ماں،تو ماں ہوتی ہے

ڈاکٹر: اماں آپ کی عمر کیا ہے ؟امی نے سر جھکا کہ کچھ سوچنا شروع کیا پھر سر اٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ارے بیٹا جو تمھاری عمر ہے اس میں بیس سال جوڑ کر بتادومیں نے کہا ڈاکٹر صاحب امی کی عمر 60سال ہے ۔یہ تھیں ہماری والدہ جنھیں اپنی عمر یاد نہیں رہتی تھی لیکن یہ بات یاد تھی جب میری پیدائش ہوئی تھی تو ان کی عمر 20سال تھی۔اسی لیے جب ان سے کہیں عمر کاسوال کیا جاتا تو وہ مجھ سے یہی کہتیں اپنی عمر میں بیس سال جوڑ کر بتادو۔میری زندگی میں 2دن بڑی اداسی کے ہوتے ہیں ایک 16دسمبر جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا تھا اور دوسری تاریخ 2 اکتوبر ہے جب میری والدہ کا انتقال ہوا تھا ان کا انتقال 2002میں ہوا تھا جب ہم متحدہ مجلس عمل کی انتخابی مہم میں مصروف تھے ۔ اس وقت ہم اپنی والدہ کے گھر کے قریب ہی ایک پروگرام میں بیٹھے ہوئے تھے پروگرام شروع ہونے میں کچھ دیر تھی لوگوں کا انتظار ہو رہا تھا میں نے سوچا ابھی کچھ وقت ہے چل کہ امی سے مل آتے ہیں ،لیکن پھر سوچا کے پروگرام کے اختتام پر ہی جائیں گے تاکہ آرام سے کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ لیں پروگرام ابھی ختم بھی نہیں ہونے پایا تھا والدہ کے گھر سے بہنوں کے فون جس میں گھبراہٹ غالب تھی آنے لگے کہا تو یہی جا رہا تھا کہ بھائی جان جلدی آجائیں امی کی سخت طبعیت خراب ہے لیکن دل یہ کہہ رہا تھا کہ امی ہم سے جدا ہو گئیں ،گھر گئے تو معلوم ہوا کہ اسپتال جاتے ہوئے راستے ہی میں امی کا انتقال ہو گیا ۔یہ مائیں اور ان کی محبت کیا چیز ہوتی ہے اس محبت کی وسعتیں ،جہتیں اور اس کی گہرائی کتنی ہوتی ہیں اس کا آج تک کوئی اندازہ نہیں لگا سکا ،قران مجید میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے بعد اگر کسی کی اطاعت کے بارے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے تو وہ والدین کی اطاعت اور فرمابرداری ہے ،آپ ﷺ کی کئی احادیث بھی اس موضوع پر موجود ہیں جس میں سب سے اہم وہ حدیث جبرئیل ہے جس کے ایک ٹکڑے میں یہ بات ہے حضرت جبرئیل کی اس دعا پر آپ ﷺ نے آمین کہا تھا جب اس نے یہ کہا کے تباہ و برباد ہو جائے وہ شخص جس کی زندگی میں ماں باپ ہوں اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت نہ حاصل کر سکے ۔ہمارے ایک دوست جن کی عمر اس وقت ساٹھ سال سے زائد تھی جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا دفتر کے ساتھی تھے ہم تعزیت کے لیے ان کے پاس گئے تو انھوں نے ایک بڑے پتے کی بات کہی کہ ماں ماں ہی نہیں ہوتی بلکہ آپ کی سب سے اچھی دوست ہوتی ہے ۔ایک ایسی دوست جس سے آپ اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتے ہیں ،آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں اس سے ہر بات شیئر کر سکتے ہیں اگر کوئی مجھ سے پوچھے کے ماں کے معنی کیا ہیں تو میں یہی جواب دوں گا کے ایثار و قربانی کا دوسرا نام ماں ہے ۔