توبہ ہے ہی ایسی چیز

مبارک بھائی !یہ بتاؤ میں اب کیا کروں ؟اس فکر میں دن رات گھلتا ہوں اور کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا ۔“مبارک نے کہا :”بے شک یہ فکر کی بات ہے ۔جوان لڑکی جب گھر میں بیٹھی ہو تو ماں باپ کو فکر ہوتی ہے ۔اگر مناسب رشتہ مل جائے تو زندگی بھر سکھ اور چین ہے اگر کسی برے سے خدانخواستہ پالا پڑ جائے تو زندگی بھر کا رونا ہے ۔“

”پھر تم ہی کوئی حل بتاؤ ۔“مالک نے کہا۔”حضور!میرے نزدیک تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے لیے آپ دن رات گھلیں اور اپنی صحت خراب کریں ۔ہم اور آپ خدا کا شکر ہے مسلمان ہیں،زندگی کے ہر معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی ہمارے لیے اسوہ ہے اس پر جب بھی ہم عمل کریں گے ،ان شاء اللہ اچھائی ہو گی ۔“مبارک نے پورے اطمینان سے کہا ۔ مالک نے کہا ۔”اچھا تو پھر بتاؤرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟“

”دیکھئے جہاں تک اسلام سے پہلےکو لوگوں کا تعلق ہے ،یہ لوگ عزت ، شہرت اور خاندانی بڑائی ڈھونڈتے تھے ۔یہود لوگ مال پر جان چھڑکتے تھے اور عیسائی خوبصورت اور حسن تلاش کرتے تھے ۔لیکن مسلمانوں کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے کہ تم رشتہ کرتے وقت ہمیشہ نیکی اور دینداری کو دیکھنا ۔“ مالک یہ سن کر خوشی سے اچھل پڑا اور کہا”مبارک خدا کی قسم !تم نے میرا سارا غم دھو دیا ۔جیسے اب مجھے کوئی فکر ہی نہیں ہے۔“ وہ خوشی خوشی گھر پہنچا ۔بیوی کو ماجرا سنایا وہ بھی خوش ہو ئی ۔ تاجر نے موقع مناسب پا کر اسے کہا:”پھر کیوں نہ ہم اپنی بیٹی کا نکاح ”مبارک “سے کر دیں“

ہائیں کیا کہا ؟گھر کے نوکر سے !!!!!غلام سے !!دنیا کیا کہے گی ؟؟بیوی چلائی ۔

”کیا حرج ہے اگر نوکر ہے ؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نیکی اور دینداری کو دیکھو ۔ خدا کی قسم مجھے تو اس کسوٹی کے لحاظ سے پورے شہر حران میں مبارک سے زیادہ نیک اور دیندار نظر نہیں آتا ۔اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور مصدوق ہیں اور ان کا کہا ماننے میں بھلائی ہے تو ہمیں دنیا سے بے فکر ہو کر اپنی لاڈلی کو مبارک کے حوالے کر دینا چاہیے اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو گویا ہم خود ہی اپنے عمل سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو جھٹلائیں گے ۔“ تاجر نے اطمینان اور یقین سے کہا ۔شوہر کا یہ عزم دیکھ کر اور سیدھی اور سچی بات سن کر بیوی بھی دل سے راضی ہو گئی اور حران کے رئیس کی اس چاند سی لڑکی کی شادی ایک ایسے غریب سے رچائی گئی ،جس کے پاس نہ روپیہ پیسہ تھا ،نہ کوئی گھراور نہ ہی کسی اونچے گھرانے سے اس کا تعلق تھا ۔سوائے ایمان واسلام کی ،نیکی اور تقوٰی کے۔یہ وہی لڑکی تھی جس کے لیے حران کے بڑے بڑے رئیسوں نے پیغام بھیجے ۔لیکن مبارک کی نیکی اور تقویٰ کے مقابلے میں ہر ایک نے شکست کھائی ۔

