حجِ بیتُ اﷲ شریف کے تقاضے
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, )
۱۴۳۶ ہجری کا بیتُ اﷲ شریف اپنے
اختتام کو پُہنچا۔ موسم میں گرمی شدّت کے با وجود مسلمانِ عالم نے پُوری
ایمانی جرات اور ذوق و شوق کے ساتھ مناسکِ حج کی ادائیگی کی۔ مختلف ممالک
سے تعلق رکھنے والے افراد نے کمزوری اور معزوری کو بھی آڑے نہ آنے دیا،
لڑکھڑاتے قدموں یا ویل چیئرز کا سہارا لے کر اِس فریضہ کی بجا آوری کو پا
یہ تکمیل تک پُہنچایا۔ حجِ بیتُ اﷲ شریف دینِ اسلام کا اہم رُکن ہونے کے
ساتھ ساتھ شُوکتِ اسلام کا اظہار بھی ہے۔کچھ وہ بھی تھے جو آئے تو حج کے
لیے تھے لیکن منٰی کے روح فرسا حادثہ میں داعی اجل کو لبیّک کہہ گیے۔ حدیثِ
رسول ﷺ کے مطابق اگر کوئی حج کی نیت سے آئے اور دورانِ سفر اﷲ کو پیارا ہو
جائے تو تا قیامت ہر سال حج کا ثواب اسے ملتا رہے گا۔
ابھی ہم مکہ مکرمہ میں ہیں، رش بُہت زیادہ ہے۔ جو لوگ دورانِ حج مضافاتی
علاقوں میں رہائش پذیر تھے وہ بھی اب قریب آگئے ہیں۔ جنہں اب مدینہ پاک
یاگھروں کو جانے کے لیے مکہ مکرمہ کو چھوڑنا ہے وہ طوافِ وداع کر کے جا رہے
ہیں۔ حجِ بیتُ اﷲ شریف کے دوران کئی مُستجابُ الدعوات مقامات پر حاضری نصیب
ہوتی ہے۔ طوافِ خانہ کعبہ شریف، صفاومروا کے درمیان سعی اور وقوفِ عرفہ و
مزدلفہ کے دوران کئی کیفیات نصیب ہوتی ہیں۔ دِلّوں میں ایمان کی لذّت کا
احساس اور روح کو خاص قسم کا کیف و سرُور ملتا ہے۔ حج کے احکامات کی بجا
آوری اور منا سک کی تکمیل کے بعد اصل ذمہ داری اِن کیفیات کو سمبھال کر
رکھنا ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ علمی شخصیت موجود ہے، اِس حوالے سے جب
ان سے گفتگُوہوئی تو فرمانے لگے کِہ جب شیطان کو کنکریاں ما ری جاتی ہیں تو
اِس کا ردّعمل بھی آتا ہے، ہمیں ایمان کی مضبوطی اور استقامت کے ساتھ
شیطانی وساوس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ حج کی برکات کو ضائع کرانے کے لیئے
شیطان لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فسادکی آگ کو بھڑکا تا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ حجِ بیتُ اﷲ شریف ہمارے دین کا اہم ستُون اور عظیم
الشان عبادت ہے، لیکن عملی طور پر یہاں کا آنکھوں دیکھا حال بتا تا ہے کہ
ہم نے اِس کی رُوح کو داغدار کر دیا ہے۔ اکثر وبیشتر لوگ علم سے نا بلد اور
علماء وصلحاء کی صحبت سے آری ہوتے ہیں۔ مالی لحاظ سے صاحبِ نصاب اور صاحبِ
حیثیت ہونے کی وجہ سے حج کے لیے آتو جاتے ہیں لیکن اِس کی حکمتوں اور
برکتوں سے نا واقف ہوتے ہیں، ہمہ وقت اِن کی سوچ کا دائرہ مادی لذتوں میں
کمی بیشی پر محیط رہتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران کئی دِنوں تک طواف
نہ کریں تو انہیں احساسِ زیاں نہیں ہوگا لیکن دیگر معما ملات میں کمی و