سات سال کی عمر میں جب والد صاحب کا انتقال ہوا تو زندگی میں یو ٹرن آگیا کہ خوشحالی و فراوانی سے تنگدستی اور بدحالی کی طرف آگئے،پھر انھوں نے کس طرح ہم بہن بھائیوں کی پرورش کی یہ ایک بڑی دلگداز داستان ہے کون سی ایسی محنت ہے جو انھوں نے نہیں کی اور ہمیں الحمداﷲ کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا ہمیں یاد ہے 1967 میں میٹرک کے بعد کالج میں داخلے کے لیے صرف 110روپئے کی ضرورت تھی ۔انھوں نے اپنا ایک کوئی زیور دیا مجھے یاد نہیں کہ وہ کیا چیز تھی اور کہا کہ اسے فلاں دکان پر جا کر گروی رکھ دو 100 روپئے تو ملنا مشکل ہے لیکن پچاس روپئے تو مل جائیں گے ،چنانچہ پچاس روپئے مل گئے اب بقیہ ساٹھ روپئے کی ضرورت تھی پھر انھوں نے شکستہ الفاظ پر مشتمل ایک پرچے پر تحریر لکھ کر مجھے دیا اور کہا کہ ناتھ ناظم آباد میں اپنی ایک رشتہ کی بہن کے یہاں بھیجا وہ تحریر یہی تھی بہن جاوید کے داخلے کے سلسلے میں پچاس روپوں کی ضرورت ہے تم دے دو میں تین ماہ میں لوٹا دوں گی ۔میں وہ پرچہ لے کر اپنی رشتہ کی خالہ کے یہا ں گیا انھوں نے پرچہ پڑھ کر کہا کہ ابھی تھوڑا رک جاؤ تمھارے خالو دفتر صے آتے ہو ں گے ان سے لے کر دے دوں گی خالو بھی اچھے آدمی تھے انھوں نے فوراَوہ پیسے دے دیے ۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا اپنی والدہ کو ہمیشہ بیمار اور مستقل دوا کھاتے دیکھا لیکن زندگی کے آخری دن تک وہ چلتی پھرتی رہیں یہاں تک کے جب آخری دن طبیعت خراب ہوئی انھین پکڑ کر سیڑھیوں سے اتارنا چاہا تووہ نے انکار کرتے ہوئے خود بیٹھ کر سیڑھیوں سے نیچے اتریں اور اپنے پیروں سے لڑکھڑاتی ہوئی ٹیکسی میں بیٹھیں اس کے بعد ہوش نہ رہا ۔ہو اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں کہ اے اﷲ مجھے چلتے پیر اپنے یہاں بلا لینا مجھے محتاج نہ بنانا کسی کا ،اﷲ نے ان کی یہ دعا قبول کرلی ۔والدہ کے انتقال کے کچھ دن بعد جسارت کے سابق مدیر جناب محمود احمد مدنی صاحب کا انتقال ہوا ان کی نماز جنازہ جناب سید منور حسن نے پڑھائی نماز جنازہ کے اجتماع سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے جناب منور صاحب نے کہا کہ اولاد کی طرف سے دعائے مغفرت ایک ایسی چیز ہے جس سے اگر ایک طرف مرنے والے کے گناہوں میں کمی اور اس کے درجات کی بلندی ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ اولادوں کی اس کمی کا کفارہ بھی بن جاتی ہے جو وہ اپنے والدین کی زندگی ان کی پوری طرح سے خدمت نہ کرسکے ،چنانچہ اپنے مرحوم والدین کے لیے ہر نماز اور ہر نیک کام کی کسی بھی سرگرمی کے بعد دعائے مغفرت کرتے رہنا چاہیے ۔اپنی اولاد کے بارے میں ماں کے جذبات کیا ہوتے ہیں کہ ابھی اسے یہ معلوم ہوا اب سے نو ماہ بعد وہ ایک بچے کی ماں بننے والی ہے اسی وقت سے وہ اس کے بارے میں سوچنے لگتی ہے وہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں کے بارے میں منصوبے بنانے لگتی ہے ایک مثال سے بات واضح ہو جائے گی ۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اتوار کی صبح کسی کام سے باہر نکلا اس دن جماعت کی رابطہ عوام مہم تھی سب کارکنان جارہے تھے میں ساتھ بیٹھ گیا راستے میں خیال آیا کہ امی کو بتا نہیں سکا وہ پریشان ہوں گی موبائل تو دور کی بات ،اس وقت PTCLبھی نہیں تھا کہ کہیں سے فون کر کے بتادیں ،رابطہ بھی دن بھر کاتھا ۔اس زمانے میں جماعت نے دعوتی مہم کا پروگرام اس طرح بنایا تھاکہ جمعہ اور ہفتے والے دن عصر کے وقت تمام علاقہ شرقی کے کارکنان (اس وقت یہ علاقہ چار آبادیوں سوسائٹی ،پیر کالونی،لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریاپر مشتمل تھا)کو کسی ایک مقام پر جمع کرکے دو ،دو کارکنان کے وفود بنائے جاتے اور انھیں پچیس مکانات تک جا کر ایک دعوتی دوورقہ ایک لٹریچر ،متفق فارم اور ایک خط دینا ہوتا اس خط میں لکھا ہوتا کہ ہمارے کارکنان یہ لٹریچر آپ کو دے کر جارہے ہیں آپ انھیں پڑھ لیں اور اگر آپ ہماری دعوت سے متفق ہیں تو ہمارا متفق فارم پر کردیں ہمارے کارکنان اتوار والے دن آپ سے ملاقات کرکے یہ فارم وصول کرلیں گے۔اس کی بھی بڑی دلچسپ تفصیل ہے اتوار کو جب گئے تو بیشتر لوگوں نے اس لٹریچر کو پڑھا اور دیکھا بھی نہیں تھا بہت سوں نے پڑھ لیاتھا کچھ لوگوں نے فارم بھی بھر کر رکھے ہوئے تھے ایک جگہ کہا گیا کہ آپ ایک ہی فارم دے گئے تھے گھر کے اور بھی لوگ بھرنا چاہتے ہیں ۔کارکنان کے ایک وفد کے ساتھ خوشگوار واقعہ یہ ہوا کہ جب وہ ایک گھر پر گئے تو وہاں سے جو صاحب نکلے انھوں نے کہا کہ ارے صاحب ہم تو صبح سے ناشتے پر آپ کا انتظار کررہے ہیں یہ والا واقعہ مرحوم عبدالرشید صاحب نے سنایا تھا جو اس وقت علاقہ شرقی کے ناظم اعلیٰ تھے۔خیر وہ بات درمیان میں آگئی ہم جب شام کو گھر پہنچے تو والدہ نے غصے اور محبت کے ملے جذبات میں ایک بات کہا کہ ہمیں تو یہ لگتا ہے ہماری پچیس سال کی محنت کو جماعت اسلامی والے لوٹ کر لے گئے میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ میں خود دن بھر پریشان رہا کہ امی گھبرا رہی ہوں گی میں انھیں بغیر بتائے چلا آیا پھر کہا کہ خیر تم جماعت میں ہو بھی تو میری دعاؤں کے نتیجے میں ۔پھر انھوں نے یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ تمہاری پیدائش سے بہت پہلے سے تمھارے ابا کے ساتھ میرا جھگڑا ہو گیا بلکہ ہو کیا گیا جھگڑا مستقل رہنے لگا وہ کہتے تھے کہ میراجو بچہ ہوگا اسے میں اپنے مذہب (اہلحدیث) پر چلاؤں گا میں کہتی کہ نہیں میرا بچہ میرے مذہب (بریلویت)پر چلے گا میری والدہ کٹر بریلوی مکتبہ فکر کی تھیں ہمارے یہاں رجب کے کونڈے شبرات کے حلوے محرم کے حلیم کے علاوہ وہ تمام بریلوی رسومات یا بدعات بڑے اہتمام سے ہوتی تھیں جو عام بریلوی گھرانوں میں آج بھی ہوتی ہیں جب کہ والد صاحب اہل حدیث تھے وہ ان میں سے کوئی چیز کھاتے نہیں تھے اور والدہ سے کہتے تھے یہ سب شرک ہے لیکن وہ والدہ کو کسی بات سے روکتے بھی نہیں تھے دوسری طرف والد صاحب کے مقابلے میں ہماری والدہ عبادت گزار خاتون تھیں وہ پنج وقتہ کے علاوہ اشراق،چاشت ،تہجد اور صلاۃ التسبیح کا بھی اہتمام کرتی تھیں اکثر ان کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی اور وہ ذکر و اذکار کرتی رہتی تھیں کبھی کبھی وہ مجھے بھی کوئی چیز بتاتیں کہ تم یہ پڑھا کرو ایک دفعہ کہا کہ جاوید تم رب ذدنی علماَجب بھی موقع ملے پڑھتے رہا کرو پھر انھوں نے بتایا کہ میں ایک بزرگ کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا وظیفہ یا چلہ بتادیں کہ کوئی منت مانوں یا اﷲ سے دعا مانگوں اور وہ پوری ہو جائے ان بزرگ نے کہا کہ اﷲ تو ہر بندے کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہے بندہ دل کی گہرائیوں جو بھی مانگے اﷲ قبول کرنے والا ہے پھر انھوں نے کہا کہ تم40 دن تک روزآنہ عشاء کے بعد 41مرتبہ سورہ اخلاص پڑھو اور اﷲ جو تمہارے دل میں طلب ہو وہ گڑگڑا کر مانگو اﷲ دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے چنانچہ انھوں ایک طرح کا یہ چلہ پورا کیا اور اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی اے رب اگر تیرے نزدیک میرا مذہب ٹھیک ہو میرے بچے کو اس پر چلا نا اور اس کے باپ کا مذہب ٹھیک ہو تو اس پر چلانا اور اگر اس کے علاوہ جو دین یا جو راستہ دین کا تجھے پسند ہو اس پر چلادے اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ جماعت اسلامی اﷲ کی پسندیدہ جماعت ہے اور آج کے دور میں یہی راستہ دین کا اﷲ کو پسند ہے اس لیے تم جماعت میں میری دعا کی قبولیت کی وجہ سے ہو۔اس قصے سے میں یہ سمجھا کہ یہ اپنی بریلویت کے حوالے سے بھی تذبذب شکار تھیں ورنہ وہ سیدھی سادھی یہ دعا مانگتی کہ اﷲ میرے بیٹے کو بریلوی بنادے ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کو کندھے پراٹھا کر اپنے شہر سے پیدل آیا پھر اس نے حج کے تمام ارکان اسی طرح کندھے پر بٹھاتے ہوئے پورے کیے اور گھر واپس پہنچا کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا کہ کیا میں نے نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ۔آپﷺ نے فرمایا کہ تونے تو اس کی ایک رات کا بھی حق ادا نہ کیا۔ایک ٹی وی پروگرام میں راحت فتح علی خان سے جب اینکر سے سوال کیا بتایے عید کیسی گزری اس نے جواب دیا جو عید ہم گزار چکے وہ گزار چکے اب ویسی عید نہیں آئے گی اورحقیقت یہ ہے کہ جب سے والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا ہے اب کوئی عید اچھی نہیں لگتی ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ میں بھی عید کے دن والدہ کے پاس جاتا تھا تو محسوس ہوتا تھا کہ آج عید ہے اور اس کی کوئی خوشی بھی ہے وہ ہمیں عیدی کتنی بھی دیں اس کی مسرت ہی کچھ الگ ہوتی تھی ۔میں الگ رہتا تھا لیکن جب تک والدہ حیات رہیں روز صبح دفتر جانے سے پہلے ان سے مل کر جاتا تھا کبھی صبح نہ جاسکا تو شام کو ضرور جاتا اگر دو ایک روز کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ جاسکا تو وہ خود گھر آجاتیں ۔بہت سارے واقعات ہیں ایک کالم میں تو نہیں سموئے جاسکتے دل کا حال یہ ہے کہ ایک تنہائی سی محسوس ہوتی ہے 2اکتوبر جب آتاہے تو احساس اور تڑپاتا ہے چلتے چلتے ایک دلگداز واقعہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی میں نے والدہ سے کہا ہوں تو دے دیں ایک ہفتے میں لوٹا دوں گا وہ گئیں اور اپنی الماری سے لاکر پیسے دیے اورکہا یہ میرے کفن کے پیسے ہیں لے لو کام کرلو میں پورے وجود سے کانپ کر رہ گیا ۔واقعی ماں،ماں ہوتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.