محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہ کا
عربی مقالہ”موقف التشریع الاسلامی من الاجتھاد و منصب العقل فی الدین “کے
عنوان سے ادارہ تحقیقات اسلامی راولپنڈی کی بین الاقوامی کانفرنس13,12,11ذی
القعدہ 1387 ھ کے لیے لکھا گیا تھا ۔مقالہ چونکہ تاخیر سے تیار ہوا تھا اس
لیے وہاں نہیں پڑھا گیا ،البتہ اس کا خلاصہ زبانی بیان کر دیا گیا تھا ، اس
کا ترجمہ ہدیہ قارئین ہے ۔
یہ ”اجتہاد“کے موضوع پر مختصر سا مقالہ ہے ۔میں اس وقت موضوع سے متعلقہ
تمام مباحث پر مفصل بحث کا ارادہ نہیں رکھتا مثلا"اجتہاد"کی لغوی تحقیق
،اجتہاد کے معانی ، حکم،ارکان ،شرائط،اقسام ،حجیت اجتہاد پر دلائل اور اس
قسم کی اور طویل بحثیں جن سے تمام ائمہ مذاہب کے اصول فقہ کی کتابیں بھری
پڑی ہیں ۔چنانچہ ان اکابر نے کسی چھوٹی بڑی بحث کو نہیں چھوڑا جس کی کماحقہ
تحقیق وتنقیح نہ کر ڈالی ہو۔ یہ سلسلہ اسلام کےقدیم دور سے لے کر علمی دور
کے آخری سرے تک جاری رہا ہے ۔بلاشبہ یہ امت اسلامیہ کی مایہ فخر دولت ہے
،جس سے نہ بحث و تفقہ کا طالب علم مستغنی ہے ، نہ عصری مسائل کے حل کا مدعی
اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے ۔چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے
تلمیذ رشید قاضی القضاۃ ابو یوسف رحمہ اللہ کے دور سے، پھر امام شافعی رحمہ
اللہ ،امام طحاوی رحمہ اللہ ، جصاص رحمہ اللہ ، رازی رحمہ اللہ ،
ابوزیدرحمہ اللہ ، دبوسی رحمہ اللہ ،فخر بزدوی رحمہ اللہ ،امام غزالی رحمہ
اللہ کے دور سے امام رازی رحمہ اللہ اور امام آمدی رحمہ اللہ کے دور تک اور
ان کے دور سے امیر کاتب الاتقا نی رحمہ اللہ حنفی کے دور تک اسلامی کتب
خانے میں اصول فقہ پر اتنا بڑا ذخیرہ وجود پذیر ہوا جس سے عقل حیران رہ
جاتی ہے۔آج کی فرصت میں میرے پیش نظر صرف یہ ہے کہ محققین اہل علم کی توجہ
مسائلِ حاضرہ اور جدید مشکلات میں اجتہاد کے اہم اصولوں کی طرف مبذول کراؤں
،کیونکہ نئے تمدن نے نئے مسائل کو جنم دیا ہے اور ان میں بہت سی چیزیں ایسی
نظر آتی ہیں جنہیں قواعد شرعیہ اور فقہ اسلامی کے مطابق ڈھالنا ہماری پہلی
ضرورت ہے ۔ہمارا ایمان ہے کہ دین اسلام تمام ادیان کے لیے خاتم اور قیامت
تک کی ضرورت کا کفیل ہے ۔چنانچہ کتاب وسنت اور ان سے متعلقہ علوم وہ فیاض
چشمے ہیں جن سے حل مسائل کے سوتے ابلتے ہیں۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم و
تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کا طریق کار ہمارے لیے روشنی کا مینار
ہے ۔ان حضرات نے اجتہاد کیااور جن اصول کے احکام نص سے ثابت تھے ان پر غیر
منصوص کو قیاس کیااور نصوس کے حکم کو فروع وحوادث اصول شرعیہ میں سے ایک
اصول قرار پایا ،جس سے تفقہ فی الدین کا دائرہ وسیع ہوا ،ہم اس حق میں نہیں
کہ اس دائرے کو تنگ کر دیا جائے ،یا دین خداوندی کے ان فیاض چشموں کو بند
کر دیا جائے ،کیونکہ کتاب وسنت اور عقل کے دلائل سے ثابت ہے کہ یہ دائرہ ہر
