نیک دل کفار کے بارے میں ایک وسوسہ!

ایک خیال یا وسوسہ کہہ لیجیے،جو تقریباً ہر مسلمان کے دل میں کبھی نہ کبھی آتا ہی ہے اور اکثر جدید تعلیم یافتہ بھائیوں کو تو بہت ہی تنگ کرتا ہے... جس کا اظہار اکثر فیس بک پر بھی ان کے اسٹیٹس کی صورت نظر آتا رہتا ہے...!

شبہ دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے محض نام کے مسلمان حد درجے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں، انہوں نے ظلم وستم کا بازار گرم کر کے مخلوق خدا کا جینا حرام کر رکھا ہے... کسی بے بس کی عزت لوٹی، کسی غریب کا مال دبایا... غرض ایسے بھیانک ظلم کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے... مگرہم سنتے ہیں کہ چونکہ وہ مسلمان ہے، اس لیے اگر سزا ملی بھی تو کچھ عرصے کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت میں جا کر مزے کرے گا!

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کافر ہیں... مگر نہایت رحم دل اور بااخلاق... وہ لوگ اپنی پوری زندگی اور سب کچھ مخلوق خدا کی خدمت کے لیے لگا دیتے ہیں... دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں مگر پاک و ہند سے صرف دو مثالیں لیجیے... ایک ہندوستان کی مدر ٹریسا اور دوسری پاکستان کی ڈاکٹر روتھ فاؤ جنہوں نے جذام کے ان مریضوں کے لیےاپنا ملک،عیش وعشرت، اپنی جوانی، اپنی دولت، اپنی زندگی کھپا دی، جن کو ہم شاید ایک نظر دیکھ کر کراہت سے دوسری نگاہ بھی نہ ڈالیں...!

مگر چونکہ بہرحال یہ کافر ہیں... اور ہم سنتے آئے ہیں کہ کافر کو اس کی اچھائی کا دنیا میں ہی بدلہ دے دیا جائے گا مگر آخرت میں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں جلے گا!... سو یہ سارے کافر بھی ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ کی نذر!

اب شیطان یہ وسوسہ ہمارے دل میں ڈالتا ہے کہ یا تو نعوذ باللہ، اللہ رب العزت ظالم ہیں!... کہ ایسے رحم دل کو ایمان والوں کے گھر پیدا نہیں کیا اور اب یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش کے لیے جلیں گے!

یا پھر... دخول جنت کے لیے کلمے والی یعنی ایمان مجمل و مفصل کی شرط غلط ہے... پھر وہ مختلف دور از تاویلات اور احتمالات پیش کر کے کافروں کے لیے ایمانیات کی لازمی شرط پوری کیے بغیر بھی جنت کے در وا کر دیتا ہے!

جیسا کہ سسٹر صدف انصاف نے پچھلے دنوں قاری ڈار صاحب کی ایک پوسٹ اپنی تائید کے ساتھ شیئر کی تھی۔
آئیے اب اس شبہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
٭٭٭
سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم پڑھیے: فرمایا کہ حشر کے دن بہت سے ایسے لوگ جو ساری زندگی کفر میں گزار کر مرے ہوں، مسلمانوں کی صف میں نظر آئیں گے اور بہت سے مسلمان نام والے کافروں کی صف میں نظر آئیں گے...!
ایسا کیسے اور کیوں ہوگا؟

ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت لطیف بھی ہے... یعنی باریک بیں... وہ دلوں کے ہر بھید سے بخوبی واقف ہیں اور وہ بے حد قدردان بھی ہیں... چھوٹی سے چھوٹی بات ان کے سامنے ہے... ذرہ برابر بلکہ ذرے کے کروڑویں حصے کے برابر بھی خیر یا شر ایسا نہیں، جو اس علیم و خبیر و بصیرذات سے چھپا ہوا ہو!

سو کافر اگر "متعصب یا مغرور" نہ ہو اور اس کی کوئی نیکی، کوئی ایک ادا رب تعالیٰ کو پسند آ جائےتو اسے بلا کسی ظاہری سبب کے بھی ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں... پھر یہ ایمان کبھی تو ظاہر ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک صحابی رسول نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایام جاہلیت میں 300 بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تو میری اس نیکی کا اجر مجھے کیا ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں اسلام لانے کی توفیق دی گئی، یہی تو اس کا اجر ہے!

اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے نیک دل غیر مسلموں کے ایمان کی کسی کو خبر نہ ہو... یا تو اس وجہ سے کہ انہیں موت سے قبل ہی ایمان لانے کی توفیق ملی ہو... جس پر بندہ اور اس کا رب ہی واقف ہوں ...
یہ "قبل "نزع کے عالم سے گھنٹہ بھر پہلے بھی ہو سکتا ہے اور ایک دن قبل بھی... اور اگر کچھ عرصہ پہلے بھی ہدایت کی توفیق ہو تو ممکن ہے کہ کسی شرعی عذر اور مصلحت کی وجہ سے بھی چھپایا گیا ہو!

البتہ تعصب ، ضد، نسلی فخر اور تکبر ایسی بری صفات ہیں کہ ان کا خناس دل میں ہو تو سر کی آنکھوں سے توحید و رسالت کی حقانیت دیکھ کر بھی ایمان کی توفیق نہیں ہوتی... اپنی آنکھوں سے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر دل نے یقین کر لیا مگر ضد اور قومی تعصب کی وجہ سے اسلام کی توفیق نہیں ملی... اسی طرح نہایت نیک دل چچا، عظیم المرتبت بھتیجے کی سچائی کے دل سے معترف مگر قومی حمیت کی وجہ سے ایمان کی توفیق نہیں ہوئی!

سو ان بری صفات کے حامل کافر نے کچھ نیک اعمال بھی کیے ہوں... تو ان کو ایمان کی توفیق تو نہیں ہوتی مگر ان نیک اعمال کو ضایع پھر بھی نہیں کیا جاتا... ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ اکثر تو اسی دنیا میں دے دیتے ہیں کہ نزع کے عالم سے پہلے اس کی ناممکنات خواہشات بھی بعض اوقات پوری کر دیتے ہیں... جب کہ بعض کافروں کے نیک اعمال کی بدولت انہیں آخرت میں بھی فائدہ ہوتا ہے... کہ ان پر عذاب کی تخفیف کر دی جاتی ہے!
٭٭٭
یہ تو ہوئی کافر کی تفصیل... اب مسلمانوں کی بات لیجیے:
احادیث مبارکہ میں کئی ایسے گناہ کبیرہ بھی بتائے گئے ہیں جن کو ہلکا جاننے یا ان پر اصرار کی وجہ سے یا پھر دین کے کسی حکم کو کمتر جاننے سے مرتے وقت کلمہ کی توفیق چھین لی جاتی ہے، یہاں تک کہ کچھ کی موت ہی ایسی آتی ہے کہ مرنے سے قبل کوئی کلمہ کفر کہہ دیا اور یوں کفر پر موت آ گئی... العیاذ باللہ! (اللھم احفظنا منھم)

احادیث میں اور اسلاف کی کتابوں میں ایسے کئی بدنصیبوں کے واقعات موجود ہیں... اور ایک نہایت عبرت انگیز واقعہ تو ستر سال قبل 1935 کا بھی ہے جس کو آنکھوں سے دیکھنے والے اور اخبار میں پڑھنے والے آج بھی زندہ ہیں۔ (جس کی تفصیل الگ پوسٹ پر ان شاء اللہ)
٭٭٭
سوقصہ مختصر! ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، اس لیے ہمیں اصولی بات عمومی انداز میں کرنی چاہیے... کیا پتہ جن نیک دل کفار کے نیک اعمال سے متاثر ہو کر ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ اے کاش یہ جہنم میں نہ جائیں تو...

واقعی ان کو آخری وقت منجانب اللہ ہدایت مل جاوے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر احسان کرنے والوں کے آپ سے زیادہ قدردان ہیں... وہ دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں... اگر اس کے عدل میں وہ شخص ایمان کی دولت عظمیٰ کا حقدار ہو گا تو اسے ہدایت مل کر رہے گی، چاہے اس سے کوئی دوجا واقف ہو یا نہ ہو مگر...!

مگر چونکہ یقینی طور پر کسی کو اس کا علم نہیں ہو سکتا... اس لیے تعین کے ساتھ کسی کا محض ظاہر دیکھ کر یہ کہنا کہ فلاں کافر بڑے فلاحی کام کرتا تھا، سو وہ جنت میں جائے گا، بڑی جرات کی بات ہے اور اللہ کی سنت کو جھٹلانے کی بات ہے، ہم کسی کے ایمان سے واقف نہیں...

بالکل اسی طرح کسی مسلمان کی بدعملیوں اور ظلم کو دیکھ کر بھی ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ضرور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلے گا... ہو سکتا ہے کہ اللہ کے علم میں وہ اتنا برا نہ ہو کہ اس سے ایمان کی دولت ہی چھین لی جاوے!

اس لیے میرے دوستو! یقینی اور حتمی بات جاننے کے لیے حشر کے دن کا انتظار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں! س

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 172165 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More