داڑھی کی شرعی حیثیت ۔ جاوید احمد غامدی کو جواب

داڑھی کی شرعی حیثیت ۔ جاوید احمد غامدی کو جواب

داڑھی رکھنا یہ دین کاکوئی حکم نہیں ہے لہٰذا اگرکوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی فرض اور واجب کاتارک ہے یا اس نے کسی حرام یا ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ پر جو کچھ فرمایاہے وہ داڑھی رکھنے کی ہدایت نہیں ہے بلکہ اس بات کی ممانعت ہے کہ داڑھی اور مونچھیں رکھنے کی کوئی ایسی وضع اختیار نہیں کرنی چاہیئے جو متکبرانہ ہو کیونکہ تکبر ایک جرم ہے۔ )جاوید غامدی کا ایک ویڈیو کلپ (

یہ نظریہ ہے نام نہاد جاویداحمد غامدی صاحب کا ۔ موصوف نے جہاں اور دین کے مسلمات سے انکار کیا ہے اور جمہور اہل السنت والجماعت کے موقف سے عملاً دستبرداری اختیار کی ہے وہاں پر داڑھی کے اجماعی مسئلے کو بھی بے وقعت کر نے کی مذموم کوشش کی ہے ۔

آزاد خیالی کی اس دنیا میں موصوف نے جن متفقہ عقائد اور مسائل کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے ہم ان شاء اللہ وقتا فوقتا اس پر بادلائل گفتگو کرتے رہیں گے اور موصوف کے باطل نظریات پر مشتمل عنقریب ایک تفصیلی کتاب امت کے حوالے کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں ۔

آج کل کے ”دانشور“ جن کا علمی اور عملی سلسلہ خود انہیں بھی معلوم نہیں ہے وہ داڑھی کے مسئلہ میں اعتقاداً وعملاً بہت افراط وتفریط سے کام لے رہے ہیں ۔ غامدی صاحب کی طرح بلکہ ان سے بھی ایک قدم بڑھ کر جناب مودودی صاحب کا نظریہ بھی داڑھی کے بارے میں وہ نہیں جو کتاب و سنت سے ملتا ہے بلکہ وہ اس اجماعی مسئلے کو بھی بدعت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اسےواجب توکجا اسے سنت ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ بڑی داڑھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے مگر شرعی حکم پر نہیں بلکہ ایک عادت کے طور پر۔

چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو غلط بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں جو بالعموم آپ حضرات کے ہاں رائج ہیں آپ کا یہ خیال کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑی داڑھی رکھنا سنت رسول یا اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے ، یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ آپ عادت رسول کو بعینہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوٹ کیے جاتے رہے ہیں ۔ مگر میرے نزدیک صرف یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کے اتباع پر زور دینا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک خطرناک تحریف دین ہے جس سے نہایت برے نتائج پہلے بھی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہونے کا خطرہ ہے ۔ نیز یہ بھی لکھتے ہیں کہ مجھے سخت افسوس ہے کہ بڑے بڑے علماء خود حدود شرعیہ کو نہیں سمجھتے اور ایسے فتوے دیتے ہیں جو صریحا حدود شرعیہ سے متجاوز ہیں ۔
(ترجمان القرآن مارچ تا مئی، جون 1946ء ص 179 بحوالہ مجموعہ رسائل قاضی مظہر رحمہ اللہ)

قارئین کرام!اپنی جماعت کا رشتہ اسلام سے نتھی کرنے والوں کا نظریہ آپ نے دیکھ لیا اور اب ملاحظہ کیجیے ان لوگوں کا نظریہ جو اپنی نسبت حدیث کے مقدس عنوان سے مشہور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں : ان کا موقف یہ ہے کہ داڑھی طولاً وعرضاً جتنی بڑھتی ہے بڑھنے دیں، جدھر جاتی ہے جانے دیں اور وہ اس کو شرعی داڑھی قراردیتے ہیں اور مشت بھر داڑھی کو وہ غیر شرعی سمجھتے ہیں۔