دور میں وسیع رہے گا ۔
چنانچہ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے ۔”پس تم عبرت لو،اے عقلمندو“
نیز ارشاد ہے ۔” بے شک اس میں عبرت ہے بصیرت والوں کے لیے“اور ظاہر ہے کہ
کسی شے کے حکم کو اس کی نظیر کی طرف لوٹانے کا نام ”اعتبار “ہے ،اس لیے جس
اصل کی طرف نظائر کو لٹایا جائے اسے”عبرۃ“ کہا جاتا ہے ۔
نیز ارشاد ہے ۔”اگر یہ لوگ اس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور جو ان میں
ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے حوالے کر دیتےتو ان میں جو لوگ اس کو سمجھنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو خود ہی جان لیتے“
اور استنباط کے معنی ہیں جیسا کہ سرخسی رحمہ اللہ)اصول السر خسی ج2ص128 طبع
جدید حیدرآباد دکن(نے لکھا ہے”اجتہاد کے ذریعہ حکم منصوص کی علت دریافت
کرنا ۔“ نیز ارشاد ہے”پس تم اگر کسی امر میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ و رسول
کی طرف لوٹاؤ ۔“
امام سرخسی ؒلکھتے ہیں ”یہ کہنا صحیح نہیں ہو گا کہ اللہ و رسول کی طرف
لوٹانے سے مراد کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا ہے ،کیونکہ یہاں رد کو منازعت
پر معلق کیا گیا ہے ،اور ظاہر ہے کہ کتاب وسنت پر عمل کرنا اس شرط پر معلق
نہیں نیز جن احکام شرعیہ پر کتاب و سنت کے نصوص موجود ہوں ان میں اہل ایمان
کے نزاع کی صورت مشکل ہی سے پیش آسکتی ہے ،اس سے واضح ہوا کے یہاں مراد وہ
منازعت ہے جو ایسے واقعہ میں پیش آئے جس کے لیے کتاب و سنت کا صریح موجود
نہ ہو ۔اور”رد“ سے مراد یہ ہے کہ جس حادثہ میں نزاع واقع ہو غور وفکر سے
کتاب و سنت کے منصوص احکام میں اس کی نظیر تلاش کی جائے اور یہ مماثلت ،
اجتہاد کے ذریعہ علت حکم کی دریافت ہی سے معلوم ہو سکتی ہے،،۔ )اصول
السرخسی ج2ص129(
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی
احادیث،اجتہاد ،قیاس اور اعتبار کے سلسلہ میں کافی تعداد میں موجود ہیں ان
کی ایک اچھی مقدار ،امام سرخسی رحمہ الہ نے ”اصول “میں امام ابن البر رحمہ
اللہ نے ”جامع بیان العلم “ میں اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”اعلام
الموقعین“میں اور دوسرے اکابر نے جمع کر دیں ہیں ہم یہاں”حدیث معاذ“کے ذکر
پر کفایت کرتے ہیں ،جو”سنن“میں موجود ہے ،ائمہ حدیث نے اسے روایت کیا ہے
اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے ۔
امام غزالی رحمہ اللہ ”المستصفٰی “میں لکھتے ہیں:
”اس امت نے اسے قبول کیا ہے اور کسی نے اس میں طعن یا انکار کا اظہار نہیں
کیا،اس لیے اس کا مرسل ہونا قادح نہیں ،بلکہ اس کی سند کی تفتیش بھی ضروری
نہیں ،جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث جن پر پوری امت عمل
پیرا ہے مثلا ”وارث کے لیے وصیت نہیں ،کسی عورت سےاس کی پھوپھی پر نکاح نہ
کیا جائے ،دو ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے“وغیرہ )کہ اس
عملی تواتر کے بعد ان کی اسناد کی بحث غیر ضروری ہو جاتی ہے (البتہ یہ حدیث
معاذرضی اللہ عنہ اصل اجتہاد میں نص ہےاور شاید یہ ”تحقیق مناط“ اور تعیین
مصلحت کے بارے میں ہے ،جہاں کہ اصل کا حکم مصلحت پر معلق ہو ، اس لیے یہ
قیاس کو صرف اپنے عموم کی بنا پر شامل ہو گی۔ “
مگر چونکہ بعض لوگوں نے اسے طویل بحث کا نشانہ بنایااور اس کی اسنا د کا
سوال اٹھایا ہے اس لیے ہم یہاں امام کوثری )مقالات کوثری ص60تا 64(کی تحقیق
کا خلاصہ اور لب لباب پیش کرتے ہیں ،جو اصول حدیث کے قواعد کے مطابق انہوں
نے اس کی قوت سند کے بارے میں فرمائی ہے ۔
اس حدیث کو امام ابو داؤد ،ترمذی اور دارمی رحمہم اللہ نے مختلف الفاظ میں
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ” جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا توفرمایا: فیصلہ
کیسے کرو گے ؟عرض کیا :کتاب اللہ کے مطابق ! فرمایا:اگر اس کا صریح حکم
کتاب اللہ میں نہ ہو؟عرض کیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
مطابق!فرمایا : اگر سنت رسول اللہ میں بھی نہ ہو ؟عرض کیا پھر میں اپنی
رائے سے اجتہاد کروں گا ،اور غور وفکر میں کوتاہی نہیں کروں گا ! یہ سن کر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس
نے فرستادہ رسول اللہ ) صلی اللہ علیہ وسلم(کو رسول اللہ) صلی اللہ علیہ
وسلم(کے پسندیدہ طریق کی توفیق دی۔“
اس حدیث کو اصحاب معاذ رضی اللہ عنہ سے حارث رضی اللہ عنہ بن عمرو ثقفی نے
روایت کیا ہے ،اور حارث نہ تو مجہول العین ہے ،چناچہ امام شعبہ رحمہ اللہ
فرماتے ہیں کہ وہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں اور نہ وہ
مجہول الوصف ہیں ،کیونکہ وہ کبار تابعین ہیں ،ابو عون ثقفی) م112ھ(کے طبقہ
شیوخ میں ہیں اور ان کے بارے میں کوئی”جرح مفسر “ثابت نہیں ،اس لیے ان کی
ثقاہت اور قبول روایت کے لیے اتنا ہی کافی ہے ،اس کے بعد ان کے اہل طبقہ سے
نقل توثیق کی حاجت نہیں رہ جاتی اور تمام تابعین کے حق میں خیر کی شہادت دی
گئی ہے وہ سب ثقہ اور عادل ہیں ،جب تک ان میں جرح مؤثراور جرح مفسر ثابت نہ
ہو اور صحابہ رضی اللہ عنہم سب عادل ہیں ،ان میں کسی قسم کی بھی جرح مؤثر
نہیں ،علاوہ بریں حارث کو ابن حبان نے”ثقاۃ“میں ذکر کیا ہے اور یہ حدیث اس
وجہ سے بھی ضعیف نہیں قرار دی جا سکتی کہ ابن عون؛ حارث سے اس کی روایت میں
متفرد ہیں ،اس لیے کہ ثقہ راوی کے تفرد کی وجہ سے حدیث کو رد کر دینا اہل
حق کا اصول نہیں اور ابن عون رحمہ اللہ ،امام اعمش رحمہ اللہ ، ابو اسحاق
رحمہ اللہ ،مسعر رحمہ اللہ ،شعبہ رحمہ اللہ ،ثوری رحمہ اللہ اور ابو حنیفہ
رحمہ اللہ جیسے اکابر کے استاذ،صحیحین کے راوی اور باتفاق اہل نقد ثقہ ہیں
۔ 4
ابن عون رحمہ اللہ سے اس حدیث کو ابو اسحاق شیبانی رحمہ اللہ اور شعبہ بن
حجاج رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور ابو اسحاق رحمہ اللہ سے ابو معاویہ
ضریر رحمہ اللہ نےاور شعبہ رحمہ اللہ سے یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ
،عثمان بن عمر عبدی رحمہ اللہ ،علی بن جعد رحمہ اللہ ، محمدبن جعفر رحمہ
اللہ ،عبد الرحمان بن مہدی رحمہ اللہ اور ابو داؤد طیالسی رحمہ اللہ وغیر
ہم نے روایت کیا ہے اور ان حضرات سے نے شمار لوگوں نے روایت کیا ،یہاں تک
کہ فقہاتابعین نے اس حدیث کو با لاتفاق قبول کیا ۔
اور اس حدیث کو اس وجہ سے رد کر دینا کہ ،یہ اصحاب معاذسے مروی ہے اور وہ
مجہول ہیں چند وجوہ سے غلط ہے ۔
اولاً : اس لیے کے اصحاب معاذ رضی اللہ عنہم ،دین و ثقاہت میں معروف ہیں
اور نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اصحاب معاذ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے حق
میں بھی جرح ثابت کر سکے)اور ثقہ کا مبہم ہونا مضر نہیں(
ثانیاً: اس لیے کہ اصحاب معاذ رضی اللہ عنہم کا بلاتعیین ذکر ،اس امر کی
دلیل ہے کہ روایت کے اعتبار سے یہ حدیث حد شہرت کو پہنچی ہوئی تھی ،جیسا کہ
قاضی ابو بکر ابن عربی رحمہ اللہ نے کہا ہے ،چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ
نے عروہ بارقی رحمہ اللہ کی حدیث کی سند اس طرح نقل کی ہے ”میں نے قبیلہ کے
لوگوں کوعروہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے سنا ہے۔“اس کے باوجود یہ روایت درجہ
صحت سے نہیں گری اور امام مالک رحمہ اللہ نے”قسامہ “میں سند یوں بیان کی ہے
”اسے اس کی قوم کے بڑے بڑے لوگوں میں چند مردوں نے خبر دی“نیز صحیح مسلم
)صحیح مسلم ج1ص370طبع رشیدیہ دہلی(
میں زہری سے یوں روایت ہے کہ مجھ سے چند مردوں نے بروایت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ یہ حدیث بیان کی ہے کہ” جس نے جنازہ کی نماز پڑھی اس کے لیے ایک
قیراط ہے ۔“
ثالثا: اس لیے کہ تاریخ ابن ابی خیثمہ بحوالہ مقالات کوثری ص23 میں بروایت
شعبہ رحمہ اللہ یہ لفظ ہیں ”میں نے مغیرہ بن شعبہ کے بھتیجے حارث بن عمرو
رحمہ اللہ سے سنا وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاذ رضی اللہ
عنہ کی یہ حدیث بیان کرتے تھے ۔“ حافظ ابن عبد البررحمہ اللہ )جامع بیان
العلم وفضلہ وما ینبغی فی روایتہ و حملہ ،لا بن عبد البر ج2ص55طبع منیریہ
،مصر (نے بھی جامع بیان العلم ”میں اسی طرح روایت کی ہے ،اندریں صورت اصحاب
معاذ رضی اللہ عنہم سے مراد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ
سب عادل ہیں ۔“
رابعا: اس لیے کہ خطیب بغدادی ”الفقیہ و المتفقیہ“میں لکھتے ہیں:”حارث ؒبن
عمرو کا عن اناس من اصحاب معاذکہنا شہرت حدیث او ر کثرت رواۃکی دلیل ہے اور
حضرت معاذکا فضل و زہد معروف ہے)ان کے اصحاب بھی معمولی درجہ کے لوگ نہیں
نہیں ہوں گے (اور کہا گیا ہے کہ عبادہ بن نسی نے اسے بروایت عبد الرحمٰن بن
غنم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہےاور یہ سند متصل ہے اور اس کے
راوی سب ثقہ ہیں ،علاوہ بریں اہل علم نے اسے بالاتفاق قبول کیا ہےاور اس سے
استدلال کیا ہے ،جس سے واضح ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک درجہ صحت رکھتی ہے
