سال2003ء میں ایرانی فوج کے ایک
ہوائی جہاز کے حادثے میں 276 فوجی اور عملے کے ارکان ہلاک ہوگئے تھے جبکہ
جولائی سال 2009ء میں شمالی ایران میں ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ایک سو
ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ جنوری2011ء میں ایران کے مسافر
بردار ہوائی جہاز کے حادثے میں کم ازکم 70افراد ہلاک ہوئے۔2008ء میں ایران
کو جب یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اسرائیل ایرانی تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے تو
ایرانی جنگی طیارے عام پروازوں کو نشانہ بنادیا کرتے تھے اس ڈر کے ساتھ کہ
اسرائیل عام طیاروں کے بھیس میں ان پر حملہ کرسکتا ہے۔اب فضائی حادثات کی
عالمی خبروں کے بجائے اجمالی طور پر صرف بھارت کا ذکر کرتے ہیں کہ بھارت
میں روزانہ اوسطاََ 1235 ٹریفک حاثات ہوتے ہیں جس میں روزانہ کے حساب سے
388افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال2014ء میں
4,50,898سڑک حادثات میں 1.41لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے اور4,77.731افراد
زخمی ہوئے ۔ اب فضا و زمین کے بعد زیر زمیں حادثات کی مثال بیان کرتا ہوں ،
تاریخ کا بدترین زلزلہ چین میں 23جنوری1556ء کو آیا تھا جس میں 8لاکھ
30ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 12جنوری 2010ہیٹی میں کم ازکم03 لاکھ افراد ہلاک
اور3 لاکھ زخمی ہوئے۔انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا پر آنے والے زلزلے میں2لاکھ
27ہزار 898افراد ہلاک جبکہ17لاکھ بے گھر ہوئے۔اس کے علاوہ بھی زلزلوں میں
ہلاک ہونے والوں کی لاتعداد تفصیلات ہیں۔سیلاب کے نتیجے میں ہلاک اور بے
گھر ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔یہ سب قدرتی
حادثات ہیں جس میں انسان چاہیے کتنی بھی کوشش کرلے لیکن قدرت کے متعین کردہ
اصولوں و قوانین سے بالاتر کوئی بھی نہیں ہوسکتا اور ان حادثات کا ذمہ دار
کسی کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔اب انسانوں کے ہاتھوں انسانوں اور انسانیت کی
تباہی کی مختصراََ روداد بھی پڑھ لیجئے ۔ جنگ عظیم اول کا آغاز آسٹریا کے
شہزادے فرڈی ننڈ کے ہلاک کئے جانے کے بعد ہو اور اس جنگ کے دوران ایک کروڑ
فوجی ہلاک جبکہ دو کروڑ دس لاکھ افراد زخمی اور معذور ہوئے۔دوسری جنگ میں
61ممالک نے جنگ میں حصہ لیا ، چالیس ممالک کی سرزمین متاثر ہوئی اور پانچ
کروڑ کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے، سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا جس میں دو
کروڑ روسی مارے گئے۔ اسی جنگ میں ایٹم بم کا استعمال بھی ہوا۔ایران عراق کی
جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور مالی نقصانات کا تخمینہ اربوں
ڈالرہے۔ایوسی ایٹڈ پریس کی تحقیق کے مطابق عراقی جنگ میں 2005ء سے اب تک نو
لاکھ سے زائد افراد عراقی شہری تشدد ، بم پھٹنے ، فائرنگ اور بمباری سے
ہلاک ہوچکے ہیں۔ 2003ء میں عراقی جنگ شروع ہونے کے بعد ایک لاکھ دو ہزار چھ
سو عراقی ہلاک ہوئے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی ایک
رپورٹ کے مطابق شام میں تشدد کے واقعات میں دو لاکھ ، چالیس ہزار تین سو
اکیاسی شامی باشندے جن میں بارہ ہزار بچے بھی شامل ہیں اپنی جان سے ہاتھ
دھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان ، افغانستان میں دہشتگردی کے ہاتھوں 2001ء سے گذشتہ