دارالحدیث محمدیہ ملتان سے شائع ہونے والے داڑھی سے متعلقہ اشتہار میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک مشت داڑھی کے شرعی حکم اور سنت شرعیہ ہونے کے یہ تینوں منکر ہیں ۔پہلا کہتاہے کہ داڑھی؛” حکم دین“ ہی نہیں ہے۔دوسرا کہتاہے کہ بڑی داڑھی رکھناعادت ہے،”سنت نہیں“اورتیسرا اس کے ایک مشت سے زائدکے کاٹنے کو” غیر شرعی“ کہتاہے۔

افراط وتفریط کی ان گھاٹیوں سے بہت دور اہل السنۃ والجماعۃ کا مسلکِ اعتدال اور روشن راستہ دیکھیے جس پر آپ کو امت اسلامیہ کا جم غفیر چلتا ہوا نظر آئے گا ۔ اہل السنت والجماعت کاموقف یہ ہے کہ کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔ اس کو جو سنت کہاجاتاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کا حکم سنت سے ثابت ہے یا یہ مطلب ہے کہ داڑھی رکھنا شرعی طریقہ ہے کیونکہ سنت کا ایک معنیٰ طریقہ بھی آتا ہے۔ لہٰذا داڑھی کو سنت لکھنے اور کہنے سے یہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ”واجب“ نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ اور تمام علمائے اہل السنۃ والجماعۃ کا اتفاق ہے کہ کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا ”واجب“ ہےاور ایک مشت سے کم داڑھی نا جائز اور حرام ہے اس سلسلے میں چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
1: عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خالفوا المشرکین اوفروا اللحیٰ واحفوا الشوارب۔ (بخاری :ج2 ص875)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ مونچھیں کٹاؤ۔

امام ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :فی حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عند مسلم خالفوالمجوس وھوالمراد فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فانہم کانوا یقصون لحاہم ومنہم من کان یحلقہا۔)فتح الباری ج10 ص 429(

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث امام مسلم رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے اس میں خالفوالمشرکین کی بجائے خالفوالمجوس کے الفاظ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی داڑھیوں کو مونڈتے تھے ۔

2: عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس۔ ) صحیح مسلم ج 1 ص 129(

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
3: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ (صحیح مسلم: ج 1 ص 129)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں ان میں مونچھوں کو کٹانا اور داڑھی کو بڑھانا۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: معناہ انہا من سنن الانبیاء اس کامعنی یہ ہے کہ دس چیزیں انبیاء کے سنتوں میں سے ہیں۔

نیز امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحصل خمس روایات، اعفوا، واوفوا، وارخوا، وارجو، ووفروا۔ (شرح صحیح مسلم: ج 1 ص 129)

خلاصہ یہ ہے کہ روایات میں داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور پانچوں قریب المعنی ہیں یعنی داڑھی بڑھاؤ اور یہ پانچوں امر کے صیغے ہیں اور تمام علماء حقہ کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے اگرداڑھی رکھنا محض عادتاً تھا اور دین کا حکم نہیں تھا تو امت کو اتنی تاکید کے ساتھ حکم دینے کا کیا مطلب؟؟

4: عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاخذ من لحیتہ من عرضہا وطولہا۔ (جامع ترمذی: ج 2 ص 105)

ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لمبائی اور چوڑائی سے اپنی داڑھی کے کچھ بال لے لیتے تھے۔نیز اس میں حج وعمرے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

