اسلام اور حقوق نسواں

This article explains the rights which Islam has given them. like right to live in mother's womb as well as after birth, right to education, marriage, inheritance etc.

 

تخلیقات آیات الہی میں طبقۂ نسوا ں بھی قدرت الہی کا ایک بہترین نمونہ اور مظہر آیت ربانی ہے، جس کے وجود سے دنیا میں رنگ ونور اور حیات انسانی میں بہار ہے۔ بقول شاعر مشرق ؂
وجود زن سے ہے تصویر کا ئنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عورت کا لغوی معنی ’’ڈھکی چھپی رہنے والی چیز‘‘ جیسا کہ محسن انسانیت ﷺ کا فرمان عالی شان ہے :
(( المرأۃ عورۃ فاذا خرجت أستشرفھا الشیطان )) ؎۱
‘‘ عورت پردہ کی چیز ہے ، جب وہ بے پردہ نکلتی ہے تو شیطان اسے اچک اچک کر دیکھتا ہے’’۔
اپنی تخلیق اور انسانی معاشرہ میں ،مرد کا جوڑا ہے۔ جیسا کہ محسن انسانیت ﷺ کا ارشادپاک ہے:
(( انما النساء شقائق الرجال )) ؎۲
‘‘عورتیں مردوں کی شقیقہ یعنی جوڑا ہیں’’ ۔
اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود کے زریں اصولوں کا ا مین ہے۔انسانی معاشرہ میں باہمی حقوق کا احترام اور اعلیٰ اقدار کا قیام اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔ دور جدید میں مغربی دنیا یا مغربی تہذیب سے متأثر زدہ حضرات بڑی بیباکی سے حقوق نسواں کو سرنامہ سخن بنا کر اسلام کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔اُسے انسانی تہذیب وتمدن کی چانج کا پیمانہ قرار دے کر قوم و ملت کی اعلیٰ قومی و حضارتی معیار کا تعین کرتے ہیں۔حالانکہ اسلام دنیا کی تنہا ایسی تہذیب ہے جس کے لیے حقوق نسواں ہر گز نیا تصور نہیں۔حق کا لفظ اسلام میں اتنا زیادہ عام و تام ،متداول ومتعارف ہے کہ اوسط درجہ سے لے کر اعلی فکری استعدادکے حامل شخص تک ہر فرد، حق کی معنویت و اہمیت سے بخوبی شناسا ہے۔
حقوق نسواں کے تعلق سے اسلام کا بنیادی تصور ، بنت حوا کے احترام وقار ،عظمت و تقدس پر مبنی ہے۔ قلم قدرت نے نوع انسانی کو دیگر تما م مخلوق پر افضلیت و برتری کا پروانہ عطا فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
((وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا)) ؎۳
’’اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوار کیااور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت
مخلوق سے افضل کیا‘‘۔ ۴؂


جو شرف و کرامت ، نوازشات و عطیات بنی آدم کو کارخانۂ قدرت الہیہ سے ہبہ ہوئیں ان میں مردوں کی طرح عورتیں بھی برابر کی حصہ دار ہیں۔تخلیقاً دونوں ایک ہی سر چشمہ سے فیض یافتہ ہیں لیکن فطرتاً دونوں کی نشو نما،طبعی وقلبی ر جحان،احساسات و جذبات،طاقت و قوت دو الگ غرض و غایت ، دو مختلف مقصد و منصب کی غمازی کرتے ہیں۔تاکہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ،اپنی مساعی جمیلہ سے ایسامعاشرہ تشکیل دیں جو اخوت و محبت ،غیرت وخود داری،طہارت و نفاست ،شرم و حیا، ایثار و قربانی ،شعور و بندگی ، فکر ونظر ،علم و ہنر کا ہمالیہ ڈیزائن کرنے میں معاون ومدگار ہو، جس کی عظمت شکستہ پرماضی کا انسان فخر و مباحت کے جوہر لٹا ے اور مستقبل میں اس کی بلند ہمتی کو منارۂ نور ماننے پر مجبور ہو جائے۔البتہ اجر و ثواب اور قربت الہی کی دوڑ میں بازی وہی مارے گا جو خشیت و رجاء اور تقوی و طہارت میں سب سے اعلی و اتم ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے:
(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ))۵؂
‘‘ اے لوگوں ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو۔بیشک اللہ کے یہاں
تم میں زیادہ عزت والا وہ ہےجو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے’’۔ ۶؂
اسلامی تعلیمات معتدل ، افراط و تفریط سے منزہ اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔ بہ اعتبار منصب و مقام جس طرح ذکور کو حقوق وفرائض ملے ، بعینہ صنف نازک بھی بے شمارحقوق و فرائض کی نعمتوں سے بہرور ہوئیں ۔اسلامی تعلیمات کامزید اہم وصف یہ ہے کہ اس میں حقوق و فرائض ، ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ یعنی جو ہم پر فرض ہے وہ کسی نہ کسی کا حق ہے، لہذا ہر قیمت پر اس کی ادائیگی لازم ہے۔اور جو ہمارا حق ہے وہ کسی کے ذمہ فرض ہے اور اس سے روگردانی ممکن نہیں۔ مثلاً نان و نفقہ بیوی کا حق اور شوہر پر فرض ہے۔حصول سکون شوہر کا حق اور بیوی پر فرض ہے۔
قبل اس کے کہ اسلام کے دامن رحمت میں عورتوں کو کیا اور کیسے حقوق ملے؟ عنان قلم اکناف عالم پر کریں اور جانیں کہ بعثت نبویﷺ سے قبل عورتوں کے حالات کیسے تھے؟ معاشرہ میں ان کا کیا وقاراور کس حیثیت کی مالک تھیں؟
بعثت نبوی سے قبل عورتوں کا کوئی تصور حیات نہ تھا ۔ایک وجودتھا مگر انسانی اقدار سے کوسوں دور اور معاشرتی وقار و اعتبارسے یکسر عاری سمجھا جاتا تھا۔ وہ وجود ، نحوست و قباحت کا علم تھا۔ اس کی نگہداشت و کفالت، باعث ندامت و شرمندگی متصور تھی۔اس کی کوئی اپنی مرضی تھی اور نہ ہی کسی چیز کی مالک۔ظلم و زیادتی سہنا جس کا مقدر اور مردوں کیلئے سامان نشاط بننا جس کا نصیبہ تھا۔گروی رکھی جانا،جوئے میں ہار ی جانا، بازا رمیں بیچی جانا ،بساوقات گھر کے اندر ہی اسکی عزت وعصمت کے سودے کئے جاناتہذیب وثقافت کی نشانی تھی۔شقاوت و بدبختی اس عروج پر جا پہونچی تھی کہ لوگوں کی نگاہ میں کائنات کی سب سے بدترین چیز کا نام عورت تھا۔ملک عرب میں پھول جیسی نازک ترین بچیوں کو بے رحم قبر کی بھینٹ چڑھاناعام شیوہ بلکہ فخریہ کارنامہ تھا ۔ یونانی فلسفی صدیوں تک عورت کے انسان ہونے پر بحث و مباحثہ کی مجلسیں سجاتے رہے۔رومی تہذیب میں عورت کو تمام برائیوں کی اساس قراردیاگیا۔فارسی اپنی سگی ماں ،بہن اور بیٹی سے استحساناً شادی بیاہ رجاتے تھے۔ اور ہندستان عورتوں پر ظلم و ستم کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی تحریک کاواقعہ ظہور پزیر ہوا۔جس نے انسان نما لوگوں کو انسان ،انسانوں کو باخلاق انسان، اور باخلاق انسانوں کو باالہ انسان بنا دیا۔نتیجۃً ایام جہالت کی بدترین شئ دور اسلام میں سب سے عمدہ شئ ہو گئی،اور اس نظریہ نے جنم لیا کہ:
((الدنیا کلھا متاع ، و خیر متاع الدنیا ، الامرأۃ الصالحۃ )) ۷؂
‘‘ساری دنیا سامان ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک بخت عورت ہے’’۔
(( أکمل المومنین ایماناً ، أحسنھم خلقاً وخیارکم لنساءھم ))۸؂
‘‘مسلمانوں میں کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھاہے ، اور تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں’’۔
