تہ بند ٹخنوں سے بلند رکھنا

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یا اپنی پنڈلی کے عضل (گوشت والا حصہ) کو پکڑ کر فرمایا:

‏ "‏هَذَا مَوْضِعُ الإِزَارِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَأَسْفَلُ فَإِنْ أَبَيْتَ فَلاَ حَقَّ لِلإِزَارِ فِي الْكَعْبَيْنِ."‏
مفہوم: چادر کی یہ جگہ ہے،اگر تم انکار کرو تو پھر اس سے نیچے، اور اگر اس سے بھی انکار کرو تو پھر چادر (آزار) کو ٹخنوں میں کوئ حق نہیں ہے

سنن ترمذی، رقم:1783 امام ترمذی نے اسکو حسن صحیح کہا، دارالسلام میں یہ روایت صحیح سند سے ہے، اس روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ 1765، 3364 میں درج کیا، محدث حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اسکو انوار الصحیفۃ میں درج نہیں کیا گویا انکی تحقیق میں بھی یہ روایت صحیح یا حسن ہے.

اس سے ثابت ہوا کہ یہ عمل عام اور مسنون ہے اور اسکا تعلق صرف نماز سے نہیں بلکہ مرد کے لیے یہ عمل یعنی إزار شلوار یا پنٹ وغیرہ کو ہر وقت ٹخنوں سے بلند رکھنا ہے.

اگر کوئ مرد اپنا إزار، تہبند، شلوار، پنٹ وغیرہ جان بوجھ کر ٹخنوں سے بلند نہ رکھے گا تو اسکے بارے میں وعید ہے. اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمایا:

"ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار"
اس كا مفہوم: تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا
(صحیح بخاری،رقم: 5787)

اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہ حکم مردوں کے لیے عام ہے اور اس کا تعلق نماز سے نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگوں کا گمان ہے اور عام لوگ صرف نماز کے وقت اپنے پائنچے اونچے کرنے کا عمل کرتے ہیں جس کی کوئ دلیل نہیں.

اسی طرح اگر ایک بھائ سنت کی پیروی میں اپنے پائنچے عضل یعنی آدھی پنڈلیوں تک رکھتا ہے تو بعض احباب اسکو کہتے کہ کیا بارش ہے یا کیچڑ ہے؟ سنت عمل کی اس طرح کی استہزا (مزاق) اور اس پر ہنسنا اور قہقہے لگانا بھی ایک خطرناک عمل ہے، اللہ ہمیں اس عمل سے بچاۓ، آمین.

اللہ ایسے بھائیوں کو سنت سے محبت اور پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انکو جزاۓ خیر دے جو اپنی شلوار یا إزار كے پائنچے عضل (آدھی پانڈھلی) تک رکھتے ہیں، آمین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور صحیح روایت میں فرمایا:

لاَ يَنْظُرُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا.
اس کا مفہوم: اللہ اسکی طرف قیامت کے دن (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا جو اپنی شلوار/إزار تکبر سے گھسیٹتا ہے
(حوالہ: صحیح بخاری، رقم: 5788)

اور ظاہر ہے یہ عمل وہ ہی کرے گا جو اپنی شلوار، پنٹ، إزار یا دھوتی وغیرہ کو ٹخنوں کے قریب یا ٹخنوں پر رکھے گا کہ اسکے پائنچے ٹخنوں سے نیچے جانے ہی کو ہیں اور اس میں تکبر بھی ہو گا

یاد رہے کہ جائز اور حلال مال کا اصراف نہ کرتے ہوۓ ضروریات زندگی حاصل کرنا، اچھا کپڑا، گاڑی، رہایش وخوراک اختیار کرنا ہرگز تکبر نہیں جیسا کہ عموما لوگوں کا گمان ہوتا ہے. بلکہ تکبر تو حق کو ٹھکرانا ہوتا ہے. اللہ نے قرآن میں ایک جگہ فرمایا:

وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّي عُذْتُ بِرَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُم مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ‌ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ﴿٢٧
ترجمہ و مفہوم: اور کہا موسی علیہ السلام نے میں نے پناہ لے لی ہے اپنے رب کی اور تمہارے رب کی ہر اس متکبر (کے شر) سے جو نہیں ایمان رکھتا یوم حساب پر
(حوالہ: سورۃ المؤمن:40 آیت: 27)

اس آیت کی رو سے متکبر وہ شخص ہے جو کسی حق کو مثلا یوم حساب کے دن کے آنے کو ٹھکرا رہا ہے، اور جو حق قرآن والسنۃ سے ثابت بھی ہے. اسی طرح دوسری جگہ اللہ نے فرمایا:

الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّـهِ بِغَيْرِ‌ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ‌ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ‌ جَبَّارٍ‌ ﴿٣٥
ترجمہ و مفہوم: جو بغیر کسی سند و دلیل کے جو انکے پاس آئ ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں اللہ کے نزدیک اور مؤمنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی بیزاری کی چیز ہے. اللہ اسی طرح ہر مغرور وسرکش کے دل پر مہر کردیتا ہے
(حوالہ: سورۃ المؤمن:40 آیت: 35)

اس سے معلوم ہوا کہ تکبر سے کبھی مراد ہوتا ہے کہ جب اس شخص کو قرآن والسنۃ کے مختلف عوامل پیش کیے جائیں تو وہ اس حق کو حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا اور کبھی تکبر سے مراد ہوتا ہے کہ غرور کرنا اور مغرور ہو جانا اور دونوں ہی قرآن والسنۃ کے مخالف امور ہیں.

تکبر کو سمجھنے کے بعد إزار، شلوار یا پنٹ وغیرہ کو ٹخنوں سے بلند رکھنے کی ایک روایت ہے:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مِنَ الْخُيَلاَءِ لاَ يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَحَدَ شِقَّىْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي إِلاَّ أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّكَ لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ خُيَلاَءَ ‏"‏ ‏.‏
ترجمہ و مفہوم:
"..سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے إزار کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اسکا خاص طور پر خیال رکھا کروں تو نبی صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: تم ان لوگوں میں نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں"
(حوالہ: سنن نسائ،رقم: 5337/5335 و سندہ صحیح)

اس روایت کا فہم یا فوائد:

اس سے معلوم ہوا کہ اگر شخص جملہ احکام شریعت پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور ان میں کسی قسم کی جان بوجھ کر کمی بیشی نہیں کرتا اور نہ دینی احکام کو جھٹلاتا ہے اور اسکو جب دینی امور بتاۓ جائیں تو انکو فورا عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے. اگر ایسے شخص کے إزار، پنٹ یا شلوار یا دھوتی وغیرہ ٹخنوں سے نیچے کبھی انجانے میں آجاۓ تو وہ تکبر میں نہ آۓ گا جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مثال تھی.

جبکہ اسکے مقابلہ میں دوسرا شخص جو دنیا کے معاملات و مال کی محبت تو بخوبی انجام دیتا ہے مگر دینی فہم کو نہ صرف جان بوجھ کر جٹھلاتا ہے بلکہ انکو کمتر دیکھتا ہے اور نہ تو سیکھتا ہے نہ ہی عمل کرنے کی سعی کرتا ہے اور اپنی إزار، شلوار یا پتلون، پجامہ یا دھوتی وغیرہ کو جان بوجھ کر نیچے ہی رکھتا ہے، چاہے اسکا قد لمبا ہو یا کم، تو یہ شخص تکبر میں ہے اور یہ وعید ایسے شخص پر لاگو ہوتی ہے، اللہ ہمیں اس عمل سے بچاۓ، آمین

manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.