5: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعث بکتابہ مع رجل الیٰ کسریٰ ……ودخلا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد حلقا لحاھما و اعفیا شواربھما فکرہ النظر الیہما وقال ویلکما من امرکما بہذا؟ قالا امرنا ربنا یعنیان کسریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی(البدایۃ والنہایۃ: ج 2 ص 662، حیاۃ الصحابۃ: ج 1 ص 115)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قاصد کو شاہ ایران کی طرف پیغام دے کر بھیجا…………… شاہ ایران کے دو قاصدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمہیں یہ شکل بگاڑنےکا کس نے حکم دیاہے؟ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایاہے۔
6: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ۔۔ ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب ۔ ) مسند الفردوس ج 4 ص 157 رقم الحدیث 6488(

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کے لیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے خوبصورتی بخشی ۔

اس کے علاوہ بھی اس مضمون کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات قدر مشترک طور پر سامنے آتی ہے کہ جو لوگ مشت بھر داڑھی نہیں رکھتے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی مخالفت کر کے مشرکین اور مجوسیوں کے طرز کو اپنائے ہوئے ہیں کل قیامت کے دن خداوند قہار کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائیں گے؟ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھ لیا کہ کیا تمہیں میری شکل و صورت سے مشرکین و مجوسیوں کی تہذیب زیادہ پسند تھی؟اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا تو کس ذات سے شفاعت کی امید رکھیں گے؟ ان تمام نصوص کے پیش نظر فقہاء امت اس بات پر متفق ہیں کہ داڑھی کم از کم مشت بھر رکھنا واجب ہے یہ اسلام کا شعار ہے اور اس کا بالکل منڈانا یامشت بھر سے کم کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
آثار صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ:

1: عن نافع کان ابن عمر رضی اللہ عنہما اذا حج او اعتمر قبض علی لحتیہ فما فضل اخذہ۔ (صحیح بخاری: ج 2 ص 875)

ترجمہ: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرلیتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے اور زائد بالوں کو کاٹ دیتے۔

پہلے حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے داڑھی بڑھانے کا حکم نقل فرمایا پھر اس کی مقدار خود اپنے عمل سے بتائی ہے۔ممکن ہے کہ اس حدیث کو پڑھ کرکسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل عام نہیں بلکہ حج اور عمرہ کے ساتھ خاص ہے۔

اس بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: الذی یظہر ان ابن عمر کان لایخص ہذا التخصیص بالنسک بل کان یحمل الامر بالاعفاء علی غیر الحالۃ التی تتشوہ فیہا الصورۃ بافراط طول شعر اللحیۃ اوعرضہ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری : ج 10 ص 430)

ترجمہ: ظاہر بات ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے اس عمل کو حج اور عمرہ کے ساتھ خاص نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ داڑھی بڑھانے کے حکم کو اس حالت پر محمول کرتے تھے جس میں داڑھی لمبائی چوڑائی میں اس قدر بڑھی ہوئی نہ ہو کہ بد صورت اوربدنما لگنے لگے ۔

2: عن ابن عمر رضی اللہ عنہما انہ کان یقبض علیٰ لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضۃ۔ (کتاب الآثار لامام محمد: ص 203)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمااپنی داڑھی کے بالوں کو مٹھی میں لیتے اور زائد بال کاٹ دیتے تھے۔

3: عن ابی زرعۃ قال کان ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یاخذ مافضل من القبضۃ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 6 ص 108)

ترجمہ: حضرت ابو زرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے پھر جو مٹھی سے زائد بال ہوتے ان کو کاٹ دیتے۔

4: عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ ان یؤخذ منہا۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 6 ص 109)

ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین داڑھی کے ایک مشت سے زائد بالوں کے کاٹنے کی اجازت دیتے تھے۔

5: عن ابراہیم قال کانوا یطیبون لحاہم ویاخذون من عوارضہا ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج 6 ص 109)

ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی داڑھیوں کوخوشبو لگاتے اور ان کی چوڑائی سےبال کاٹ لیتےتھے۔
اقوال فقہاء اور داڑھی کا وجوب ومقدار
فقہاء احناف:

1: واماالاخذ منہا وہی دون ذالک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد۔

(فتح القدیرشرح ہدایہ : ج 2 ص 270)

