سعودی عرب میں گزشتہ ماہ حج کے
موقع پرجم غفیر کی بھیڑ کے دوران سینکڑوں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا
اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔اس سے پہلے مسجد الحرام میں شدید
طوفان کے دوران تعمیراتی کرین گرنے سے بھی جانی نقصان ہوا۔ ان ہلاکتوں پر
دنیا بھر میں دکھ اور افسوس کی لہر دوڑ گئی اور بالخصوص مسلمانوں کو صدمہ
پہنچا۔سعودی عرب کی آبادی تقریبا تین کروڑ ہے جبکہ ایک کروڑ کے قریب غیر
ملکی وہاں ملازمت وغیرہ کرتے ہیں۔سعودی عرب میں کام کرنے والے ان غیر ملکی
افراد میں انڈیا کے تقریبا13لاکھ،پاکستان9لاکھ،مصر9لاکھ،یمن8لاکھ ،بنگلہ
دیش تقریبا10لاکھ،فلپائن تقریبا آٹھ لاکھ،سری لنکا تقریبا 8لاکھ،اردن
،فلسطین2لاکھ ساٹھ ہزار،انڈونیشیا تقریبا5لاکھ،سوڈان 9لاکھ،شا م ایک لاکھ
،ترکی80ہزاراور یورپی باشندے تقریبا ایک لاکھ کی تعدا دمیں سعودی عرب میں
ہیں۔سعودی باشندوں میں بیروزگاری کی شرح5.70سے 6.30فیصد جبکہ برسر روزگار
افراد کی تعداد تقریبا 11لاکھ ہے۔سعودی عرب میں غیر ملکی افراد کی غالب
اکثریت مسلم ہے اور وہ سعودی عرب میں اپنے کام کے ساتھ ایک سے زائد بار حج
کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
سعودی حکومت حجاج کرام کی سہولیات کے لئے سال بھر مصروف رہتی ہے اور سال
بھر مسلسل تعمیراتی کام جاری رہتا ہے۔اس مقصد کے لئے حج کی ادائیگی کی
جگہوں کی کافی توسیع بھی کی گئی ہے۔حج کے انتظامات کو با سہولت اورجدید تر
بنانے کے لئے بھی کام مسلسل جاری رہتا ہے۔اطلاعات کے مطابق اس سال
تقریبا30لاکھ افراد نے حج ادا کیا۔یقینا سعودی حکومت مختلف ملکوں اور
اندرون ملک سے قانونی طور پر آنے والے حجاج کا انتظام اعداد و شمار کے
مطابق بطریق احسن کرنے کی کوشش کرتی ہو گی ۔اس بارے میں ملنے والی اطلاعات
کے مطابق سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی افراد لاکھوں کی تعدا د میں غیر
قانونی طور پر حج کرتے ہیں اور غیر قانونی طور پر حج کے کفارے کے لئے ’’دم‘‘
(خیرات،صدقہ وغیرہ) دیتے ہوئے اپنی طرف سے اپنے حج کو جائز کر لیتے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم کسی بھی غیر ملکی کو حج کرنے کے لئے کم ازکم تین سے چار
ہزار ریال حکومت کو دینا پڑتے ہیں۔اگر اچھی سہولیات کے ساتھ ج مطلوب ہو تو
اس رقم میں اسی حساب سے سات آٹھ ہزار ریال تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔سعودی
عرب میں مقیم کام کرنے والے اکثر غیر ملکیوں کے لئے تین ،چار ہزار ریال بھی
بڑی رقم ہے۔وہ یہ رقم بچانے کے لئے غیر قانونی طور پر مکہ پہنچتے ہیں اور
حج کرتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس طرح حج کرنے والے افراد کی تعداد ہر
سال دس سے پندرہ لاکھ تک ہوتی ہے۔غیر قانونی طور پر حج کرنے والے ایسے
افراد مختلف طریقوں سے مکہ پہنچ کر پہلے ہی مسجد الحرام میں پہنچ جاتے ہیں
اور وہیں ڈیرے ڈالے رہتے ہیں۔اسی طرح منی،عرفات کے میدان میں بھی حجاج کے
لئے لگائے گئے خیموں میں اس طرح کے غیر قانونی حج کرنے والے افراد پہلے سے
پہنچ کر وہاں براجمان ہو جاتے ہیں۔سعودی حکومت کا انتظام قانونی طور پر حج
کرنے والے افراد کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں غیر
قانونی طور پر حج کرنے والے افراد کی وجہ سے قانونی حجاج کے لئے کی گئی
سہولیات کم پڑ جاتی ہیں جس سے قانونی حجاج کو مشکلات اور تکالیف کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر حج کرنے والے ان افراد