بیشی پر بلا سوچے سمجھے لڑائی جھگڑے اور بد زبانی سے بھی گُریز نہیں کریں
گے۔ بعض حج ٹُورز آپریٹر بھی وعدہ خلافیاں کر کے ایسے حالات پیدا کر دیتے
ہیں جو بالاخر کشیدگی کا سبب بنتے ہیں۔
بنیادی طور پر حجِ بیت اﷲ شریف کے بعد زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آنی چاہیے۔
بزرگانِ دین نے حج بیت اﷲ شریف کی قبولیت کی ایک علامت یہ بیان کی ہے کہ حج
کے بعد عبادات کا ذوق و شوق زیادہ ہو جاتا ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی
پاسداری کا جذبہ بڑھ جا تا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺسے محبت اور عشق
میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ فکر آخرت ہمہ وقت کار ہائے خیر کی طرف آمادہ کرتی
رہتی ہے۔ یہاں تک کہ سابقہ زندگی میں جانے یا انجانے میں کیے گئے گناہوں پر
توبہ واستغفار پر مواظبت نصیب ہو جاتی ہے۔
عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ فرض کی ادائیگی اور ضابطے کی کارروائی کی
حد تک حج بیت اﷲ کی طرف راغب ہوتے ہیں، اس کی حقیقت اور نظام عبادات میں
مرکزی حیثیت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ حالات عموما ان علاقوں کے لوگوں کے
ہوتے ہیں جہاں اسلامی طرزِزندگی اور حسن تربیت کا نظام مفلوج ہوتا ہے۔لیکن
اس کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی حج بیت اﷲ شریف کی سعادتوں سے
بہرہ ور ہوتے ہیں جن کے دلوں کی دھڑکنوں میں ذکر الٰہی اور عشق رسول ﷺ کے
دیپ روشن ہوتے ہیں۔ یہ لوگ حج کی با برکت گھڑیوں کے لمحات کو ضائع نہیں
ہونے دیتے۔ دھکم پہل اور خود غرضی کی بجائے دوسروں کی خیر خواہی کے لیے
کوشاں رہتے ہیں۔ یہی وہ حج ہے جو اصلاح احوال کا سبب بنتا ہے ۔ اﷲ تعالٰی
کی بے پایاں رحمتوں کا نزول تو ہمہ وقت ہوتا رہتا ہے اوراپنے دامن کی وسعت
کے مطابق ہر ایک کو حصہ وافر ملتارہتا ہے۔ حج میں ایک ضروری صفت کا ہونا
ضروری ہے جو ہر مرحلے پر کا م آتی ہے، وہ صفت صبروتحمل کا جذبہ ہے۔ یہاں کی
معروضی صورتحال میں گاڑیوں کا لیٹ ہو جا نا ، کھانے پینے کے اہتمام میں
اونچ نیچ ہو جا نا، ایک معمول ہے، کیونکہ رش بہت زیادہ ہے لیکن بسا اوقات
ان معاملات میں حجاج کو برہم ہوتے بھی دیکھا ہے۔ قرآن پاک نے حجاج کرام کو
بار بار جھگڑنے سے منع کیا ہے، کیونکہ مالک حقیقی جانتا ہے کہ کس طر ح کے
حالات کا سامنا کرنا ہوگا لیکن بد قسمتی سے اس قرآنی حکم کی با ر بار خلاف
ورزی دیکھنے میں آتی ہے۔ دعاہے کہ اﷲ پاک جُملہ حجاج کرام کی عبادات اور
کاوشوں کو قبول فرمائے، اس حج کو حج مبرور بنائے۔
ہے مکہ میں جلال کبریائی
اور مدینہ میں جمال مصطفائی
نہ گر یہ شہر ایمان دیکھ پائے
تو کیا دیکھا اگر دنیا میں آئے
|
|