ضعیف العمر افراد کا عالمی دن: یکم اکتوبر

(International Day of Older Persons)
(1st October)
اقوام متحدہ کی جانب سے یکم اکتوبرضعیف العمر افراد کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ یعنی یہ دن International Day of Older Personsکو عزت واحترام دینے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ضعیف لوگوں کے لیے ’’بزرگ شہریوں‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ 14دسمبر 1990ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 45/106کے ذریعہ یکم اکتوبر کوضعیف العمرافراد کا عالمی دن قرار دیا۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک اس دن ضعیف العمر افراد کا عالمی دن مناتے ہیں۔

معاشرہ کی بہتری ، ملکی ترقی ، دنیا کو بہتری کی جانب لے جانے کے لیے ہر سطح پر مختلف النوع اقدامات کیے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بعد مسائل اور شخصیات کے حوالے سے عالمی سطح پر دن ، ہفتہ ،سال اور دس سال (دیہائی) کا انتخاب کیا ،اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح کے مسائل اور issuesجن میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے تھے کو اجاگر کرنا تھا۔ شخصیات کو ان کی حیثیت اور اہمیت کے اعتبار سے خراج تحسین پیش کرنا تھا۔اقوام متحدہ کے بعض ذیلی ادروں نے اپنے پروگرام کے مطابق بعض مسائل کو اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں کو مقرر کرلیا جیسے عالمی ادارہ صحت WHOنے صحت کا عالمی دن، World No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن، دل کا عالمی دن،ٹی بی کاعالمی دن وغیرہ کے انعقاد کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح یونیسکو نے بھی بعض موضوعات کو اجاگر کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف دنوں کا انتخاب کیا اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسیزاور نمائش کااہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا عالمی دن‘، عالمی لٹریسی ڈے‘، عالمی ماحولیاتی ڈے‘،،مادری زبان کا عالمی دن، کتاب کا عالمی دن وغیرہ شخصیات کے حوالے سے ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن اوراسی طرح یکم اکتوبر کو دنیا بھر کے ضعیف العمر لوگوں کا عالمی دن (International Day of Older Persons)قرار دیا گیا۔اس کا مقصد دنیا بھر میں ضعیف العمر افراد کو مختلف اداروں میں سہولتوں کی فراہمی کی غرض سے علیحدہ کاؤنٹر تشکیل دے کر انہیں سہولیات فراہم کرنا تاتھا۔

معاشرہ کے ایسے افراد جو اپنی عمر کے 60سال پورے کرچکے ہوں انہیں خصو صی توجہ اوران کی مشکلات کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کرنا ۔ ضعیف العمر افراد ہر ملک کا اہم حصہ اور تعداد کے اعتبار سے بھی اہم ہوتا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آئندہ 2030ء تک دنیا میں ایسے افراد کی تعداد 1.4بلین ہو جائے گی۔ چنانچہ اتنی بڑی تعداد جو اپنی عمر کا بہترین حصہ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے پیشے، اپنے اہل و عیال اور خاندان کو دے چکے ہوتے ہیں اس بات کے مستحق ہیں کہ اب وہ معاشرہ جسے فعال بنانے میں وہ اپنا کردار ادا چکے ہوتے ہیں معاشرہ انہیں وہ کچھ واپس کرے جس کے وہ مستحق ہیں۔

اس سال کے لیے جو موضوع منتخب کیا گیا ہے وہ ہے ــ’’“Sustainability and Age Inclusiveness in the Urban Environment”.‘‘۔ اس موضوع پر دنیا بھر کے ممالک میں سیمینار، لیکچر، کانفرنسیزاور دیگر آگاہی کے پروگرام تشکیل دیے جائیں گے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے کہ جہاں یکم اکتوبر کو بزرگ شہریوں کے عالمی دن کے حوالے سے مختلف پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ اخبارات میں اس موضوع پر خاص مضامین شائع ہوتے ہیں، ریڈیو اور ٹی وی بھی اس دن بزرگ شہریوں کے حوالے سے خصوصی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔

مغربی دنیا عمر رسیدہ لوگوں کو old personsکہتی ہے۔ا س کے معنی تو ضعیف العمر لوگ ہی ہیں ۔ اسلامی دنیا انہیں ’بزرگ شہریوں‘کے نام سے پکارتی ہے۔ مغربی ممالک میں ضعیف العمر لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک الگ طریقہ کار ہے۔ وہ ان کی سہولتوں، آسائشوں کے لیے بے شمار طریقے اختیار کرتے ہیں لیکن ’’اولڈ ہاوسیس‘‘ کا تصور مغربی دنیا کے لیے مخصوص ہے ۔ ان اولڈ ہاوسیس میں ضعیف العمر خواتین و حضرات اپنی زندگی گزارتے ہیں۔اسلام نے رشتوں کو احترام دیا، انہیں عزت دی، ان کی وقعت اور بلندی و مرتبے میں اضافہ کیا۔ اسلامی معاشرہ میں گھر کا بزرگ جیسے جیسے عمر کے بلند حصہ پر پہنچتا ہے اس کی عزت واحترام میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اب ہمارے ملک میں بھی ایدھی ہوم اور دیگرلاورثوں کے ادارے مغرب کے اولڈ ہاؤسیز کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ان اداروں میں لاورثوں کے علاوہ ایسے ضعیف العمر افراد بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں ان کی اولاد نے سہارا دینے سے انکار کردیا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے افراد تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ابھی صورت حال بہت بہتر اور بزرگوں کی عزت و احترام پایا جاتا ہے۔

ماں باپ ہمارے بزرگ ہیں،ہمارے ماں باپ ہی نہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کے ماں باپ بھی بزرگ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے تو نبی ﷺ نے کسی دوسرے کے ماں باپ کو برا بھلا کہنے کو بھی منع فرمایا۔ ماں باپ ہماری دوزخ بھی ہیں اور ہماری جنت بھی ہیں۔ وہ اس طرح کہ اگر ہم اپنے ماں یا باپ کی خدمت کریں گے ، ان کا خیال رکھیں گے، ان کی راحت رسانی کا ذریعہ بنیں گے تو ہم جنت کے حق دار ہوسکتے ہیں اگر ہمارا عمل اس کے برعکس ہوگا یعنی ماں باپ کی نافرمانی کریں گے اور انہیں ایذا رسانی کاباعث ہوں گے تو ہمارے مقدر میں دوزخ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے ۔ بعض لوگ دنیاوی معاملات، اپنی مصروفیات یعنی شوہر اور بیوی دونوں ملازم،اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خاطر اور دیگر کئی وجوہات کے باعث اپنی ماں یا باپ کا حق اس طور ادا نہیں کرتے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ انہیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔آپ اپنی اولاد کو بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں اس مقصد کے حصول کے لیے آپ اپنے بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر بیرون ملک ڈالر، ریال یا دینار کی چمک میں کھو جاتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کے ماں باپ بھی آپ کا بہتر مستقبل ہی چاہتے تھے۔ بہتر مستقبل کی سوچ آپ کے اندر آپ کے والدین سے ہی آئی ۔اپنے بچوں کو بہتر مستقبل ضرور دیں لیکن اپنے والدین کی قیمت پر نہیں۔ انہیں ان کا بھی حق دیں۔ ان کا اتنا ہی خیال رکھیں جتنا آپ اپنی اولاد کا رکھتے ہیں۔ ’’معارِف الحدیث‘‘ کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے صحیح مسلم کی حدیث نقل کی ہے ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: آدمی ذلیل ہو‘ وہ خوارہو‘ وہ رسواہو۔ عرض کیاگیا ‘ یا رسول اﷲ ﷺ کون؟ (یعنی کس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے)( آپﷺ نے ارشاد فرمایاـ وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں کسی ایک ہی کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کرکے) جنت حاصل نہ کرے‘‘۔ ماں اور باپ میں ماں کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جس کے پیروں تلے جنت رکھ دی گئی ہو اس بزرگ کا مرتبہ سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ایک اور حدیث سے ماں باپ کے علاوہ دیگر قریبی رشتہ داروں اور پھر ان کے قریبی رشتہ داروں جو بزرگی کے مرتبے پر فائز ہیں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ ضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ماں ‘ پھر میں کہتاہوں تمہاری ماں، تمہاری ماں‘ اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے ‘ اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں ‘ پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں‘‘۔ اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں میں ہمارے والدین کے علاوہ ان کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر محمد عبد الحی نے اپنی کتاب ’’اُسوۂ رسُول اکرَم‘‘ میں لکھا ہے کہ والد کے دوست جو یقینا بزرگی کی مرتبے پر ہی ہوتے ہیں کا خیال رکھنے کے بارے میں الادب المفرد کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی کہ ’’رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے باپ کے دوست کا خیال رکھو، اس سے قطع تعلق نہ کرو (ایسا نہ ہو کہ اس کی دوستی قطع کرنے کی وجہ سے ) اﷲ تعالیٰ تمہارا نور بجھا دے‘‘۔ رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث صحیح بخاری و سیرۃ النبی ؑ میں یہ بنان کی گئی ہے ارشاد فرمایا: آپؑ نے کہ ’’سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے ، عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ کوئی اپنے ماں باپ پر کیوں کر لعنت بھیج سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا ، اس طرح کہ جب کوئی کسی کے ماں باپ کو برا بھلا کہے گا تو وہ بھی ا س کے ماں باپ دونوں کوبُرا بھَلا کہے گا‘‘۔

بوڑے شخص کی تعظیم کے حوالے سے ترمذی و مشکواۃ کی حدیث ہے جس کے راوی حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس جوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کے سبب تعظیم و تکریم کی اﷲ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے لیے ایسے شخص مقرر کرے گا جو اس کی تعظیم و تکیرم کرے گا‘‘۔

پاکستان میں بزرگ شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے زبانی دعوے بہت کیے جاتے ہیں لیکن عمل صفر نظر آتا ہے۔ بزرگ شہریوں کو قانونی طور پر سہولیات کی فراہمی کے لیے بیشتر ممالک میں قانون موجود ہے لیکن پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں زبانی جمع خرچ زیادہ، عمل نا ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ تاہم خیبر پختونخواہ حکومت نے بزرگ شہریوں کو قانونی طور پر سہولیات کی فراہمی کے لیے قانونی تحفظ فراہم کرنے میں پہل کی ہے ۔ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی نے 19نومبر2014ء کو ’ خیبر پختونخواہ سینئر سٹیزن ایکٹ2014‘ منطور کیا۔ یہ بل The Khyber Pakhtun Khwa Senior Act 2014کہلاتا ہے ، یہ Khyber Pakhtunkhwa Act XIV of 2014 ہے۔ یہ ایکٹ خیبر پختونخواہ حکومت کے گزیٹ (Govt. Gazette) میں 2دسمبر 2014ء کو شائع ہوا۔ دیگر صوبے اور مرکزی حکومت کی جانب اس موضوع پر کسی بھی قسم کی قانونی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں قائم Senior Citizens Foundation Pakistan (SCFP)اس حوالے سے سرگرم عمل ہے۔ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک خبر نامہ بھی شائع ہوتا ہے جس میں فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ سینئر شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس حوالے سے حسب ذیل شفارشات پیش کی جارہی ہیں۔
۱۔بزرگوں (ضعیف العمر) افراد کو مختلف شعبوں میں سہولیات کی فراہمی کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کی پیروی کرتے ہوئے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔
۲۔ بزرگ شہریوں کو دیگر لوگوں کے ساتھ لائن میں لگانے کے بجائے ان کے لیے علیحدہ سے کاؤنٹر کا انتظام کیا جائے۔ جہاں پر محض بورڈ آویزاں نہ ہوں جیسے کراچی ائر پورٹ پر پاسپورٹ پر اسٹیپنگ کے لیے بورڈ تو آویزاں ہیں کہ ’بزرگ شہریوں کے لیے‘ لیکن وہ کاؤنٹر دیگر لوگوں سے کھچا کھچ بھرے نظر آتے ہیں جب کہ اے ایس ایف کے اہل کار بڑی تعداد میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