ترجمہ: داڑھی کے بال کاٹ کر اس کو ایک مشت سے کم کرنا جیسا بعض مغربی اور مخنث لوگ ایسا کرتے ہیں اس کو کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا۔

2: یحرم علی الرجل قطع لحیتہ وفیہ السنۃ فیہا القبضۃ(در مختار: ج 4 ص 223)

ترجمہ: مرد کےلئے داڑھی کا کاٹنا حرام ہے اس کی مسنون مقدار ایک مشت ہے۔

3: شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں: حلق کردن لحیہ حرام است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است۔ (اشعۃ اللمعات : ج 1 ص 228)

ترجمہ: داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار اس کو بڑھانا واجب ہے۔

4: خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اما قطع ما دون ذالک فحرام اجماعا بین الائمہ ۔ (فیض الباری: ج 4 ص 380)

[داڑھی ]ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے اور اس پر ائمہ کا اجماع ہے۔
فقہ شافعی:

محدث عبدالروف مناوی شافعی لکھتے ہیں : اعفاءا للحیہ و ترکہا متی تکثر بحیث تکون مظہرا من مظاہر الوقار فلا تقصر تقصیرا یکون قریبا من الحلق ولا تترک حتیٰ تفحش بل یحسن التوسط فانہ فی کل شیئ حسن ۔ )فقہ السنۃ ج 1 ص 38(

ترجمہ : داڑھی کو بڑھانا اور اس کو چھوڑنا یہاں تک کہ داڑھی زیادہ ہو جائے لیکن ایسے طور پر کہ پروقار نظر آئے اور اتنی مقدار تک نہ کاٹے کہ مونڈی ہوئی دکھائی دینے لگے ۔اور اس قدر لمبی بھی نہ ہونے دے کہ بدنما لگنے لگے بلکہ درمیانی [ مشت بھر ] داڑھی رکھے کیونکہ ہر چیز میں اعتدال بہتر ہے ۔
فقہ مالکی:

فقہ مالکی کے نامور محدث اور فقیہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یکرہ حلقہا وقصہا وتحریقہا واما الاخذ من طولہا وعرضہا فحسن وتکرہ الشہرۃ فی تعظیمہا کما تکرہ فی قصہا وجزہا۔ (شرح مسلم للنووی: ج 1 ص 129)

ترجمہ: داڑھی کو مونڈنا اور زیادہ کانٹ چھانٹ کرنا مکروہ ہے البتہ اس کے طول وعرض سے کچھ بال کاٹ لینا بہتر ہے اور جیسا کہ داڑھی زیادہ کاٹناچھانٹنا مکروہ ہے ایسے ہی لمبی داڑھی میں شہرت بھی مکروہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک مشت سے کم اور زیادہ خلاف سنت اور ایک مشت سنت کے مطابق ہے۔
فقہ حنبلی :

الشیخ منصور بن یوسف حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ویعفی لحیتہ ویحرم حلقہا۔
(الروض المربع: ج 1 ص 19، مختصر المقنع :ص 96)

ترجمہ: داڑھی کو[ مسنون مقدار تک]بڑھانا ضروری اور اس کا منڈا نا حرام ہے۔

ان تمام حوالہ جات سے یہ ثابت بات واضح ہوگئی کہ مسنون مقدار داڑھی رکھنا واجب اور منڈوانا حرام ہے۔

اس لیےنام نہاد اسکالرجناب غامدی صاحب،مودودی صاحب اور غیر مقلدیت کا فتنہ قرآن وسنت اور جمہور صحابہ و ائمہ اسلاف کو چھوڑ کر گمراہی پر گامزن ہیں اللہ تعالیٰ ان کے وساوس اور مکر وفریب سے امت محمدیہ کی حفاظت فرمائے ۔

Ahmad Hameed Zohra
About the Author: Ahmad Hameed Zohra Read More Articles by Ahmad Hameed Zohra: 19 Articles with 17630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.