سال تک ایک لاکھ 49ہزار افراد ہلاک اور ایک لاکھ 62ہزار زخمی ہوئے۔پاکستان
میں دہشت گردی سے پچاس ہزار سے زاید شہید ہوئے جوہری جنگ کی روک تھام کی
خاطر انجمن کے مطابق امریکہ کی فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں عراق،
افغانستان اور پاکستان میں کل 13لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، عراق میں
ہلاک زدگان کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے ۔
تھوڑی توجہ عراق کے انصرام و انتظام کی بھی لے لی جائے جہاں ایرانی مداخلت
اور عراق کے وزیرا عظم نور المالکی کی وجہ سے فرقہ وارانہ پُرتشدد واقعات
میں اضافہ ہوا اور مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔شام میں بشا ر
الاسد کی ظالمانہ جابر حکومت کی نتیجہ میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کے نا
قابل بیان واقعات اور معصوم لوگوں پر کیمیاؤئی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال
کیا گیا۔یمن میں حوثی قبائل کے ساتھ ملکر جابرانہ قبضہ کیا اور فرقہ واریت
کو انتہا پر پہنچایا ۔آج عراق ، شام ،یمن، الجزائر میں فرقوں کے نام پر جس
طرح معصوم لوگوں کو ہلاک کیا جارہا ہے اس نے تو داعش کے مظالم کو بھی شرما
دیا ہے۔ اس عالم میں جبکہ اسلامی ممالک میں فرقہ واریت کے نام اور حکومتوں
پر فرقوں کے نام پر قبضے کی جنگ جاری ہے ۔ اسلام دشمن عناصر کی ہاتھوں
پروریش پانے والی داعش کی جانب سے اسلامی شعائر کی پامالی شدت کے ساتھ جاری
ہے اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ان فرقہ وارنہ پالیسوں کے سبب اور
مخصوص عناصر کی آشیر باد کے سبب لاکھوں شامی باشندے اپنا ملک چھوڑ کر جانے
پر مجبور ہوئے اور اسمگلروں کے ہاتھوں چڑھ کر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے۔مغربی ممالک نے اسلام فوبیا کے باوجود مسلمانوں کو پناہ دے رہے ہیں
جبکہ مسلمانوں کی پناہ کے حوالے سے بھی پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسلامی ممالک
ان شامی مسلمانوں کو پناہ کیوں نہیں دیتے ، گوکہ سعودی عرب سمیت متعدد
اسلامی ممالک نے پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد کو پناہ دے رکھی ہے حالاں کہ
پاکستان جیسے غریب ممالک ان کے پناہ کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے ہیں اس کے
باوجود عالمی قوانین اور انسانی ہمدردی کے تحت لاکھوں انسانوں کو چھوٹے
ممالک نے پناہ دے رکھی ہے۔ حالاں کہ ان پر جنگ مسلط کرنے والے اولاََ مغربی
ممالک ہی ہیں جس نے کبھی کیمیاؤی ہتھیاروں کی آڑ لی تو کبھی اسامہ کا بہانہ
بنایا تو کبھی کیا جواز تراشا ۔
سانحہ منی پہلی بار نہیں ہوا ہے اس سے قبل بھی ہجوم غفیر کی وجہ سے بد نظمی
واقع پزیر ہوئے ہیں اور مختلف حالات میں سعودی حکومت کی جانب سے بہتر سے
بہتر کوشش کی جاتی رہی ہے اور اس کی گواہی سعودی سے حج کرنے والے حجاج ہی
بہتر دے سکتے ہیں ۔ لیکن تف ہے ایسے دانشوروں پر جنھوں مسجد الحرام کی زمین
کو چھوا تک نہیں لیکن اس پر تبرا اس نیت سے کرتے ہیں کیونکہ وہ خود لبرل
سمجھتے ہیں ، سیکولر کہتے ہیں، لیکن انھیں لبرلازم اور سیکولرازم کی الف ب
سے بھی آگاہی نہیں ہے۔انھیں بس شعائر اسلامی سے تکلیف ہے لیکن شرم کی بات
ہے کہ قربانی پر تنقید کرنے والے خود سب سے پہلے نئے کپڑے پہن کر سج دھج کے
ساتھ باربی کیو کے مزے بھی اڑاتے ہیں ، سرکاری اور سیاسی جماعتوں کی عید
ملن پارٹیوں میں بھی بڑے شوق سے جاتے ہیں۔اور اپنی مکروہ تصویریں فیس بک