انسانی شرافت و اقدار،اول درجہ کے شہریت ، معاشرہ میں عزت و قار کی زندگی،یہ وہ چیزیں ہیں جو اسلامی تحریک نے سب سے بنیادی طور پر صنف نازنین کو عطا فرمائی۔پھر ان کے حقوق و فرائض شمار کرائے ، حقوق کا تعین رحم مادر کی زندگی سے لے کر قبر کی گود تک کیا۔ ایک بیوہ جو ہندوانہ رسم و رواج کے تحت آگ کی خوارک یایہودی نقطۂ نظر سے دیور کی بے دام و بے زبان لونڈی سمجھی جاتی تھی، اسلامی انوار نے ان پر اس قدر ضیاء پاسیاں کی کہ وہ ام المومنین کے مقدس منصب تک جا پہونچی ۔محسن انسانیت ﷺ نے بیواؤں سے خود بھی شادی کی اور اپنے ماننے والوں کو زریں پیغام دیا :
(( الساعی علی الارملۃ و المسکین کالمجاہد فی سبیل اللّہ ))۹؂
‘‘ بیواؤں اورمسکینوں کی خبر گیری کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والے کی طرح ہے’’۔
ہم نے حیات نسواں کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے اور ان میں ان کے حقوق و فرائض کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا۔
پہلا دور:
عورت کی پیدائش سےبلوغت تک کا دور ’’بچپن‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ابتدائی زندگی کے نقوش خواہ فرحت و شادمانی کے ہوں یا حزن وملال کے، ہمیشہ گہرے اور پائیدار ہوتے ہیں،اور یہی ابتدائی نقوش مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں۔بنا بریں اسلامی تعلیمات نے اس دور میں پھول جیسی نازک بچیوں کی عمدہ کفالت و نگہداشت پر جنت کی پر بہار وادیوں میں محسن انسانیت ﷺ کی مقدس رفاقت کا وعدہ لیا ہے ۔حضرت انس راوی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیامۃ أنا و ھو و ضمّ اصابعہ )) ۱۰؂
‘‘ جس کی پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ وہ اور میں بالکل پاس پا س ہوں گے۔
یہ کہتے ہوئے محسن انسانیت ﷺ نے انگلیاں ملا کر دکھا ئیں اور فرمایا اس طرح’’۔
ایام جاہلیت میں بیٹیوں کی پیدائش پر صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی ، کچھ ننگ و عار کے باعث انہیں زندہ در گور کر دیتے اور جو بچ جاتیں وہ گھر والوں کی الفت و محبت، عمدہ تعلیم و تربیت اورحسن سلوک سےیکسر محروم رہتی تھیں۔لوگ اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں پر ترجیح دیتے تھے، اسلام نے ان تمام تفریقات کو نیست و نابود کیااور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت اور حسن سلوک کو پروانہ جنت قرار دیا۔
(( من کانت لہ انثی فلم یؤذھا و لم یھنھا ولم یؤثر ولدہ (یعنی الذکور) علیھا ادخلھا اللہ الجنۃ))۱۱؂

‘‘جس کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی پھر اس نے نہ تو اس کو زندہ دفن کیا،نہ بے وقعت سمجھااورنہ ہی اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دی
تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔
محسن انسانیت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
(( من کانت لہ اِبنۃ فادّبھا و أحسن أدبھا و علمھا فأحسن تعلیمھا و أوسع علیھا من نعمۃ اللّہ التی اّوسع علیہ )) ؎۱۲