شادی ہو گئی ۔مبارک جیسے خود نیک تھے ،ویسی ہی ان کی بیوی بھی لاکھوں میں ایک تھی ۔تھوڑے دنوں کے بعد اللہ نے ان کو ایک چاند سا بیٹا عطا کیا ۔ماں باپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔بیٹے کا نام ”عبداللہ“رکھا ۔

تھوڑے دنوں بعد اس ترکی تاجر کا انتقال ہو گیا اور اس کے مال ودولت کا ایک بڑا حصہ حضرت مبارک کو ملا یہ ساری دولت حضرت عبداللہ کے کام آئی ۔ نیک باپ نے بیٹے کی تعلیم پر ساری دولت بہا دی ۔

نیک ماں باپ نے حضرت عبد اللہ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔شروع ہی سے انتہائی شفقت و محبت سے ان کی پرورش کی ،دین و اسلام کی باتیں سکھائیں،ماں باپ خود نیک تھے ان کی یہ دلی تمنا تھی کہ ان کا بیٹابھی دنیا میں نیک بن کر چمکے لیکن شروع میں ان کی تمام کوششیں بے کار گئیں ۔اس لیے کہ ان کا بیٹا ہر کام میں لاپرواہی کرتا بری مجلس میں بیٹھنے کی وجہ سے معاشرتی اخلاق بگڑنے لگا ۔گانا بجانا اور عیش اڑانا ہی ان کا دن رات کا مشغلہ تھا اور جوانی میں تو یار دوستوں کے ساتھ مئے نوشی کی محفلیں سجنا عام معمول بن گیا صراحی ومینا وجام وسبو سبھی کچھ دل بہلانے کی خاطر چلتا رہا ۔

ایک رات عبد اللہ کے سارے دوست جمع تھے… گانے بجانے کی محفل خوب گرم تھی ….. شراب کےدور پر دور چل رہے تھے اور ہر ایک نشے میں مست تھا ۔اتفاق سے حضرت عبداللہ کی آنکھ لگ گئی اور انہوں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ۔

کیا دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا چوڑا خوبصورت باغ ہے اور ایک ٹہنی پر ایک پیاری سی چڑیا بیٹھی ہوئی ہے اور اپنی سریلی میٹھی آواز میں قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہی ہےالم یا ن الذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکراللہ”کیا اب تک وہ گھڑی نہیں آئی کہ اللہ کا ذکر سن کر مومنوں کے دل لرز جائیں اور نرم پڑ جائیں ۔“حضرت عبد اللہ گھبرائے ہوئے اٹھے ۔ان کی زبان پر یہ بول جاری تھے :”اے اللہ !وہ گھڑی آگئی ،اےاللہ وہ وقت آن پہنچا ہے ۔“اٹھے شراب کی بوتلیں پٹخ دیں ،جام وسبو ،صراحی چُور چُورکر دیے ،غسل کر کے سچے دل سے توبہ کی۔ اللہ سے پکا عہد کیا کہ اب کبھی تیری نافرمانی نہ ہو گی گناہوں سے ایسے پاک ہو گے کہ گویا کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ تھا۔ سچ ہے توبہ ہے ہی ایسی چیز۔

ایک وہ زمانہ تھا کہ حضرت عبداللہ رحمہ اللہ رات بھر گناہوں میں لت پت رہتے ، خدا اور رسول کی نافرمانی کرتے اور ہر ایک کو ان کی زندگی سے گھن آتی لیکن جب انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ،اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوئے اور اپنے اللہ سے پختہ عہد کیا کہ اب جیتے جی کبھی برائی کے قریب بھی نہ پھٹکیں گے تو اللہ کی رحمت نے ان کا ہاتھ پکڑا، وہ ایسے نیک بنے کہ اپنے زمانے کے تمام علماء نے ان کو اپنا سردار مانا ۔حدیث کے امام کہلائےاور آج تک دنیا ان کی نیکی اور علم سے فائدہ اٹھاتی ہے۔رحمۃ اللہ علیہ رحمۃًواسعۃً کاملۃً

Ahmad Hameed Zohra
About the Author: Ahmad Hameed Zohra Read More Articles by Ahmad Hameed Zohra: 19 Articles with 17625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.