۳۔ ہوائی جہاز، ریل اور عام بسوں میں سفر کی صورت میں بزرگ شہریوں سے آدھا کرایا وصول کیا جائے۔
۴۔ پولس اہل کاروں کو ہدایت ہو کہ وہ جب کسی بزرگ شہری کو سٹرک عبور کرتے دیکھیں تو وہ ان کی رہنمائی کریں۔
۵۔ بنکوں، ڈاک خانوں، وصولیابی کے کاؤنٹر پر بزرگ شہریوں کی علیحدہ سے لائن کا اہتمام کیا جائے۔
۶۔ پینشن کی وصولی کے طریقہ کار کو آسان سے آسان تر بنا یا جائے۔ پیشن کے لیے طویل فارم کی جگہ مختصر فارم تشکیل دیا جائے۔
۷۔ پیشن کی ادائیگی صرف نیشنل بنک آف پاکستان تک ہی محدود نہ ہو بلکہ تمام کمرشل بنکوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ بھی پینشن کی ادئیگی کرسکیں۔
۸۔ نیشنل سیونگ کی اسکیموں میں بزرگ شہریوں کے لیے جاری کردہ بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ اور پینشن اکاؤنٹ کا شرح منافع آج سے چار سال قبل کی سطح پر تھا وہی کیا جائے۔ سالانہ بجٹ میں ان سکیموں پر شرح منافع کم نہ کیا جائے۔
۹۔ نیشنل سیونگ سینٹرز میں ریکارڈ کو کمپیوٹرائز تو کردیا گیا ہے اس کے باوجود طریقہ کار طویل ہے جس کے باعث سینٹرز میں لمبی لمبی لائینیں لگ جاتی ہیں۔ نیشنل بنک کی طرز پر سیونگ سینٹرز کا منافع برائے راست سرٹیفیکیٹ ہولڈر کے بنک اکاؤنٹ میں چلا جائے۔
۱۰۔ بعض ضعیف العمر افراد اپنی یادداشت اور ضعیفی کے باعث پینشن بک یا سیونگ سرٹیفیکیٹ کھودیتے ہیں ۔ ڈپلیکیٹ دستاویزات کی فراہمی کا طریقہ کار آسان بنا یا جائے اور اس کی فراہمی جلد از جلد ممکن بنائی جائے۔
۱۱۔ بعض ضعیف العمر افراد اپنے ہاتھوں میں راشے کے باعث چیک پر دستخط مشکل سے کر پاتے ہیں، اکثر بنک کے اہل کار اور سیونگ سینٹر کے اہل کار انہیں پریشانی میں ڈال دیتے ہیں۔ اس مشکل کا کوئی حل نکالا جائے۔
۱۲۔ اولڈ ایج بینیفٹ کا دائرہ تمام سینئر سٹیزن تک وسیع کیا جائے۔ اس وقت مخصوص افراد ہی اس سے مستفیض ہورہے ہیں۔
۱۳۔ نیشنل سیونگ ، پینشن یا اولڈ ایج بینیفٹ کے ذریعہ ضعیف العمر افراد کو انشورنس کی سہولت فراہم کی جائے۔
۱۴۔ضعیف العمر افراد کے لیے ہر یونین کونسل، یونین کمیٹی کی سطح پر ریڈنگ روم اور لائبریری تشکیل دی جائے ۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436950 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More