
نہیں کرسکتے ،نیب کوطاقتوربنایاجائے جوکسی دباؤمیں آئے بغیر بدعنوانوں
کامحاسبہ کرے ۔ |