‘‘جس کسی کے بیٹی ہو ، وہ انہیں عمدہ ادب سکھائے اور بہترین تعلیم دلائے اور اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو اس پر وسیع کر دے’’۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ محسن انسانیت ر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( من کان لہ ثلاث بنات ، فصبر علیٰ لأواءھنّ و ضراءھنّ و سراءھنّ ، ادخلہ اللّہ الجنۃبرحمۃ ایاھنّ ، فقال رجل:
واثنتان یا رسول اللّہ ﷺ ؟ قال: و اثنتان ، قال رجل یا رسول اللّہ ﷺ ! وواحدۃ؟ قال وواحدۃ ))۱۳؎
‘‘ جس کسی کے تین لڑکیاں ہوں اوروہ شخص ان کی تکلیف اور معاشی پریشانیوں پر صبر کرے تو ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی وجہ سے
اللہ تعالیٰ اسے جنت عطافرمائے گا۔اس پر کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ ﷺ! اگر کسی کے دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا
سلوک کرے تو؟فرمایا:دو لڑکیاں ہو ں تو بھی( اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا )۔پھر کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ ﷺ !اگر ایک ہی ہو ؟
آپ نے ارشاد فرمایا:گرچہ ایک ہی ہو( تو بھی اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا)’’۔
دوسرا دور:
یہ دور منزل بلوغ سے شروع ہوکر نکاح پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔اسلام نے ان کے والدین یا والیوں کو حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک و حسن معاملات سے پیش آئیں ،انہیں نفیس تعلیم وتربیت سے آراستہ و پیراستہ اور مناسب رشتہ دیکھ کر شادی کر دیں ۔اس کے صلہ میں اللہ تعالی انہیں جنت جیسی لا زوال نعمت سے بہرور فرمائیگا ۔محسن انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( من عال ثلاث بنات ، فأنفق علیھنّ ، فأدبھنّ ، و أحسن الیھنّ ، و زوجھنّ فلہ الجنۃ ))۱۴؎
‘‘جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی ، انہیں ادب سکھایا ، ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کی شادی کرد دی ، تو اس کے لیے جنت ہے’’۔
اسلام کی اہم خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے لڑکیوں کو اپنے ہونے والے شوہر کے انتخاب کا پوارا حق دیا ہے ،چونکہ زندگی تو انہیں ہی گزارنی ہے لہذاباپ ،دادا اور چچا کو اختیار نہیں دیا کہ اُس کی مرضی کے خلاف جہاں چاہیں اور جس کو چاہیں، اس کا ہم سفر بنا دیں۔حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا:
(( لا تنکح الأیّم حتی تستامرولا تنکح البکر حتی تستاذن ، قالوا یا رسول اللّہ ﷺ و کیف اذنھا؟ قال: ان تسکت )) ۱۵؎


‘‘بے نکاحی عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ ہی باکرہ کا یہاں تک کہ اجازت لے لی جائے، صحابہ نے عرض کیا :
یا رسول اللہ ﷺ!اس کی اجازت کیسے ہوگی؟ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا:وہ خاموش ہو جائے ’’۔
تیسرا دور:
مابعد نکاح اس کی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے جس کی میعاد ماں کے عظیم منصب پر فائز ہونے تک ہے۔ اسلام نے اسے اس دور میں اس قدر حقوق عطا فر مائے جس کی مثال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔
حکیم بن معاویہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں؟ محسن انسانیتﷺنے فرمایا:
(( اِن تطعمھا اِذا طعمت ، و تکسوھا اِذا اکتیست ، ولا تضرب الوجہ ، ولا تقبح ، ولا تھجر الا فی البیت ))۱۶؎
‘‘جب خود کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ ، خود کپڑے پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اور اس کے چہرہ پر مت مارو، نہ اسکے ساتھ بدزبانی سے
پیش آؤ اور نہ اسے اپنے گھر کے سوا کہیں چھوڑ و ’’۔
اسلامی نقطۂ نظر سے نکاح و شادی کا مقصد، انسانی جبلت و خواہشات کی سماجی و اخلاقی اعتبار سے تکمیل اور نسل انسانی کی افزائش ہے ۔ ما بعد نکا ح زوجین کے آپس میں ملنے سے قبل شوہرپر ادائیگی مہر واجب ہے ۔مہر ادا نہ کرنے کی صورت میں عورت کو مکمل اختیار ہے کہ شوہر کو قریب نہ آنے دے(یہ اس صورت میں ہے جبکہ نکاح میں مہر معجل طے پایا ہو)۔ ارشاد خداوندی ہے:
(( وَأُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِکُم مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیْضَۃً )) ۱۷؎
‘‘اور ان کےسوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو۔ قید لاتے نہ پانی گراتے ۔ تو جن عورتوں کو نکاح میں
لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو ’’۔ ۱۸؎
مابعد نکاح عورت شوہر کے گھر کی مالک ہوتی ہے۔شوہر اور اس کے گھر کی دیکھ بھال بیوی کا فرض اوربیوی کی دیکھ بھال ، نان ونفقہ ،نیک سلوک ، پیار و محبت، جائز حاجات وخواہشات اور جنسی تسکین کی تکمیل ،بیوی کا حق اور شوہر پر فرض ہے جس سے انحراف کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے ادائیگی حقوق نسواں پرکس قدر تاکید فرمائی ہے ؟ ملاحظہ ہو:
(( اِتقوا اللّہ فی النساء فانکم أخذتموھنّ بأمانۃ اللّہ)) ۱۹؎
‘‘اللہ تعالی سے عورتوں کے معاملہ میں ڈرو ، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت میں لیا ہے’’۔
شوہر و بیوی دونوں ایک دوسرے کے ہم راز اور ایک دوسرے کی ضرورت ہوا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل آیت قرآنی میں مردو زن کو ایک دوسرے کا لباس فرماکر تعلقات کی نزاکت و معنویت کو جو وسعت و جامعیت عطا کی گئی ہے وہاں تک انسانی عقل وشعور کی رسائی دم توڑ دیتی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
(( ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُن )) ۲۰؎
‘‘وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس’’۔۲۱؎
اسلامی نقطۂ نظر سے ملکیت طلاق مرد کو اور حق خلع عورت کو حاصل ہے۔ اگر زوجین کے درمیان عرصۂ حیات تنگ ہو جائے اور باہمی تعاون والتفات کے ساتھ نباہ مشکل ہو جائے تو مرد طلاق دینے یا بیوی خلع حاصل کرنے کی مجاز ہو گی۔مرد اپنے اختیار کے غلط استعمال پر ماذون ہے اور نہ عورت۔محسن انسانیت ﷺکا فرمان ہے:
((أبغض الحلال عند اللّہ الطلاق)) ۲۲؎
‘‘ حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ شئ اللہ تعالی کے نزدیک طلاق ہے’’۔
دوسری روایت میں کچھ اس طرح ارشاد ہو تا ہے:
(( أیّما اِمرأۃ سألت زوجھا الطلاق ما بأس ، فحرام علیھا رایحۃ الجنۃ )) ۲۳؎
‘‘جو عورت بلا کسی عذر شرعی کے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘۔
حق خلع کے جواز کی چند صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:
* بوقت نکاح عورت اپنے لئے طلاق کا حق رکھے اور اس پر شوہر کی موافقت ہو۔
* جب شوہر کی مخالفت کے باعث اپنے نفس پر نافرمانی کے گناہ میں پڑنے کا خوف ہو۔
* اس سے شوہر کا سلوک برا ہو یعنی شوہر اس بیچاری پر اس کے دین یا جان کے بارے میں ظلم روا رکھے ۔
* شوہر جنسی تعلق پر قادر نہ ہواور عورت معاملہ عدالت کے سپرد کرے ۔قاضی علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دے گا۔ اگر وہ جنسی
تعلق پر قادر ہو گیا تو مبارک ورنہ علیحدگی۔
* شوہر مجنون ہو جائے یا اسے برص یا جزام (کوڑھ) کی بیماری لاحق ہو جائے ۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی صورت کا رونما ہونا عورت کو مطالبۂ طلاق یا خلع کا حقدار ثابت کرتا ہے ۔عورت،شوہر کو مال و زر ،زمین و جائداد کے عوض یا کسی بھی طرح طلاق پر رضامند کر لے۔اور اگر شوہر راضی نہ ہو تو بیوی اپنا معاملہ قاضی کے سپرد کر کے ، ضابطہ کے مطابق طلاق لے سکتی ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَیْتُمُوہُنَّ شَیْاً إِلاَّ أَن یَخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ
عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ )) ۲۴؎
‘‘اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لومگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے ،
پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے ’’۔۲۵؎
عورت کی دنیا کے موروثی نظام میں شمولیت اٹھارہویں صدی عیسوی کے بعد عمل میں آئی جبکہ اسلام نے چھٹی صدی عیسوی میں ہی بیٹی ، بہن ،بیوی اور ماں کی حیثیت سے وراثت میں حصہ دار ٹھرایا اور ان کا ایک مستقل وجود تسلیم کیا۔ارشاد خداوندی ہے:
(( وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوض)) ۲۶؎
‘‘اورعورتوں کیلئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہویا بہت حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا’’۔ ۲۷؎
چوتھا دور:
دور رابع کی ابتداء ماں کے مقدس منصب پر جلوہ گری سے لے کر دنیا کو خیراباد کہنے تک ہے۔زندگی کے اس اہم اسٹیج پر اسلام نے اس کے تقدس کا بے پناہ خیال رکھا ہے۔قرآن میں ذات باری تعالی کی وحدانیت و بزرگی کے فوراً بعد والدین کی تعظیم و تکریم اور ان سے عقیدت و محبت کاحکم ہے۔ارشاد خداوندی ہے:
(( وَاعْبُدُواْ اللّہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْئاً وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً )) ۲۸؎
‘‘اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹہراؤاور ماں باپ سے بھلائی کرو’’۔ ۲۹؎
اوردوسری جگہ فرماتا ہے:
(( وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ
وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما )) ۳۰؎
‘‘اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجواور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اوراگر تیرے سامنے ان میں
سے ایک یا دو نوں بڑھاپے کو پہونچ جائیں تو ان سے ’’ہوں‘‘ نہ کہنااور نہ انہیں جھڑکنااور ان سے تعظیم کی بات کہنا’’۔۳۱؎
اہمیت و عظمت امہات پر امام بخاری کی روایت پڑھ کر دل عش عش کرتا ہے اور قلب خاطر ہوتاہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے عورتوں کو کتنی عظمتوں کا حامل بنایا ہے۔امام بخاری رویت کرتے ہیں کہ ایک صحابی بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر آئے اور عرض گزارہوئے:
(( من أحق بحسن صحبتی؟قال: امک ، قال ثمّ من؟ قال: امک ، قال: ثمّ من ؟قال: امک ، قال: ثمّ من؟قال: ابوک )) ۳۲؎
‘‘یا رسول اللہ ﷺ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا: تیری ماں ۔پھر کون ہے ؟ فرمایا:تیری ماں۔پھر کون
ہے؟فرمایا:تیری ماں۔پھر کون ہے؟ فرمایا: تیرا باپ ’’۔
محسن انسانیت ﷺ کی حقوقی سرگرمیوں نے امہات کوناقدر ی وبے قیمتی کے عظیم دلدل سے نکالااور اس درجہ باوقار بنا یا جس کی مثال کوئی قانون نہ تب لا سکا تھا اور نہ آج ۔ کسی نے مال وراثت کا حصہ گِناجبکہ اسلام نے مال وراثت میں حصہ دارٹھرایا۔کسی نے برائی کی اساس کہالیکن اسلام نے نیکی کی منزل جنت، اس کے قدموں میں ڈال دی۔غور کریں!جب اسلامی نقطۂ نظر سے ’’ہوں ‘‘ یا ’’اُف ‘‘ کہنے کی مناہی ہے تو ڈانٹے، سب و شتم کرنے ، گھر سے نکالنے یا مارنے پیٹنے کی ممانعت کس قدر شدید ہوگی؟اور اس زمرۂ تعظیم وتوقیر میں صرف مسلمان عورتیں ہی نہیں بلکہ کافرہ اور مشرکہ بھی داخل ہیں ۔ بوڑھے والدین کو یتیم خانوں کے حوالہ کر کے اپنی تہذیب کی عمدگی کے دعویداراگر اسی کو حقوق نسواں کا حصہ خیال کرتے ہیں تو انہیں مبارک تاہم ہم تواس نازک موڑ پر ان کی خدمت و اطاعت ،تعظیم و توقیر کرکے حقوق صنف نازک کا صحیح تصور پیش کرتے ہیں ،خالق کائنات کی رضا حاصل کرتے ہیں اور ساکنان جنت کی فہرست میں اپنا نام درج کرواتے ہیں۔

قارئین کرام !غور کریں کیامثل اسلام دنیا کے کسی دوسرے مذہب ، آئین و دستور نے عورتوں کو اس قدر حقوق ،عزت و احترام عطا فرمائے ہیں؟ دنیا کی پوری تاریخ اورمذاہب عالم کاپورا دستور آپ کے پیش نظر ہے۔فیصلہ آپ کے ہاتھ ۔تاہم اتنی پیشین گوئی ضرور کروں گا کہ آپ کی تحقیق بھی انہیں جملوں پراختتام پزیر ہوگی :
‘‘عورت کے حقوق و فرائض کی حفاظت جس طرح محمدﷺ نے کی ، اس کی مثال دنیا کی پوری قانونی تاریخ میں نہیں ملتی۔
محمدﷺ نے عورت کو وہ مقام عطا کیا ہے جو آج یورپ کے مارڈن سماج میں بھی اسے حاصل نہیں ہے’’۔۳۳؎


ماخذو مراجع
۱؂ ترمذی: ۲؍۴۷۶ حدیث نمبر: ۱۱۷۳ ؎۲۴ البقرۃ ؍۲۲۹
۲؂ ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب الرجل یجد البلۃ ۲۵ ؎ کنز الایمان
۳؂ بنی اسرائل ؍۷۰ ۲۶؎ النساء ؍۷
۴؂ کنز الایمان ۲۷ ؎ کنز الایمان
۵؂ حجرات ؍۱۳ ۲۸؎ النساء؍۳۶
۶؂ کنز الایمان ۲۹؎ کنز الایمان
۷؂ نسائی: ۶؍۶۹ حدیث نمبر: ۳۲۳۲ ۳۰؎ بنی اسرائل؍۲۳
۸؂ ترمذی:۳؍۴۶۶ حدیث نمبر:۵۱۴۶ ۳۱؎ کنز الایمان
۹؂ بخاری:۵؍۲۲۳۷حدیث نمبر:۵۶۶۱ ۳۲؎ بخاری:۳؍۸۲۰ حدیث نمبر:۹۱۱
۱۰؂ مسلم: ۴؍۲۰۲۷ ۳۳؂ خطبات اسلام؍۱۳۷
۱۱؂ مشکوۃالمصابیح ؍۴۲۲
۱۲؎ المعجم الکبیر:حدیث نمبر:۱۰۴۴۷
۱۳؎ المستدرک للحاکم: ۴؍۱۷۶
۱۴؎ ابوداؤد؍۵۱۴۷
۱۵؎ مسلم: ۲؍۶۲۶ حدیث نمبر: ۹۷۹
۱۶؎ ابوداؤد:۱؍۶۵۱ حدیث نمبر:۲۱۴۲
۱۷؎ النساء؍۲۴
۱۸؂ کنز الایمان
۱۹؎ ابوداؤد: ۲؍۱۸۵حدیث نمبر: ۱۹۰۵
۲۰؎ البقرہ؍ ۱۸۷
۲۱؎ کنز الایمان
۲۲؎ ابوداؤد : ۲؍۲۵۵ حدیث نمبر ۲۱۷۸
۲۳؎ مسند امام احمد: ۵؍۲۷۷ حدیث نمبر : ۲۲۴۳۳
 

Mohd Hasan
About the Author: Mohd Hasan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.