تعلیم دیناایک مقدس پیشہ ہے ۔
نبی کریم َﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو ٗ چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانے پڑے
۔ گویا علم کو ہمارے دین میں اولیت حاصل ہے۔ لیکن پاکستان میں تعلیمی شعبے
کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کردیاگیاہے ۔ برسات کے مینڈکوں کی طرح
گلی کوچوں میں سکول دکھائی دیتے ہیں ۔کئی سکولوں کا عالم تو یہ ہے کہ اسی
گھر میں رہائش اور اسی گھر کے باہر انگلش میڈیم سکول کا بورڈ لگا کر لوٹنے
کا سامان پیدا کرلیا گیا ہے ۔کیادو چار مرلے پر مشتمل ایسے سکول میعاری
تعلیمی ادارے بن سکتے ہیں ٗ جہاں بنیادی سہولتیں ہی ناپید ہوں ۔ نشوو نما
کے لیے تعلیم کے علاوہ کھیل کود کے لیے میدان کی ضرورت بھی پڑتی ہے ٗ انہیں
دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کمپوٹر لیب کی ضرورت بھی ہوتی
ہے انہیں مناسب روشنی ٗ اچھا ماحول درکار ہوتا ہے لیکن بیشتر پرائیویٹ سکول
ایسے ہیں ۔ابا پرنسپل ٗ امی وائس پرنسپل اور بیٹے سکول ماسٹر بن جاتے ہیں۔
پھر ایسی غیر معیاری کتابیں پڑھنے کے لیے تجویز کی جاتی ہیں جن کی فروخت
میں بھی انہیں کم ازکم 40 فیصد حصہ ملتا ہو ۔بچے مہینے میں جتنی مرتبہ
کتابیں اور کاپیاں پھاڑتے ہیں یہ بھی سکول مالکان کے لیے کمائی کا ذریعہ بن
جا تی ہیں ۔ کئی سکول ایسے تنگ اور تاریک گلی کوچے میں قائم ہیں جہاں چھٹی
کے وقت عام لوگو ں کا گزرنا بھی محال ہوتا ہے ۔ جب ٹیچر ملازم رکھنے کا
مرحلہ درپیش ہوتا ہے ۔میٹرک ٗایف اے ٹیچر کو یہ سکول دو ہزا رسے تین ہزار
روپے ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں ۔ چند دن پہلے میری ملاقات سرگودھا کے
پرائیویٹ سکول ٹیچر سے ہوئی ۔ باتوں ہی باتوں میں نے تنخواہ کے بارے میں
پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے وہ کہنے لگی نہ ہی پوچھیں تو اچھا
ہے میں نے کہا وہ کیوں ۔ میرے اصرار پر بتایا کہ صرف تین ہزار روپے ماہانہ
تنخواہ ملتی ہے ۔ ایک دن میں نے اپنی عزیزہ کو پرچے چیک کرتے ہوئے دیکھا تو
پوچھا کیاآپ نے بھی سکول میں ملازمت کرلی ہے ٗاس نے کہا جی انکل ۔ میں نے
پوچھا کہ تنخواہ کتنی ملتی ہے ۔ اس نے بتایا کہ تین ہزار روپے ملتی ہے اور
گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ بھی نہیں ملتی جبکہ سکول کے تمام بچوں سے چھٹیوں
کے تین مہینوں کی فیسیں بھی ایڈوانس ہی وصول کرلی جاتی ہیں ۔میں نے حیرت
کااظہار کیا تو اس نے بتایا کہ انکل ایک اور ٹیچر کو تو صرف دوہزار روپے
تنخواہ ملتی ہے۔ یہ باتیں ان پرائیویٹ سکولوں اور اداروں کی ہیں جو اپنے
تعلیمی معیار کا ڈھونڈرا پیٹتے پھرتے ہیں ۔اب ہم فیسوں کی جانب آتے ہیں ۔
میری پوتی نرسرسی کلاس میں پڑھتی ہے اس کی فیس آٹھ سو روپے ہے ۔ایک صبح
بیٹے نے کہا ابو جی یہاں بچوں کو صحیح تعلیم نہیں دلوائی جاتی میں چاہتا
ہوں قربان گرلز سکول میں داخل کروا دوں۔ شایدوہاں بہتر تعلیمی سہولتیں میسر
ہوں ۔ بڑے بڑے بورڈوں پر زیادہ نمبر لینے والے بچوں کے نام اور تصویرآویزاں
کرکے والدین کو بچے داخل کروانے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔میں نے کہا پہلے جا
کر فیس اور ماحول کو خود دیکھ کر آؤ پھر فیصلہ کرنا ۔ وہ سکول سے جب واپس
آیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ کہنے لگا وہاں نرسرسی کلاس کی فیس دو
ہزار روپے ہے ۔جبکہ وردی کتابوں کاپیاں پر بھی تین ہزار روپے ماہانہ خرچ
ہوجاتے ہیںٗمیں اتنی فیس نہیں دے سکتا ۔ وہ اپنے بیٹی کو معیاری تعلیم دلوا
کر معاشرے میں ایک کامیاب انسان تو بنانا چاہتا ہے لیکن اس کی جیب میں اتنے
پیسے نہیں کہ ان مہنگے پرائیویٹ سکولوں کی فیس اداکرسکے ۔یہ سکول بھی ایسا
