سنت ابراہیمی کے ،سماجی اور معاشی اثرات
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
جنید سلیم ملک کے ایک معروف
صحافی اور چینل کے مشہور پروگرام کے میزبان بھی ہیں وہ 27ستمبر کے اپنے
پروگرام میں بتارہے تھے کہ اس سال پورے ملک میں سنت ابراہیمی کے حوالے سے
قربانی کی مد میں 2کھرب اور تقریباَ22ارب روپئے خرچ ہوئے ہیں ۔اس میں تمام
اقسام کے اخراجات شامل ہیں جانوروں کی خریداری ،مویشی منڈی کے کرائے ،ٹرانسپورٹ
کے کرائے ،قصابوں کی اجرتیں اور دیگر چھوٹے اور نادیدہ اخراجات شامل ہیں ۔اخبارات
میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق صرف کراچی میں 30ارب روپئے کے قربانی
کے مویشی فروخت ہوئے ہیں پورے ملک میں صرف قربانی کے جانوروں کی خریداری
میں ایک کھرب سے زائد خرچ ہوئے ہیں ۔
اسی پروگرام میں میزبان یہ بھی بتارہے تھے کہ 15لاکھ افراد اس روزگار سے
براہ راست اس طرح وابستہ ہیں کہ وہ سال بھر قربانی کے مویشی پالتے ہیں اور
عید الضحی کے موقع پر فروخت کرتے ہیں ۔اسی طرح قربانی کے جانوروں کے لانے
لے جانے میں جو رقوم خرچ ہوتی ہیں ان کا ندازہ تقریباَ 15ارب روپئے لگایا
گیا ہے ،ڈیڑھ ارب روپئے کے چارے فروخت ہوئے ہیں اسی طرح تقریباَ 50ارب سے
زائد کی کھالیں فروخت ہوتی ہیں دیگر چھوٹے موٹے اخراجات الگ ہیں جس میں
مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی مزدوری اورجانوروں کو سجانے کے
لوازمات،اس ایک سنت ابراہیمی کی ادئیگی کے حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہو گا
کہ بلواسطہ طور پر لاکھوں افراد کا روزگار اس سے لگ جاتا ہے ۔اس ہی سے جڑی
ہوئی کچھ دوسری اشیاء بھی ہیں جن کی فروخت بہت بڑھ جاتی ہے ڈیپ فریزر اور
فریج کی فروخت کا تناسب کچھ اس طرح ہے کہ اگرایک دکان میں سال میں 100 فریج
اور ڈیپ فریزر فروخت ہوتے ہیں تو اس میں سے70بقرعید کے ایام میں خریدے جاتے
ہیں ۔
یہ بھی رپورٹ ہے کہ سابقہ برسوں کی بہ نسبت اس سال بہت زیادہ قربانی ہوئی
ہے ۔اس کی ایک مثال تو خود میرے محلے کی ہے کہ میں جس گلی میں رہتا ہوں
وہاں عموماَہر سال پچیس سے تیس گائے کی قربانی ہوتی تھی اس سال یہ تعداد
بڑھ کر 50ہو گئی ۔صرف کراچی میں 8لاکھ سے زائد جانور قربان کیے گئے اخبارات
میں صرف سپر ہائی سے مویشی منڈی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ 3لاکھ40ہزار گائے
ایک لاکھ 40ہزار بکرے اور ساڑھ تین ہزار اونٹ فروخت ہوئے ۔اسلام کے معاشی
اصولوں کا ہم جائزہ لیں تو ہمیں یہ نظر آئے گا کہ اسلام تقسیم دولت اور
گردش دولت پہ زیادہ زور دیتا ہے اسی لیے اسلام میں دولت کو گن گن کر جمع
کرنے کی ممانعت کی گئی ہے وہ خرچ پر زیادہ زور دیتا ہے یعنی یہ کہ آپ کو
اپنے کاروبار میں فائدہ ہورہا ہے تو اس سے مزید اپنے کاروبار کو وسعت دیں
اس سے بیروزگاری کم ہوگی پھر بھی سال میں کچھ رقم بچ جاتی ہے تو اس پر زکوۃ
فرض کی گئی ہے ،تاکہ دولت معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچ جائے اسی طرح
صدقات پر بھی زور دیا گیاہے مختلف احادیث میں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے یہ
بھی تقسیم دولت کی ایک شکل ہے اسی طرح تقسیم دولت کا یک اہم ذریعہ وراثت کی
تقسیم بھی ہے ۔اگر ہم عید قربان میں ہونے والی معاشی سرگرمیوں کا جائزہ لیں
تو معلوم ہوگا کہ ایک بہت بڑی دولت لوگوں کی جیبوں سے نکل کر گردش میں آتی
ہے اور اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار لگ جاتاہے یا بڑھ جاتا ہے ۔نبی اکرم ﷺ
نے سنت ابراہیمی کی بیشتر چیزوں میں جن چیزوں کو برقرار رکھا ہے اس میں یہ
عید قربان کی سنت ہے ۔اس سنت کی ادائیگی سے جہاں ہم اطاعت رسول ﷺ کا مظاہرہ
کرتے ہیں وہیں دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سنت ملک کی معشیت پر مثبت
اثرات مرتب کرتی ہے جو ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہوئی نظر
آتی ہے ۔
ویسے تو ہر سال بقرعید میں فریج اور ڈیپ فریزر عام دنوں سے زیادہ فروخت