کی وجہ سے قانونی طور پر حج کرنے والوں کے لئے انتظامات ناکافی ہونے،رہائشی
و دیگر سہولیات کی مشکلات کے علاوہ سیوریج سسٹم کا ناکارہ ہونا بھی شامل ہے۔
سعودی عرب کے مختلف شہروں ،علاقوں سے غیر قانونی طور پر حج کے لئے آنے والے
افراد سعودی افراد کی گاڑیوں میں سوا ر ہو کر مکہ معظمہ پہنچتے ہیں ۔ان کو
غیر قانونی طور پر ،بدون تصریح،اجازت نامہ نہ ہونے کی وجہ ،مختلف راستوں سے
انہیں مکہ پہنچاتے ہیں۔غیر قانونی حج کے لئے مکہ پہنچانے کا کام کرنے والے
سعودی افراد اپنی گاڑیوں میں کئی کئی افراد کو سوار کر کے،فی سواری کافی
رقم حاصل کرتے ہیں جس سے ’’حج سیزن‘‘ میں ان کا زبردست مالی فائدہ ہو جاتا
ہے۔جدہ سے مکہ تک ،75کلومیٹر سفر کا ایسے گاڑی والے فی مسافر150ریال لیتے
ہیں اور اس کے عوض انہیں غیر قانونی طور پر حج کرنے کے لئے مکہ پہنچایا
جاتا ہے۔اسی طرح طائف سے مکہ تک45کلومیٹر فاصلے کا بھی150ریال فی مسافر لیا
جاتا ہے جبکہ ریاض سے 120سے150کلومیٹر فاصلے کا 500ریال سے 600ریال فی
مسافر لئے جاتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر حج کرنے کے لئے مکہ جانے کے
خواہشمندوں کو سعودی باشندے بڑی گاڑیوں،جیپوں،کاروں میں بھی مکہ پہنچا کر
خوب مال بناتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق حج کے لئے غیر قانونی طور پر افراد کو
مکہ پہنچانے میں ان گاڑی والوں کو پولیس و دیگر سرکاری اہلکاروں کی مدد بھی
حاصل رہتی ہے۔اس بارے میں معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اپنے شہریوں
کے مالی فائدے کی وجہ سے اس معاملے کو نظر انداز کئے ہوئے ہے۔
مجھے ابھی تک عمرے یا حج کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تاہم بتایا جاتا ہے کہ
خانہ کعبہ کے ارد گرد’ کلاک ٹاور،اعلی مہنگے ترین ہوٹل قائم ہیں جہاں
’’لگژری ‘‘ طور پر حج کرنے والے ٹہرتے ہیں،تا کہ انہیں خانہ کعبہ تک بالکل
بھی سفر نہ کرنا پڑے۔اس کے برعکس غریب حاجیوں کے لئے رہائش کی جگہیں اتنی
دور ہیں کہ جہاں سے ایک طرف کے سفر میں دو سے ڈھائی گھنٹے بھی لگ جاتے
ہیں۔ٹرین کا نظام بھی سب حجاج کے بجائے محض ایک مخصوص طرف قیام کرنے والے
حجاج کو ہی آنے جانے کا فائدہ پہنچاتی ہے۔ٹرین آنے جانے کا ایک باسہولت اور
اچھا نظام ہے جسے سب حجاج کے لئے مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں اکثر غریب
حاجی آنے جانے میں گھنٹوں ضائع کرنے کے بجائے پورا دن خانہ کعبہ میں ہی
گزارتے ہیں۔خانہ کعبہ کی ایک طر ف توسیع کرتے ہوئے اسے کافی آگے بڑہایا گیا
ہے ،جس کے سامنے ایک سیون سٹار ہوٹل کی تعمیر جاری ہے۔یوں برابری کے منفرد
اسلامی فکر و عمل کے برعکس حج کو بھی امراء کے لئے پر آسائش اور غریبوں کے
لئے دشوار اور تکلیف دہ بنانے کے عوامل نظر آتے ہیں۔حج کو ایک حد تک کمرشل
بنانا درست لیکن حج میں حد سے بڑہتا ہوا کمرشل ازم غیر مناسب ہے۔ایک فرض کے
طور پر حج کی ادائیگی ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے اور وہ خانہ کعبہ ،مسجد
نبویﷺ اور اسلامی تاریخ سے منسلک دوسرے مقامات کو بھی دیکھنا چاہتا ہے۔اس
کالم کا مقصد یہی ہے کہ ہر سال ہونے والے مسلمانوں کی عبادت کے اس عظیم
عالمی اجتماع ،حج کے موقع پر حجاج کرام کو اچھے معیار کی سہولیات فراہم
کرنا اور ان کو حج کے ارکان کی با سہولت ادائیگی کا موقع فراہم کرنا سعودی
حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس معاملے میں سعودی حکومت کو اسلامی ملکوں سے
مشاورت کے ساتھ انقلانی نوعیت کے فیصلے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ |