قربانی کا فلسفہ
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
ہمیشہ کی طرح اس سال بھی
دنیا کے کونے کونے میں فرزندان اسلام نے دس ذوالحج کو سْنتِ ابراہیمی کی
یاد تازہ کرتے ہوئے عیدالاضحی کا دن بڑے تزک و احتشام سے منایا۔ فرزندِ
توحید نے اس روز اربوں جانوروں کواﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کیا، ان کا
گوشت خود کھایا ،عزیزوں ،رشتہ داروں ، ہمسایوں اور مستحق افراد میں تقسیم
کیا۔اس بات سے تو ہم باخوبی واقف ہیں کہ رب رحمن کے ہاں ہماری دی ہوئی
قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ قربانی کے جانوروں کی خریداری کی قیمت اور
دیگر اخراجات پہنچتے ہیں۔ اﷲ کے حضور تو قربانی کرنے والے کے خلوصِ نیت کا
حساب ہوگا۔ قربانی کا فلسفہ ہی ایثار اور دوسروں کیلئے خود کو وقف کر دینا
ہے۔ افسوس کہ اس فلسفہ سے ہم بطور معاشرہ تہی دامن نظر آتے ہیں۔ بطور
معاشرہ اخوت و بھائی چارے کے شدید فقدان سے دوچار ہیں۔ ہر طرف ایک افراتفری
اور انارکی کی کیفیت ہے۔ ہم جمہوریت کو بہترین سسٹم گردانتے ہیں۔ اس حوالے
سے ہم جن کی نقالی کرتے ہیں ان کی دیگر اقدار کو فالو نہیں کرتے۔ وہاں
جمہوریت کے نام پر انسانی رائے کا اس طرح قتل نہیں ہوتا جس طرح ہمارے ہاں
انتخابات کے نام پر ہوتا ہے۔جیسا کہ آج کل پنجاب بلدیاتی الیکشن کاشور ہے ۔شور
چاروں طرف سے سنوائی دے رہا ہے۔اُمیدوار بھرپورتیاری کرنے کے ساتھ کسی حد
تک مایوسی کا شکار بھی نظرآتے ہیں کہ ماضی کی طرح ایک بارپھر الیکشن کی
تاریخ میں توسیع ہونے کے امکانات بھی روشن ہیں۔جیساکہ ہم جانتے ہیں جمہوری
حکمتوں نے بلدیاتی الیکشن کروانے سے ہمیشہ فرارحاصل کیا ہے۔ شائد یہ
پہلاموقع ہوجب جمہوری دورمیں بلدیاتی ادارے قائم ہوکراپنے فرائض سرانجام
دیں۔ جمہوری حکمران بھی اپنے اندرجذبہ قربانی زندہ رکھتے توکبھی بھی
بلدیاتی سے فرار حاصل کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ عید الاضحی صرف جانوروں کو
قربان کرنے کا نام نہیں بلکہ انسانیت کی جانب سے بندگی اوراﷲ کی راہ میں
قربانی کی لازوال مثال ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے حکم پراپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا
ہر مرد مجاہد اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے پرحضرت ابراہیمؐ جیسی کوئی
مثال کسی زمانے میں نہیں ملتی یہ تابندہ مثال ہے جو رہتی دْنیا تک صاحب
ایمان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ جذبہ قربانی قائم رکھتے ہوئے انسان
کامیابی کی منزلیں طے کرتاہے۔ جب ہم نے ان اصولوں سے ردگردانی کی،اﷲ تعالیٰ
کی حاکمیت کے تصورکو اپنے دلوں میں کمزور کیااور ملک و ملت کے بجائے اپنی
ذات کو اولیت دی تو ہماری رسوائی کا دور شروع ہوا۔ آج بھی ہم قربانی کے
اصولوں کو اپنالیں تو ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کر سکتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے جب امت محمدیﷺ کے نام لیواؤں نے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے
تھاما تو کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔لگاتار بے عملی کی سزا یہ ملی کہ
بارگاہ الٰہی سے دعائیں بھی رد کر دی گئیں۔ مسلمانوں کو معاشی مشکلات نے
اپنے شکنجے میں جکڑلیا۔ جب برصغیر کے مسلمانوں نے مل کر جذبہ قربانی و
ایثارکا اظہار کیاتووطن عزیزکی صورت اﷲ تعالیٰ نے احسان عظیم سے
نوازا۔پاکستان کا قیام بھی ہمیں لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ بھی
سچ ہے کہ کسی حد تک ہم ان قربانیوں کو بھلا کر ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے لے لی ہے۔ جو کڑی
شرائط پر کمزور ممالک کو اپنے جال میں جکڑ رہے ہیں۔ عیش پرستی میں مبتلا
اقتدار پرست حکمران صرف اپنے دام کھرے کر رہے ہیں۔ عوام کی تکالیف سے ان
کادور کا واسطہ نہیں۔ مشکلات کبھی ایک دن میں عروج حاصل نہیں کرتیں۔ قدرت
کی طرف سے پہلے ہی اشارے ملنا شروع ہو جاتے ہیں پھر بھی ہم نہ سنبھلیں تو
عذاب مقدر بن جاتا ہے۔ زلزلے اور سیلاب ہمارے لئے قدرت کی طرف سے تنبیہہ
ہیں پر ہم نہیں سنبھل رہے۔ اقتدار کی مسند کا طواف کرنے والے اشرافیہ تو ہر
بحران اور آفت سے بھی اپنے دام کھرے کرنے کے ماہر ہوچکے ہیں۔ آج کہیں سیلاب
کی تباہ کاریاں ہیں تو کہیں دہشتگردی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ کہیں ڈینگی نے
اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔ کسی نے بالکل سچ کہا ہے عذاب آتا ہے تو گناہ گار
بے گناہ سب رگڑے جاتے ہیں۔۔ ہمیں اﷲ سے توبہ کرنی چاہیے۔ اس کے احکامات کو
سمجھنا چاہیے۔ عید قربان محض جانور کی قربانی کا نام نہیں۔ اس قربانی میں
اﷲ کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا
سب کچھ قربان کر دینا ہی قربانی کہلاتاہے۔ ہمیں اس فلسفے کو اپنانے کی
ضرورت ہے۔تب ہی ہم اﷲ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔
|
|