ہوتے ہیں لیکن اس سال یہ شرح پچھلے تمام برسوں سے زیادہ ہے اسی طرح جانوروں
کی فروخت میں اضافے کی شرح پچھلے برسوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے فریج اور
جانوروں یعنی دونوں میں اضافے کی بیشتر وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ کہ کچھ
عرصے پہلے ایک پروگرام میں ایک خاتون یہ بتارہی تھیں کہ جب سے یہ خبریں آنا
شروع ہوئی ہیں گدھوں کے اور کتوں کے گوشت بیچے جارہے ہیں میں ویجیٹیرین
vegetarianسبزی خور ہو گئی ہوں اور اب تو میں گوشت بقرعید میں اسی جانور کا
کھاؤں گی جو ہمارے سامنے ذبح ہوگا ۔ہوسکتا ہے یہی سوچ معاشرے میں پروان
چڑھی ہو کہ پچھلے کئی ماہ سے تسلسل سے مختلف چینلز پر ایسے پروگرام دکھائے
جارہے ہیں جس میں گدھوں کا گوشت کتوں کا گوشت مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہوئے
دکھایا گیا ہے ۔یہ تو ایک الگ موضوع ہے ہمارے مضمون کا عنوان سنت ابراہیمی
کے،سماجی اور معاشی اثرات ،ہے معاشی حوالے سے بات ہو چکی ہے ۔
عید قربان کے سماجی اثرات پر بات اگر کی جائے گی تو اس میں سب سے اہم بات
یہ ہے کہ جس طرح ماہ رمضان میں ہر غریب سے غریب آدمی افطاری کی شکل میں وہ
چیزیں کھاپی لیتا ہے جو عام دنوں میں اسے نصیب نہیں ہو پاتی ۔اسی طرح عید
قرباں میں ہر اس فرد کو دل بھر کر گوشت کھانے کو مل جاتا ہے جتنا وہ عام
دنوں میں نہیں استعمال کر پاتا ۔لیکن اس کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا
جاسکتا ہے کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا احسن طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس
کے تین حصے کیے جائیں ایک حصہ رشتے داروں اور پڑوسیوں میں تقسیم کیا جائے
ایک حصہ غرباء و مساکین اور مستحقین میں دیا جائے اور ایک حصہ خود اپنے
استعمال میں لایا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی قربانی کا تمام گوشت اپنے
استعمال کے لیے رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تمام کی تمام وہ رشتے داروں
میں تقسیم کردے تو کوئی حرج نہیں اور اگر وہ سارا گوشت مستحقین میں بانٹ دے
تو یہ اس کی مرضی ہے ۔ہمارے یہاں ایک صاحب ہر سال چار بھاری بیلوں کی
قربانی کرتے ہیں پندرہ بیس من گوشت وہ محلے میں رشتے داروں میں اور مستحقین
میں تقسیم کر دیتے ہیں اور اپنے لیے کچھ نہیں رکھتے بس دو تین روز اپنی
قربانی کا گوشت تھوڑا بہت کھا لیتے ہیں بعد کے لیے کچھ فریج نہیں کرتے ،جب
دکانیں کھلیں گی تو اسی طرح روٹین کے مطابق مارکیٹ سے گوشت خرید کر استعمال
کریں گے گوشت کی تقسیم میں عموماَ اس بات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے کہ جن
گھروں میں قربانی نہیں ہوئی ہے ان کو ترجیح دی جائے اس طرح آپس کی محبت
پروان چڑھتی ہے ۔
اس سنت ابراہیمی کے سماجی پہلو میں وہ تمام مدرسے اور خدمتی ادارے بھی
آجاتے ہیں جو ان اداروں کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ہر مدرسے میں قربانی
کھالیں جمع کی جاتی ہیں جہاں بچوں کو قران پڑھایا اور حفظ کرایا جاتا ہے
اسی طرح سماجی خدمات کے ادارے بھی کھالیں وصول کرتے ہیں جیسے الخدمت
ویلفیئر سوسائٹی ،ایدھی ٹرسٹ ،سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ ،چھیپا ٹرسٹ ان کی
معاشرے میں جو خدمات ہیں اسے کراچی کے شہری دن رات اپنی آنکھوں سے دیکھتے
ہیں ان اداروں کے بارے میں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے کارکن پبلک
سے زبر دستی کھالیں وصول کرتے ہیں اور نہ کوئی یہ الزام لگاتا ہے کہ یہ
لوگوں سے کھالیں وصول کرکے اپنے کارکنان کے لیے ہتھیار خریدتے ہیں ۔الخدمت
کے پانچ بڑے ہسپتال ،کئی میڈیکل سنٹرز ،سے روزآنہ ہزاروں لوگ استفادہ کرتے
ہیں ۔عید قربان کے سماجی اثرات کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے یہ خود ایک الگ
موضوع ہے جس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
|
|