۔“
حاصل یہ کہ فقہا و محدثین کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور ثابت ہے ،اگر اس کے
ساتھ خارجی قرائن اور تائیدی روایات کو بھی ملا لیا جائے تو یہ قریباتواتر
معنوں کا درجہ رکھتی ہےامام کوثری کی تحقیق کا خلاصہ ختم ہوا ۔اور جدید
مسائل میں حجیت اجتہاد کی عمدہ ترین دلیل یہ حدیث ہے جسے امام نسائی نے سنن
میں”باب الحکم باتفاق اہل علم“کے ذیل میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ کے طویل اثر میں روایت کیا ہے کہ:پس اگر ایسا معاملہ پیش آئے جس کا
صریح حکم نہ کتاب اللہ میں ہو ،نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا
فیصلہ فرمایا ہو تو وہ فیصلہ کرے جو سلف صالحین نے کیاہواور اگر ایسا
معاملہ در پیش ہو جو نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ رسول اللہ نے اس کا فیصلہ کیا
ہو، نہ سلف نے ، تو اپنی بصیرت سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ میں ڈرتا
ہوں ،کیونکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ۔اور حلال حرام کے مابین بعض
چیزیں مشتبہ ہیں ، اس لیے اس پہلو کو چھوڑ دو جو کھٹک پیدا کرے اور وہ پہلو
اختیار کرو جس میں کھٹک نہ ہو ۔“
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”یہ حدیث بہت عمدہ ہے“اور اس کی مثل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
)سنن نسائی ج2ص264،سنن دارمی ص34(
اور عقلی حیثیت سے اجتہاد کی ضرورت بالکل داضح ہے ،امام سر خسی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں :”کوئی حادثہ ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے حلت یا
حرمت ،وجوب یا عدم وجوب کا حکم نہ ہواور ظاہر ہے کہ ہر حادثہ میں نص صریح
نہیں ہو گی کیونکہ نصوص محدود و متناہی ہیں جبکہ قیامت تک کے حوادث غیر
متناہی اور حادثہ کا نام حادثہ رکھنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں نص
نہیں ہو گی، ورنہ جس پر نص صریح موجود ہووہ ،،اصل معہود ہوا۔ “
)اصول السر خسی ج2ص139(
حاصل یہ کہ زندگی رواں دواں ہے اور وہ اپنے جلو میں بہت سے نئے مسائل کو
لاتی ہے ،اس لیے ہمارا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم کتاب سنت ،اجماع امت اور
فقہ اسلامی کی روشنی میں ان جدید مسائل کا حل ،اس طرح تلاش کریں کہ نہ تو
کج روی اور گمراہی کی وادیوں میں بھٹکیں نہ بزدلی سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر
بیٹھ جائیں ۔
تشریع اسلامی کی تاریخ فقہی دور کی تکمیل اور ہر زمانے میں جدید مسائل پر
کتابوں کی تصنیف اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ جن مسائل میں کتاب سنت کے نصوص
موجود نہیں ان میں اجتہاد کا دروازہ ہر وقت کھلاہےچنانچہ امت اسی اصول پر
کار بند رہی ہےاس لیے جوازاجتہاد پر مزید بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ حق