ہے جہاں تک بچوں کے کھیلنے کودنے کے لیے کوئی بھی نہیں میدان ہے ۔ دس بیس
کمرے تعمیر کرکے انگلش اوراردو کے الگ الگ سکول بنا لیے اور فیسوں کو آسمان
پر پہنچا دیا ۔میں نے کہا بیٹا ہم تو سرکاری سکولوں کے ٹاٹوں پر بیٹھ کر
پڑھے ہوئے ہیں جہاں کچی پکی سے لے کر پانچویں تک فیس دو چار آنے ہی ہوا
کرتی تھی پھر میٹرک تک پانچ سے دس روپے فیس ۔ اب انگلش میڈیم سکولوں میں
پڑھنے کا رواج ایسا شروع ہوا ہے کہ فیس کوبھی آسمان پر پہنچا دیاگیا ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان سکولوں کو کنٹرول کرنے کے لیے محکمہ ایجوکیشن کے
پاس شاید وقت ہی نہیں ہے اور اگر کہیں یہ لوگ پہنچتے بھی ہیں تو اچھا کھانا
کھلا کر ٗ ان کی جیبیں نوٹوں سے بھر کے انہیں واپس کردیا جاتاہے ۔پھر جب سے
پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اپنے ایسوسی ایشن بنا لی ہے تو یہ لوگ ایک مافیا
کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ۔ وفاقی اورصوبائی وزرائے تعلیم ان کی مٹھی میں ہیں
کسی بھی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلاکر اس قدر پروٹوکول دے دیا
جاتا ہے کہ وہ خوش ہوکر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں بلکہ ان کی تصویروں کو
بھی تشہیر کا باعث بنایاجاتاہے۔ نہ کوئی نصاب کو چیک کرنے والاہے اور نہ ہی
دیگر سہولتوں کی باز پرس کرنے والا ۔یہ سیاہ و سفید کے مالک خود بن چکے ہیں
۔ سکول کے علاوہ اب کالجز اور یونیورسٹیوں تک بات جا پہنچی ہے جہاں لاکھوں
روپے تک بات پہنچ چکی ہے۔ایک دن بیٹے نے کہا مجھے آٹھ لاکھ روپے چاہیےٗ میں
ایم بی اے کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا بیٹا میں نے آپ کو اچھا کھلایا پلایا
ٗ اچھی تربیت کی بی کام تک تعلیم بھی دلوائی اب میرے پاس آٹھ لاکھ نہیں
ہیں۔ بہتر ہوگا کہ تم ملازمت کرکے تنخواہ کے پیسوں سے ایم بی اے کرلو ۔(یہ
بھی بتاتاچلوں کہ ایم بی اے کرنے والے نوجوانوں کو آجکل پرائیویٹ اداروں
میں آٹھ سے دس ہزار روپے بمشکل تنخواہ کی آفر ہوتی ہے )ہاتھوں میں ڈگریاں
لے کر دربدر ٹھوکریں کھانے والوں کے پاس اتنے پیسے کہاں ہوتے ہیں کہ اعلی
تعلیم حاصل کرسکیں ۔ چنانچہ میرا بیٹا آٹھ لاکھ نہ ملنے کی بنا پر بی کام
سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔ایک متوسط طبقے کے لیے اپنا گھر بنانا ٗ بجلی کے بل
جمع کروانا ٗ بد ترین مہنگائی میں اپنا او راپنے بچوں کا پیٹ پالنا ٗ اور
حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی فیسیں اداکرکے تعلیم دلوانا ناممکن ہوچکا ہے
۔بہرکیف پاکستان میں ہزاروں لوگ مل جائیں گے جو خود کو دور حاضر کا سرسید
کہتے نہیں تھکتے لیکن کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جو اپنے تعلیمی اداروں میں
غریب بچوں کی فیس معاف کرکے انہیں بہترین تعلیمی سہولتیں بھی فراہم کرتا ہو
۔یہی وجہ ہے کہ ایک سکول بنانے کے بعد پورے ملک میں اس کی شاخیں پھیلتی
جارہی ہیں اور لکھ پتی کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے جارہے ہیں ۔ اگر کسی کو
دور حاضر کا سرسید کہاجاسکتا ہے تو اس کا نام ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ہے
۔جنہوں نے کاروان علم کی بنیاد رکھ کر ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچوں کو
زیور تعلیم سے آراستہ کیاہے بلکہ اب بھی یہ مشن جاری ہے جن کے پاس تعلیمی
اداروں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے ۔حکومت نے والدین کی چیخ
و پکار کر پرانی فیس واپس لانے کا حکم تو دے دیا ہے دیکھتے ہیں اس حکم پر
کس حد تک عمل ہوتا ہے کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مافیا نے اس حکومتی
حکم کو یکسر مسترد کردیا ہے ۔ |