پرشیئر بھی کرتے ہیں کہ ان سے بڑا خیر خواہ اس ملت اسلام کا کوئی نہیں لیکن
جب ان کا دوہرا چہرہ دیکھنا ہو تو ان کی تحریروں میں خوشامدانہ و مبلغانہ
حاشیہ برادیوں کا ایک انبار لگا ہوتا ہے لیکن جب ان کے ذاتی مزاج کا معلوم
کرنا ہو تو کبھی ان کی محفلوں میں بیٹھ جائیں تو اسلام کے خلاف زہر اگلتے
نظر آئیں گے، تعصب ، لسانیت اور قوم پرستی کے زہر آلود جملے سوشل میڈیا پر
بد بو پھیلا رہے ہونگے ۔ اگر ان پر مثبت تنقید کی جائے تو ناراضگی تو ان کی
گھر کے لونڈی ہے۔سانحہ منی کو بھی لیکر جہاں نام نہاد دانشور ، لکھاری اپنے
خیالات کا پرچار غیر ملکی ایجنڈے کے تحت اس لئے کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ
انھیں حجاز مقدس کو متنازعہ بنانا ہے اور انھیں یہ ایجنڈا مخصوص عناصر نے
دیا ہوتا ہے۔اسی طرح سانحہ منی پر سیاست کرنے والوں نے یہ سوچے بغیر کہ اس
سے اسلام کے خلاف کس قدر جگ ہنسائی ہوگی ، عظیم سانحے پر سیاست شروع کردی
ہے اور آل سعود سے اپنی ذاتی عناد کو باہر نکال کر بین الاقوامی طور پر
دشنام طرازی کی حدود پار کر رہے ہیں۔کالم کی ابتدا میں صرف چند واقعات
لکھنے کا واحد مقصد یہی تھا کہ ہمیں اس بات کو ضرور سوچنا چاہیے کہ قدرتی
آفات ایک سانحہ ہوتا ہے ، اگر وہ آسمانی ، زمینی یا زیر زمیں ، اس سے انسان
کسی طور نہیں بچ سکتا لیکن مستقبل میں احتیاط ضرور کرسکتا ہے۔سانحہ منی میں
صرف پاکستانیوں کے لاپتہ ہونے کے خبریں میڈیا میں گردش کرتی رہیں۔یقینی طور
پر اس لاپراوہی،سستی اور کوتاہی کے ذمے دار وزرات مذہبی امور و حج مشن ہے،
لیکن اس پر بھی ہمیں سیاست سے اس لئے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کا
معاملہ نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب کے اپنے قوانین ہیں اور اس کے مطابق وہ
عمل کرتی ہے۔غیر ملکی پروپیگنڈوں میں سعودی شہزادے کیلئے راستے بلاک کرنے
سمیت حج کے بہانے رقم کے لالچ سمیت متعدد بیانات منظر عام پر صرف اس لئے
لائے گئے تاکہ امت مسلمہ میں انتشار پیدا ہوسکے اور فرقہ واریت کو فروغ دیا
جاسکے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حجاج اکرام کسی سیاسی جلسے میں نہیں
بلکہ اﷲ تعالی کے حضور اہم فریضے کی ادائیگی کیلئے آئے تھے ۔ اﷲ تعالی کے
گھر میں اپنے گناہوں کی بخشش اور امت مسلمہ کے اتحاد اور امت میں تفرقہ
پیدا کرنے والوں کے خلاف یکجہتی کا عظیم مظاہرہ حج ہوتا ہے جسے دیکھ کر
منکرین اسلام کے دل دہل جاتے ہیں اس لئے اسلام کے خلاف ان کی سازشیں مزید
تیز ہوجاتی ہیں۔کسی نے کہا کہ سعودی عرب نے حج کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا اس
میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنا چاہیے ان سے بھی مشاورت کرنی چاہیے ۔ ان
سے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا ان کے ممالک میں جمہوریت کے نام پر جو
جھوٹا نظام نافذ وہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔ عوام سے کچھ پوچھا جاتا ہے۔ایک عید
کے چاند پر تو متفق ہو نہیں سکتے اور چلے ہیں حج جیسے بڑے عظیم اجتماع کا
ٹھیکدار بننے۔اﷲ تعالی نے حرم پاک کیلئے جو جگہ مختص کی اور تمام عالم
کیلئے نقطہ آغاز مقرر کیا اس کی ذمے داری بھی اسی سرزمین کے نگرانوں کو دی
ہے۔پہلے اپنے گھر کی فکر و اس پر توجہ دینی چاہیے۔نام نہاد دانشور بن کر
اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ |