حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت جعدہ ؓ فرماتے ہیں
حضورﷺ نے ایک بڑے پیٹ والا آدمی دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے پیٹ میں انگلی مار
کر فرمایا کہ اگر یہ کھانا اس کے پیٹ کے علاوہ کسی اور ( فقیر یا ضرورت مند)
کے پیٹ میں ہوتا تو تمہارے لیے بہترتھا
قارئین ! باوجود بہت سے دوستوں کے اعتراضات اور تنقید کے ہم آج کا کالم بھی
مسیحائی کے شعبے سے وابستہ دو بڑی شخصیات کے متعلق تحریر کررہے ہیں یہ
دونوں شخصیات ایسی ہیں کہ ہر صاحب دل ان کے متعلق نیک جذبات بھی رکھتا ہے
اور ان کی خدمات کا بھی قائل ہے ۔ ڈاکٹر غلام محی الدین پیرزادہ مرحوم کو
مرحوم لکھتے ہوئے دل کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور آنکھوں میں آنسوبھی آجاتے
ہیں ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ سرینگر مقبوضہ کشمیر کے ایک صاحب علم گھرانے میں
پیدا ہوئے آپ کے والد محترم دینی علوم کے ماہر تھے جب کہ پورے خاندان کو
پرہیزگاری کی وجہ سے انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا ڈاکٹر غلام
محی الدین پیرزادہ زمانہ طالبعلمی میں پاکستان بننے کی تحریک کا حصہ بنے
اور اسی جرمِ حریت کی پاداش میں کم عمری میں پولیس کا تشدد بھی برداشت کیا
اور جیل بھی کاٹی زندگی کو خطرہ لاحق تھااس لیے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی
جانب ہجرت کا سفر شروع کیا آج سے تقریباً 11سال قبل میرپور آزاد کشمیر میں
معروف اور مقبول ماہر امراض دل ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر نے راقم کے ساتھ مل
کر ڈاکٹر غلام محی الدین پیر زادہ کو ’’ لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ ‘‘ دینے
کی ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا جس میں سینکڑوں ڈاکٹرز ، لیڈی ڈاکٹرز
اور علاقے کی چیدہ چیدہ شخصیات نے شرکت کی تھی اس حوالے سے راقم کو یہ
مبارک موقع ملا کہ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ سے ان کی زندگی کی کہانی ان سے خود
سن سکے ڈاکٹر پیرزادہ نے کھوئے کھوئے انداز میں بتایا کہ میں بھوکا پیاسا
برف کے پہاڑوں پر چلتا ہوا ننگے پیر ایک مقام پر پہنچ کر بے ہوش ہو گیا جب
ہوش آیا تو میں پاکستان آرمی کی حفاظت میں آچکا تھا ایک ڈاکٹر نے دوران
علاج مجھ سے پوچھا کہ تم مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کیا لینے آئے ہو تو میں
نے جواب دیا کہ میں آزاد وطن میں آکر ڈاکٹر بنوں گا اور انسانیت کی خدمت کر
وں گاڈاکٹر پیرزادہ کہنے لگے کہ اس ڈاکٹر نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ
جن کی چبھن میری روح کی گہرائی تک اترگئی ان نگاہوں کا یہ کہنا تھا کہ ننگے
پیر ہجرت کرنے والے یہ بے سروسامان بچہ بھلا ڈاکٹر کیسے بن سکتا ہے ڈاکٹر
پیرزادہ کہنے لگے کہ اس کے بعد میں نے دن اور رات کا فرق بھلا دیا میں نے
ریلوے سٹیشن پر مزدوری بھی کی ، میں نے کئی دن اور راتیں بھوکے پیٹ بھی
گزاریں ، میں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر بھی کام کیا الغرض ہر طرح کی مشقت
سے گزر کر آخر کار ڈاکٹر بن ہی گیا ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے ان ڈاکٹر صاحب
کو بہت تلاش کیا کہ جن کی نگاہوں کی کاٹ نے مجھے اس درد اور جذبے سے سرشار
کر دیا تھا کہ جس نے ہر مصیبت کے پہاڑ کو میرے سامنے ایک حقیر زرہ بنا دیا
تھا۔ لیکن وہ صاحب مجھے نہ مل سکے ۔
قارئیں ! ڈاکٹر پیر زادہ مرحوم آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن آج بھی آزاد
کشمیر بھر میں پوری کشمیر ی قوم انہیں کشمیر یوں کا سب سے بڑا مسیحا کہہ کر
یاد کر رہی ہے ڈاکٹر پیرزادہ 1960کے عشرے میں میرپور میں قائم سی ایم ایچ
میں بحیثیت کپٹن ڈاکٹر تعینات ہوئے بعد ازاں اسی ہسپتال میں میڈیکل سپشلسٹ
کی خدمات انجام دیں اور 1970کی دہائی میں فوج سے ریلیز حاصل کر میرپور ہی
کو اپنے مستقل ٹھکانے کے طور پر منتخب کیا حالانکہ ان کے پاس ہر طرح کی
چوائس موجود تھی وہ امریکہ ، برطانیہ، مشرق وسطیٰ، یورپ سے لے کر دنیا کے
ہر ملک میں جا کر بہتر سے بہتر زندگی گزار سکتے تھے لیکن اہل میرپور کے
ساتھ وہ دلی اور جذباتی طور پر وابستگی اختیار کرچکے تھے جس دور میں ان کے
آرمی کے ساتھی راولپنڈی ، لاہور ، کراچی اور پشاور میں مہنگی سے مہنگی
پریکٹس کر رہے تھے ڈاکٹر پیرزادہ میرپور میں دس روپے سے اپنے پرائیویٹ
کلینک کا آغاز کیا اور اگلے 50سال کا عرصہ خدمت ، خدمت اور خدمت میں گزار
دیا تین نسلیں آج ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ مرحوم کی مقروض ہیں
قارئین! آئیے اب کالم کے اگلے حصے اور شخصیت کی جانب بڑھتے ہیں 11جولائی
1955کو پرانے میرپور جھنگ نامی گاؤں میں محمد رمضان مرحوم کے گھر ایک بچے
نے جنم لیا یہ بچہ بچپن ہی سے انتہائی محنتی ، مودب اور والدین کا
فرمابردار تھا اس بچے نے میٹرک کے امتحان میں لاہور بورڈ میں تیسری پوزیشن
حاصل کی اور اس کے بعد 1974-75کے سیشن میں آزاد کشمیر تعلیمی میرپور میں
ایف ایس سی کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اس بچے کی کامیابی پر ڈاکٹر
جی ایم پیرزادہ خصوصی طور پر اس بچے سے ملے کیونکہ بچے کے والد محمد رمضان
اور ماموں حاجی مہربان ڈاکٹر پیرزادہ کے انتہائی قریبی دوست تھے ۔ ڈاکٹر
پیرزادہ نے اس بچے کو انتہائی شفقت اور محبت سے نصیحت کی کہ تم نے محنت
کرنی ہے اور ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کر نی ہے اس بچے نے نشترمیڈیکل
کالج ملتان سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ 1982میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل
کی اور 7فروری1984میں آزاد کشمیر محکمہ صحت میں ملازمت اختیار کر لی ڈاکٹر
پیرزادہ مرحوم کی رہنمائی اور نصیحتوں کی روشنی ساتھ تھی اس لیے تعلیمی سفر
جاری رہا جو آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی کی طرف بڑھا اور میڈیشن کے شعبے میں
پوسٹ گریجویشن کی ٹریننگ کے بعد اس نوجوان ڈاکٹر کو ڈی ایچ کیو ہسپتال
کوٹلی میں 1988میں میڈیکل سپشلسٹ کی حیثیت سے تعینات کر دیا گیابعدازاں
میرپور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ٹرانسفرکر دیا گیا اس نوجوان نے NICVDکراچی
سے 1994میں امراض قلب کے علاج کے لیے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد
ڈپلومہ ان کارڈیالوجی حاصل کیا اور اس کے بعد برطانیہ رادھرم جنرل ہسپتال
سے کارڈیالوجی کے شعبے میں ٹریننگ حاصل کی میرپور واپس آکر یہ ڈاکٹر ایک
جذبے کے ساتھ ایک مشن لے کر آگے بڑھا اور آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی
مرتبہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور میں CCUقائم کر دیاجہاں امراض قلب میں
مبتلا انتہائی نازک حالت کے مریضوں کے لیے بہت بڑی سہولت میسر آئی بعد ازاں
حاجی محمد سلیم جو برطانیہ اور آزاد کشمیر میں رفاعی اور فلاحی کاموں میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ان کی سرپرستی اور کروڑوں روپے کی ذاتی قربانی سے
بننے والے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی باگ دوڑ اس ڈاکٹر کو سونپی
گئی یہ ادارہ 130بستروں پر مشتمل امراض قلب کے علاج کا آزاد کشمیر کا سب سے
بڑا ادارہ بن گیا 10جولائی 2015کو لاکھوں انسانوں کی خدمت کرنے والا یہ
عظیم ڈاکٹر محکمہ صحت آزاد کشمیر سے ریٹائرہوگیا۔ اس عظیم ڈاکٹر کو پوری
دنیا ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر کے نام سے انتہائی محبت اور عقیدت سے یاد کر
تی ہے ۔
قارئین ! ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر آج بھی دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں
اور آج بھی ڈاکٹر غلام محی الدین پیرزادہ مرحوم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے
ان کی آنکھیں شدت ِ جذبات سے چھلک اٹھیں ڈاکٹر اورنگزیب کہنے لگے کہ بلا
مبالغہ اس صدی کے قطب اور ولی تھے ڈاکٹر پیرزادہ مرحوم ایسے ہزاروں واقعات
سینہ گزٹ سے برآمد ہوتے رہتے ہیں کہ غریب اور بے سہارا مریضوں کا ناصرف
معائنہ وہ مفت کیا کرتے بلکہ کئی غریب مریضوں کو وہ ادویات بھی خود خرید کر
دیا کرتے تھے ڈاکٹر پیرزادہ مرحوم کے قریبی دوستوں میں میراعظم ، حاجی
مہربان، ڈاکٹر طارق مغل ، ڈاکٹر عبدالرزاق سمیت دیگر شخصیات شامل ہیں یہا ں
ہم ڈاکٹر پیرزادہ مرحوم کی رشتے میں بھانجی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر غزالہ
اکرم کی بات بھی آپ کی نذر کرتے چلیں ڈاکٹر غزالہ بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر
پیرزادہ مرحوم روپے پیسے سے رغبت نہیں رکھتے تھے صبح آٹھ بجے سے لے کر رات
12بجے تک ان کی زندگی مسیحائی پر مشتمل تھی ۔ آج ڈاکٹر پیرزادہ مرحوم کو
یاد کرتے ہوئے پورا کشمیر اداس ہے
بقول چچا غالب یہاں ہم کہتے چلیں
دوست، غمخواری میں میری، سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
بے نیازی حد سے گزری ، بندہ پرور! کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل ، اور آپ فرمائیں گے کیا؟
حضرتِ ناصح گرآئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو تو یہ سمجھا دئے، کہ سمجھائیں گے کیا
گرکیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا! یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا؟
خانہ زاد ِ زلف ہیں، زنجیرسے بھاگیں گے کیوں؟
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا؟
قارئین ! ضرورت اس امر کی ہے کہ زندہ قوموں کی طرح ہم بھی اپنے محسنوں کی
قدر کرنا سیکھیں ڈاکٹر پیرزادہ مرحوم اور ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر ہماری قوم
کے محسن ہیں کاش وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کو اﷲ کی جانب سے یہ
توفیق مل جائے کہ وہ ان دونوں شخصیات کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز کے
لیے منتخب کر کے حکومت پاکستان کو خصوصی سفارشات بھیجیں اس سے اور تو کچھ
نہیں ہوگا لیکن کم ازکم حکومت کے ماتھے پر لگا یہ داغ ضرور دھل جائے گا کہ
وہ اپنے جوہر قابل کی ناقدری کرتی ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک محفل میں چار گنجے بن بلائے مہمان کی حیثیت سے پہنچے اور میزبان سے
کہنے لگے
’’ واہ جناب آپ کی محفل بہت شاندار ہے ‘‘
میزبان نے ان کے سروں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا
’’ جی ہاں ایسا ہی ہے لیکن آپ نے تشریف لاکر اس محفل کو چار چاند لگا دیئے
ہیں ‘‘
قارئین! اندھوں اور بے قدروں کے معاشروں میں لعل و جواہرناقدری کا شکار
ہوتے ہیں اﷲ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے محسنوں کی قدر کر سکیں آمین
|