تعالیٰ نے عقل پیدا کی ہے انسان میں امانت الٰہیہ کی برداشت کا مدار اسی پر
رکھا ہے اور”بصائر و عبر “ میں غور وتدبر کی با ر بار دعوت دی جاتی ہے۔
امام فخرالاسلام بزدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”عقل بدن انسان میں ایک نور ہے
جیسا کہ زمینی عالم میں آفتاب ،اس سے وہ راہیں کھلتی ہیں جہاں حواس ظاہری
کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے ،پھر یہ بذات خود رہنما نہیں بلکہ اس کا کام راستے
کا اجاگر کر دینا ہےراستہ واضح ہو جانے کہ بعد اس کا ادراک ،قلب اپنے نور
فہم سے کرے گا جس طرح طلوع آفتاب سے راستہ کھل جاتا ہےمگر راستہ نظر آنے کہ
لیےتنہا سورج کی روشنی کافی نہیں بلکہ چشم بینا کی بھی ضرورت ہے ۔“
بہر حال!عقل ایک نور ہے ،ایسا نورجس سے اوہام کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں
،ایسا نور جس سے علل احکام کی راہیں اجاگر ہو جاتی ہیں ،حق تعالیٰ نے قرآن
کریم کی متعدد آیتوں میں عقل کی مدح و توصیف فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہے
:”ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان کو جو غور کرتے ہیں،ان کے لیے دل ہوتے ہیں
جن سے سمجھتے ہیں۔“
)ترجمہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ (
”یوں کھول کر بیان کرتے ہیں ہم نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں۔“
”بہرے ،گونگے اور اندھے ہیں سو وہ کچھ نہیں سمجھتے ۔“
”اور وہ ڈالتا ہے گندگی ان پر جو نہیں سوچتے۔“
”اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے۔“
”کیا دھیان نہیں کرتے قرآن میں یا دلوں پر لگ رہے ہیں ان کے قفل۔“
”سمجھتے وہی ہیں جن کو عقل ہے ۔“
”شاید وہ سوچے یہ ڈرے ۔“
”اور سوچ وہی کرے جو رجوع رہتا ہو ۔“
”اور تاکہ سمجھیں عقل والے ۔“
”اور بیان کرتا ہے اللہ ،مثالیں لوگوں کے واسطے تاکہ وہ فکر کریں ۔“
یہ بات خاص طور سے یاد رکھنے کی ہے کہ بلاشبہ عقل ،نور فروزاں ہے مگر اس کے
لیے ایک خاص دئراہ ہے جس سے آگے قدم بڑھانا اس کے لیے ناممکن نہیں ،اور
جہاں عقل کی پرواز ختم ہو تی ہے وہاں سے عقل سے بالاتر ایک دائرہ شروع ہوتا
ہے ،اور وہ وحی الٰہی اور نبوت الٰہیہ کا دائرہ ہے ،لاریب کہ عقل ان امور
کا ادراک نہیں کر سکتی جو وحی کی آنکھ سے نظر آتے ہیں عقل کے لیے یہی فخر
کیا کم ہے کہ وہ ،وحی کےبیان کردہ حقائق کا ٹھیک ٹھیک ادراک کر لےاور اپنے
نور خداداد سے ان حقائق کی بلندحکمتوں ،گہری مصلحتوں اور باریک اسرار و علل
کا سراغ لگانے میں وہ کامیاب ہو جائے ۔اس سے واضح ہو کہ کتاب وسنت ،شرائع
الٰہیہ اور احکام منصوصہ کے سامنے سر جھکانے اور ادب و وقار اور تسلیم و
انقیاد کے ساتھ ان کے سامنے کھڑا ہونے کے سواعقل کو کوئی چارہ نہیں اور اگر
حقائق وحی تک اس کی رسائی نہ ہو سکے تو اسے اپنی تنگ دامنی کا اعتراف کرنا
ہو گا ۔ مختصر یہ کہ منصوص وحی کے ہوتے ہوئے بھی عقل کو ہر چیز میں مقدم
