جہاد کریں!!!

جی ہاں مسلمانوں کے خلاف ہورہی سازشوں اور اسلام کو بدنام کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی یہ لوگ انکا کچھ بگاڑ سکیں گے کیونکہ ہم مسلمانوں میں اب ایسی ہمت ہی کہاں ہے کہ ہم اینٹ کا جواب پتھرسے دے سکیں ۔حالانکہ ہماری تاریخ میں محمد بن قاسم ، سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان ٹیپوجیسے اصلی ہیرو گزرے ہیں اور ان ہیروؤں نے جوتاریخ رقم کی ہے اسکی مثال موجودہ دورمیں مل ہی نہیں سکتی ۔ محمد بن قاسم نے سندھ میں مسلمانوں کو بچانے کے لئے 60؍ ہزار فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے 6؍ ہزار فوجیوں کے ساتھ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے پہنچے تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے صیہونی طاقتوں سے بیت المقدس کو آزاد کروایا وہیں حضرت ٹیپوسلطان شہید ؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نہ صرف ہندوستان کو غلامی سے بچانے کی کوشش کی تھی بلکہ اپنی بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔ لیکن اب ہمارے پاس ایسے ہیرو کہاں؟۔ اب ہماری قوم کو دہشت گردوں کی قوم کہا جاتاہے تب بھی ہم خاموش ہیں ، نامردوں و ہجڑوں کی قوم کہا جاتا ہے تب بھی خاموش ہیں، ہماری بچیوں کو ہندو شدت پسند بھگا لے جارہے ہیں اس وقت بھی خاموش ہیں ۔ ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا ہے اس وقت بھی ہم خاموش ہیں ۔ ہمارے مسجدوں کا تقدس پامال کیا جارہاہے اس وقت بھی ہم خاموش ہیں ۔ ہمارے مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے بتائے جارہے ہیں اس وقت بھی ہم خاموش ہیں ۔مسلمانوں کی داڑھیاں سر عام نوچے جارہے ہیں اسوقت بھی ہم خاموش ہیں ۔ ہم سے تو وہ جانور اچھے ہیں جو اپنی برادری پر ہونے والے حملوں کا جواب دینے کے اکھٹے ہوجاتے ہیں یا کم از کم جوابی حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آج سوشیل میڈیا پر مسلسل مسلمانوں کی تنقید کی جارہی ہے لیکن اسکا جواب دینے کی ہم میں سکت نہیں ہے نہ ہم قانون کا سہارا لے رہے ہیں نہ ہی میڈیا کا سہارا ۔ بس میڈیا میں جو کچھ دکھایا جاتاہے اس پر چہ میگوئیاں کی جاتی ہیں۔ اس پر تبصرے کئے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ واٹس اپ اور فیس بک گروپ پر ان شر پسندیوں کی تنقید کی جاتی ہے ۔ آخر کیوں ہم مسلمان اتنے کمزور ہوگئے ہیں کیا ہمارے پاس ظلم کا جواب دینے کی بھی طاقت نہیں ہے، مسلمان پلٹ وار نہ سہی اپنے دفاع کے لئے آواز تو اٹھاسکتے ہیں۔ اگر وہ گالی دے رہے ہیں تو ہم پلٹ کر گالی نہ سہی اسے اچھی بات تو بتا سکتے ہیں۔ فیس بک،واٹس اپ پر جو اشتعال انگیزی ہورہی ہے اسکے خلاف عدالتوں کا سہارا تو لیا جاسکتاہے ۔ گنیش وسرجن اور ہندو ریالیوں کے دوران جو اشتعال انگیز اور شر انگیز نعرے بلند کئے جاتے ہیں اسکے خلاف تھانوں میں شکایت تو درج کروائی جاسکتی ہے۔جو ہندتواوادی اسٹیجوں اور میڈیا میں مسلمانوں و اسلام کے خلاف زہر پھیلارہے ہیں ان پر پابندی تو عائد کروائی جاسکتی ہے ۔ یہ کام ہمارے لیڈران نہیں کرینگے بلکہ ہم اور آپ کو کرنا ہے کیونکہ سیاسی لیڈران تو اپنے جسم پر بھنڈی کا رس لگائے ہوئے رہتے ہیں اور وہ جدھر چکنا ہوتا ہے ادھر جھک جاتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ انکی سیاست پر ان مخالفتوں کا اثر پڑے ۔ اسلئے آج ایک عام مسلمان ہی ایسے کام کرسکتا ہے بھلے اسکا اسمیں کوئی فائدہ نہ ہو لیکن جب کبھی کوئی اپنے باپ کو گالی دیتا ہے تو کیا وہ خاموش ہوجاتاہے ، اسی طرح سے جب کوئی اپنی ماں کے دامن کو داغدار کرے تو خاموش بیٹھ جاتا ہے؟۔ اسی طرح سے اسلام ہمارا مذہب ہے اور ہر مسلمان ہمارا بھائی ہے ۔ جب کوئی اس پر انگلی اٹھائے تو اس انگلی کو کاٹنا ہی آج کا جہا د ہے اور یہ جہاد عدالتوں میں رہ کرکیا جاسکتا ہے۔
 
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 176015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.