ایک کنجوس شخص اپنے مکان کی
چوتھی منزل کی چھت سے نیچے جھانک رہا تھا کہ اچانک توازن برقرار نہ رکھ سکا
اور اس کا پیر پھسل گیا۔ زمین پر گرتے ہوئے جب وہ پہلی منزل کے قریب سے گزر
رہا تھا تو اس کی بیوی کچن میں کھانا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ کنجوس
آدمی نے وہیں سے گرتے گرتے آواز لگائی”میرے لئے روٹی نہ پکانا!“
جب میں نے پہلی دفعہ یہ لطیفہ سنا تو مجھے اس میں ضرورت سے زیادہ مبالغہ
آرائی کا گمان ہوا۔ تاہم حال ہی میں میرا پالا کچھ ایسے جز رس لوگوں سے
پالا پڑا ہے کہ لطیفے میں بیان کیا گیا شخص مجھے حاتم طائی لگنے لگا ہے۔
مذکورہ شخص نے تو صرف ایک روٹی کی بچت کرنا چاہی تھی جو تندور سے پانچ روپے
کی ملتی ہے جبکہ جن”کفایت شعار“ صاحبان کو میں جانتا ہوں، وہ آج کل کے دور
میں بھی ”مسڈ کالز“ دینے سے باز نہیں آتے جو فی زمانہ روٹی سے بھی سستی ہے۔
دو قسموں کے لوگ یہ کام کرتے ہیں ایک غریب اور دوسرے کنجوس۔ جہاں تک غریب
بندے کا تعلق ہے تو اسے اس ملک میں زندہ رہنے کا ہی کوئی حق نہیں چہ جائیکہ
کہ وہ لوگوں کو ”مسڈ کالز“ دیتا پھرے۔ اگر کسی مرد عاقل کو اس بیان کی صحت
پر شبہ ہو تو وہ بے شک تھوڑے دنوں کے لئے غریب بن کر دیکھ لے، اس کا شبہ
دور ہو جائے گا اور صحت خراب ہو جائے گی۔
جہاں تک کنجوس آدمیوں کا تعلق ہے تو ان کی آگے سے کئی قسمیں ہیں بالکل ویسے
ہی جیسے ”میملز“ کی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک کنجوس وہ ہیں جن کا تعلق مڈل کلاس
سے ہے۔ یہ مڈل کلاسیے کنجوس اپنے اوپر کوئی پیسہ خرچ کرتے ہیں اور نہ کسی
دوسرے پر۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں سفید پوش ہونے کے ناطے کفایت شعار
سمجھا جائے لیکن کنجوسی اور کفایت شعاری کے درمیان جو باریک فرق ہوتا ہے،
وہ انہیں دوسروں سے ممتاز ہی رکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ کنجوس آتے ہیں جو ہوتے
تو امیر ہیں لیکن ان میں کنجوسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ
وہ اپنے اوپر تو پیسے خرچ لیتے ہیں لیکن دوسروں کی مرتبہ انہیں موت پڑ جاتی
ہے۔ انہی قسموں کے درمیان کہیں ایک اور ٹائپ بھی چھپی ہوئی ہے جو خود تو
بلا کی کنجوس ہوتی ہے لیکن”سیلف ڈیفنس“ کے قاعدے پر عمل کرتے ہوئے الٹا
دوسروں کو کنجوس ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے۔ اسی طرح ان ”کنجوس میملز“ کی
ایک انوکھی قسم وہ ہوتی ہے جن کا تعلق تو نام نہاد اپر کلاس سے ہوتا ہے
لیکن یہ اپنی جیب میں کوئی پیسہ نہیں رکھتے اور اگر خدانخواستہ اس کلاس کا
کوئی کنجوس آپ کے ساتھ کوئی میلہ ٹھیلہ دیکھنے چلا جائے تو ”کتلمے“ سے لے
کر ”موت کے کنوئیں“ تک کی ٹکٹ آپ کے ذمے ڈال دے گا اور ہر مرتبہ یہی رونا
روئے گا کہ وہ اپنا بٹوہ گھر بھول آیا ہے۔ اور کنجوسوں کی اس درجہ بندی میں
ایک قسم وہ بھی ہے جس کے ممبران کنجوس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں۔
یہ لوگ دوسروں سے تو پانی کی طرح پیسہ بہانے کی توقع رکھتے ہیں اور اگر
کوئی ان کی اس توقع پر پورا نہ اتر سکے تو اسے طعنے دے دے کر مار چھوڑتے
ہیں۔ دوسری طرف اگر خود انہیں کسی موقع پر پیسے خرچ کرنے پڑ جائیں (جس کی
نوبت ان کی افتاد طبع کی بدولت شازو نادر ہی آتی ہے) تو پہلے وہ مذاق میں
ٹالنے کی کوشش کریں گے اور اگر بات نہ بن سکے تو پھر اپنی سفید پوشی کا
رونا رو کر اپنے آپ کو اس صورتحال میں سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیں
گے۔
کنجوسوں کی یہ درجہ بندی کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو کچھ کچھ ارسطو سمجھنے
لگا ہوں جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ زندہ اجسام کی درجہ بندی کی تھی۔ تاہم
اپنے اس کارنامے کی افادیت سے قطع نظر، مجھے 36,000 روپے فی تولہ سونا والے
اس دور میں ان سفید پوشوں سے دلی ہمدردی ہے جو نہ صرف اس سفاک معاشرے میں