رکھنا بڑی گھناؤنی جسارت ہےاور نصوص وحی کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اس
سےکا م نہ لینا نری حماقت اور کوتاہی ہے ،صحیح راستہ ان دونوں کے درمیان سے
گزرتا ہےاور وہی صراط مستقیم ہے ۔البتہ یہاں چند اہم نکا ت کی طرف اشارہ
ہمارے لیےبے حد ضروری ہے جن سے موضوع کھل کر روشن ہو جائے ۔
اول : اجتہادکے لیے قرآن حدیث اور اجماع امت کا علم ،فقہ اسلامی کی کتابوں
سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ،ان میں مہارت از
بس ضروری ہے خصوصا”علم اصول فقہ“میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے بغیر ہم
ایک قدم آگے نہیں چل سکتے ۔
دوم : بالغ نظری اور دقیقہ رسی کے ساتھ تقویٰ،خشیت الٰہیہ اور دین خداوندی
کے ساتھ کامل اخلاص ۔
سوم : شورائی اجتہاد کا اہتمام چونکہ ایسے یکتا اشخاص کا وجود ،جو ان
مجتہدانہ صفات میں کامل ہوں ، بیحد مشکل ہے ،اس لیے ”شخصی رائے “کی کمی کو
ایسی جماعت کی آراء سے پورا کیا جانا چاہیئے ، جن میں ،فردا فردا نہ سہی
،مگر مجموعی حیثیت سے یہ تمام صفات کامل طور سے جمع ہوں ، یہی وجہ ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جدید مسائل میں
انفرادی رائے کی بجائے ”فقہاوعابدین“سے مشورہ کیا جائے ۔امام طبرانی رحمہ
اللہ نے یہ حدیث ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت کی ہےاور یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقیہہ الامت
ہونے کے باوجود ،انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس
افرا د کی جما عت تشکیل کی جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ یکتائے زمانہ تھا
جیسا کے الموفق نے ”مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ “میں ذکر کیا ہے ۔
چہارم : جب کسی پیش آمدہ مسئلہ کا حل ،مذاہب اربعہ میں سے کسی میں موجود ہو
،بشر طیکہ وہ رائے شاذاور اجماع امت کے خلاف نہ ہو ،تو ہمیں اسی کو اختیار
کرنا ہو گا تاکہ اجتہاد جدید اور مذہب مجتہدین سے خروج کی ضرورت نہ رہے۔
پنجم: چونکہ ہمارے ملک میں حنفی مسلک رائج ہے ،اس لیے بدون شدید اضطرارکے
بلا وجہ اس سے نکلنا اور” رائےعامہ“ کو خوامخواہ پریشان کرنا ،غیر معقول ہو
گا ۔
ششم : جن مسائل میں نصوص قطعیہ موجود ہوں وہ ہر دور میں دائرہ اجتہاد سے
خارج ہیں ، اجتہاد صرف ان مسائل تک محدود ہے جو نہ منصوص ہوں نہ اجماعی ،اس
لیے اس کی گنجائش نہیں کہ کسی حکم کی علت ،مصلحت یا حکمت تراش کر اسے ایسے
طور پر مدار حکم قرار دے لیا جائے کہ اس سے نص کا غیر معمول بہ ہونا یا
اجماع امت کا باطل ہونا لازم آئے یہ طرز عمل تقریبا الحادو تحریف سے جا
ملتا ہے اور بہت سے لوگ جہل یا عناد کی بنا پر اس کے مرتکب ہیں ۔
)حجۃاللہ البالغہ باب الفریق بین المصالح و الشرائع )
ہفتم : مسائل جدیدہ میں اجتہاد کے لیے ،خلافت راشدہ خصوصا خلافت شیخین حضرت
ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو نظیر بنانا ،ناممکن ہے ،کیونکہ خلافت راشدہ
کا مقام ،منصب اجتہاد سے بالا تر ہے ،اور خلافت راشدہ کے فیصلوں کو مضبوطی
سے پکڑنے کا حکم ،شارع علیہ السلام کی طرف سے امت کو دیا گیا ہے ۔
ہشتم : مذا ہب مختلفہ کو ملانے)تلفیق(اور اضطراری حالت کے بغیر ،مذاہب فقہا
سے چھانٹ چھانٹ کر رخصتوں سے تلاش کرنے سے پر ہیز کیا جائے کیونکہ یہ دین
ہی سے نکل جانے کے مرادف ہے ۔ 4
نہم : جدید تمدن کی بدولت غیر اسلامی ممالک میں بیشتر ایسے قوانین رائج ہیں
،جو روح اسلام کے منافی اور قطعیات اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں ،انہیں
”اضطرار“کے بہانے سے اسلامی معاشرے میں جوں کا توں نہ فٹ کیا جائے بلکہ اس
مشکل کو حل کرنے کے لیے اسلام میں اس کا جو ”بدل“موجود ہے اسے اختیار کیا
جائے ،مثلابینک کا سود، ،بیمہ،،اور ،،کمیشن ایجنسی کا مسئلہ ہے ،کہ اسلام
میں اس کا بدل ”شرکت، قراض اور،کفالت “وغیرہ کی صورت میں موجود ہے ،جس کے
ہوتے ہوئے ان حرام امور کے ارتکاب کی ضرورت نہیں رہتی۔اشکال کی جڑ
”بنیاد“یہ ہے کہ ہم غیر اسلامی قوانین کو ،ان میں رتی بھر تبدیلی کیے بغیر
اسلامی اصول پر منطبق کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہ فٹ نہیں ہوتے تو گمان
کر لیا جاتا ہے کہ اسلام۔معاذاللہ جدید دور کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی
صلاحیت نہیں رکھتا ۔
یہ یاد رہے !کہ اصول اسلامیہ کا سر چشمہ ذات خدا وندی ہے جس کا علم صحیح
قیامت تک کے حوادث کو محیط ہے اور جس کی قدرت ازلیہ کاملہ چیز سے عاجز نہیں
،کیونکہ یہ شریعت اس ذات کی طرف سے آئی ہے جو علیم وخیبر بھی ہے اور ہر چیز
پر قادر بھی۔
دہم : الجاءو اضطرار کے درمیا ن اور عیش پرستی ،زراندوزی اور امیر سے امیر
تر بننے کی حرص کے درمیان جو نمایاں فرق ہے ،اسے ملحوظ رکھنا چاہیئے ایک
بھوکا ننگا فاقہ کش ہے ،جسے قوت لایموت بھی میسر نہیں اور ایک وہ امیر کبیر
ہے ،جس کا گھر طرح طرح کے اسباب تنعم سے بھرا پڑا ہے ،مگر اس کی حرص کی
،جہنم کو صبر نہیں ۔
یہ کتنا بڑا ظلم ہو گا کے دونوں کا حکم یکساں قرار دیا جائے ،پہلی صورت
اضطرار کی ہے جس میں سد رمق تک مردار کھنے کی اجازت ہے اور دوسری اسراف و
تبذیر کی ۔جس کے لیے مجبوری کا بہانہ مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے اور
بدفہمی اسی طرح کے مضحکہ خیز لطیفوں بلکہ ماتم انگیز حادثوں کو جنم دیا
کرتی ہے ،حق تعالیٰ رحم فرمائے اس پر جو انصاف سے کام لے ۔”اسلامی قوانین
میں اجتہاد کا مقام “پر یہ چند مختصر اشارے عرض کیے گئے ہیں،جن میں تنگی
وقت کے پیش نظر تفصیلات کے بجائے اجمال سے کام لیا ہے ،اس میں شک نہیں کی
موضوع کی اہمیت شرح و بسط کی متقاضی تھی ،تاہم جس چیز کا پورا ادراک ممکن
نہ ہو اسے با لکلیہ چھوڑ دینا بھی زیبا نہیں ۔کانی آنکھ کا رونا بھی صد
غنیمت ہے اور نادار کی کل کائنات اس کے چند آنسو ہوتے ہیں ،میرا حال وہی ہے
جو کسی شاعر نے کہا ہے :
عاشق کی پونجی وہ سوزدروں ہے جس کی غمازی
رخسار پر بہتے ہوئے چند آنسو کیا کرتے ہیں |