دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر

کرہ ارض پر موجود کوئی بھی کلمہ خواں ایسا نہیں جو محسن انسانیت، فخر دوعالم، مرسلین کے تاجدار، سیدابرار، نورمجسم، وجہ باعث تخلیق کائنات، فخر موجودات، مظہر رحمت، محسن عالم، مخزن رحمت، سرورکونین، محسن اعظم، مجسم رحمت، ہادی عالم رحمة للعالمین، آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم کو خود سے زیادہ محبوب نہ رکھتا ہو۔ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر امتی کی نس نس میں خون بن کر دوڑتی ہے اور سانس بن کر چلتی ہے۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں پاسبان عقل کو کسی نے ساتھ رکھنا گوارا نہ کیا۔ یہ معاملہ دل کا ہے۔ عقل و دماغ کا یہاں گزر نہیں اور عشق و محبت میں ہمیشہ دل والے عقل والوں پر برتری حاصل کر لیتے ہیں۔ اہلِ عشق کی نظر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، اللہ کی ازلی و ابدی اورلازوال قدرت، علم، جمال، کمال اور جلال کے مظہر تام کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے رفعت بخشی اور اسوہ کو حسین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو رحمة للعالمین قرار دیا۔ اس مصور باکمال اور احسن الخالقین کا کمالِ خلقت آپ کی ذات پر تام ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہوئے۔

آپ علیہ السلام انسان کامل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو دیکھ کر کوئی شخص فدا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ میانہ قد، سرخی مائل سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم، انتہائی خوبصورت بال۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کی مانند چمکتا۔ سینہ مبارک چوڑا، کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا نہ موٹا، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر مہرِ نبوت، کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ بلند اور چمکدار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی، مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کی مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درزیں تھیں، بولتے تو نور نکلتا تھا۔ شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ اپنے نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:
واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النسائ
خلقت مبرّاً من کل عیب کانک قد خلقت کما تشائ
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے۔ “

بھلا کوئی انسان اس عظیم ہستی کی تعریف کیا بیان کرسکتا ہے، جس کی تعریف بیان کرتے ہوئے خود خدا نے فرمایا:” اے اللہ کے نبی !ہم نے بلند کیا آپ کا ذکر۔ “ اتنا بلند کیا کہ قیامت تک آنے والے جن و انس اور ملائک اپنے نطق و قلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی شان بیان کر کے سعادت سمیٹتے رہیں گے۔ خدا کے بعد ہر امتی کا آخری سہارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تو ہیں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو بے پناہ محبت سے نوازا ہے۔ ہر نبی کی ایک قبول ہونے والی دعا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بے پایاں محبت کا اندازہ لگایئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیش قیمت دعا کو اپنی امت کے لیے سنبھال رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے راستے میں جتنی تکالیف برداشت کیں، وہ صرف اس خاطر کہ دین کماحقہ امت تک پہنچ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن میں کوڑا پھینکا گیا۔ سر پر خاک ڈالی گئی۔ اوجھڑی ڈالی گئی۔ بیٹیوں کو طلاق ہوئی۔ قتل کی سازشیں ہوئیں۔ مبارک گلے میں چادر ڈال کر گھونٹا گیا۔ طائف کا سفر، شعب ابی طالب کی سختی۔ ہجرت کی دربدری، پیٹ پر پتھر سب ہماری خاطر گوارا کیے۔ جنگیں لڑیں، احد کے زخم اٹھائے۔ یہ سب ہماری خاطر برداشت کیا، تاکہ دین ہم تک بلا کم و کاست پہنچ جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ہی اثر تھا کہ ہر جان محبت کے سانچے میں ڈھل گئی۔ انسانوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی لازوال تاریخ رقم کی ہی ہے، جبکہ غیر انسان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ایک بار قدموں تلے پہاڑ لرزا تو اسے اس طرح مخاطب کیا جیسے ذی شعور، ذی حس کو مخاطب کیا جاتا ہے اور وہ تھم گیا۔ اونٹ اپنے مالک کی شکایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شانے پر سر رکھ کر بہتی آنکھوں کے ساتھ کرتا نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں کھجور کے تنے پر ٹیک لگاکر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب منبر بنادیا گیا اور پہلے دن آپ صلی اللہ نے منبر استعمال فرمایا تو جدائی پر کھجور کا تنا بلک بلک کر رودیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھپتھپانے پر وہ آسودہ ہوگیا۔

سیرت کو فروغ دینا نہ صرف باعث سعادت بلکہ ضروری بھی ہے، کیونکہ ایک پرامن و مثالی معاشرے کا قیام سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کیے بغیر ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہمارے لیے ہر قدم پر راہنمائی موجود ہے۔ خالق ارض و سما نے رسولِ کائنات، فخر موجودات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو نسلِ انسانی کے لیے نمونہ کامل اور اسوئہ حسنہ بنایا ہے۔ اسی نمونے کی اقتدا کر کے پرسکون زندگی اور کامیاب آخرت مل سکتی ہے۔

محسن انسانیت صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے معمولات زندگی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں اور سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحے کو قدرت نے محفوظ کر دیا ہے۔ دنیائے انسانیت کی کسی بھی عظیم المرتبت ہستی کے حالاتِ زندگی، معمولاتِ زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل و مدلل طریقے پر موجود نہیں ہیں، جس طرح سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک جزئیہ تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح خوانی میں ہزاروں دیوان مرتب کیے جاچکے ہیں۔ اردو زبان میں حضرت شاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں برصغیر کے شعراءنے خوبصورت عنوانات کے تحت مدحتِ رسالت کے گلستان سجائے ہیں اور ذاتِ اقدس کو مقصد تخلیقِ کائنات بیان کیا ہے۔ سحاب رحمت، غبارِ حجاز، شاخِ طوبیٰ، چشمہ کوثر، والی بطحا، فارقلیط، روحِ کائنات، قاب قوسین، شاخِ سدرہ، نوائے بردہ، آں خنک شہرے، جمالِ مدینہ اور دارَین کے ناموں سے ثنائے خواجہ کونین ﷺپر قلب وجگر کو تازگی اور طمانیت عطا کرنے والے نعتیہ مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔ عربی زبان میں ہزاروں اشعار اس مقدس دربارکی عظمت وشوکت کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس کو ایک عرب شاعر نے بیان کرتے ہوئے چالیس ہزار اشعار لکھے۔ آخری شعر کا ترجمہ لکھتے ہوئے حفیظ تائب نے کہا:
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے!

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.