زندہ ہیں بلکہ جیسے تیسے کر کے اپنا بھرم بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان سفید
پوشوں کو، مہنگائی کی حالت کے پیش نظر، اب کفن پوش کہنا زیادہ مناسب لگتا
ہے۔ ایسے ہی ایک ہنس مکھ نوجوان سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی جو کسی ادارے
میں گزشتہ 19سال سے کنٹریکٹ پر ملازم ہے۔ اس نے یہ ملازمت 2500 روپے ماہوار
پر شروع کی تھی اور اب اس کی تنخواہ 7000 روپے ہے۔ آخری دفعہ تنخواہ تین
سال پہلے بڑھی تھی …اور وہ بھی آٹھ سال کے بعد۔ اس کھلکھلاتی ہوئی ہنسی
والے نوجوان نے مجھے بتایا کہ کیسے اس نے اپنی چادر کے اندر رہتے ہوئے دو
لاکھ روپوں کی ایک کمیٹی ڈالی، جس سے اس نے اپنی ایک بہن اور بھائی کی شادی
کی، اور وہ خود اب تک اس کمیٹی کی قسطیں ادا کر رہا ہے۔ نوجوان کی بات سن
کر میں نے یہ حساب لگانے کی کوشش کی کہ اگر 7000روپے آمدن ہو تو اس میں سے
کتنے روپوں کی کمیٹی بآسانی ڈالی جاسکتی ہے جو دو لاکھ روپوں کی شکل میں
نکل آئے اور اس کے بعد ایک مقررہ مدت میں اس کی قسطیں بھی ادا کر دی جائیں؟
تاہم میرا حساب جواب دے گیا۔ نوجوان نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھے اور
زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگا کر بولا”سر! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں
نے آپ کو کس چکر میں ڈال دیا ہے …خیر، اسے چھوڑئے… میں آپ سے حساب کا ایک
اور دلچسپ سوال پوچھتا ہوں۔“ میں ہمہ تن گوش ہو گیا کہ شاید وہ مجھ سے
Binomial theorem پر بحث کرنا چاہتا ہے ۔کہنے لگا ”سر! جتنی میری تنخواہ ہے،
اتنے کا لوگ کسی ریستوران میں کھانا کھا لیتے ہیں، اس لئے اکثر لوگوں کو
میری یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ کا کرایہ صرف
پانچ روپے بڑھ جائے تو اس سے کسی سفید پوش کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے
ہیں؟ نیز اگر کسی دن بس میں دروازے کے ساتھ بھی جگہ نہ ملے اور آپ کو
90روپے دے کر رکشے میں آنا پڑے تو آپ کے جذبات کیا ہوں گے؟ اور یاد رہے کہ
اگر کسی دن آپ لیٹ ہو گئے اور مہینے میں تین دن ایسا ہوا تو آپ کی ایک دن
کی تنخواہ بھی کٹ جائے گی۔ اب ذرا حساب لگا کر بتائیے کہ میری ماہانہ آمدن
کتنی ہے اور خرچہ کتنا؟“میں نے غور سے اس نوجوان کی آنکھوں میں دیکھا جہاں
سوائے بے چارگی کے اور کچھ نہیں تھا۔ یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ سکول
کے زمانے میں حساب میرا پسندیدہ مضمون ہوا کرتا تھا اور Binomial theorem
مجھے زبانی یاد تھا لیکن اس نوجوان کا حساب سننے کے بعد خود مجھ سے بھی اس
کی آمدن اور خرچہ کیلکولیٹ نہ ہو سکا۔ آپ میں سے جن لوگوں کو میری طرح اس
”کیلکولیشن“ کی سمجھ نہیں آسکی، وہ بے شک اپنے آئی پوڈ پر کوئی اچھا سا
گانا سن لیں، دھیان بٹ جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سفید پوش لوگ معاشرے میں با عزت طریقے سے زندہ
رہ کر ایک جہاد کر رہے ہیں لیکن یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان کی
”جہادی کفایت شعاری“ کا ”مڈل کلاس کنجوسی“ سے دور تک کا بھی کوئی کوئی تعلق
نہیں۔ جس کنجوسی کا ذکر میں نے شروع میں کیا، ڈھٹائی اور کمینگی، اس کے
بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں اور ان خصائل کا مالک شخص امیر ہو یا غریب، مڈل
کلاس ہو یا اپر کلاس، اپنی چوّنی خرچ کرنے سے پہلے بھی دس ہزار مرتبہ سوچے
گا اور بالآخر خرچ نہیں کرے گا اور آپ کو ”مسڈ کال “ دے گا۔ لہٰذا اگر آ پ
کے مرد دوستوں کی فہرست میں کوئی ایسا شخص ہے جو”افورڈ “کرنے ( صاحب
استطاعت ہونے ) کے باوجود آپ کو ”مسڈ کالز“ دیتا ہے تو آج ہی اسے اپنے
دوستوں کی فہرست سے خارج کر دیں کیونکہ اس کے نزدیک آپ کی اوقات ایک روٹی
کی قیمت سے بھی کم ہے !
نوٹ:یہ مضمون ایک کرم فرما کی ”مسڈ کال “ سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ |