جاگیردار اورسرمایا دار غربت کے سب سے بڑے مجرم ہیں

پوری دنیا میں امارت کا عفریت اپنی استحصالی مکروہات کیساتھ مختلف مسائل کو جنم دے رہا ہے جن میں جرائم کا بڑھتا ہوا سیلاب، دہشت گردی کا بے قابو بھوت، بھوک اور غربت کا طوفان، بیماریوں کا امنڈتا ہوا لاوا ، جہالت کا عذاب اور بے روزگاری کا وہ جن ہے جس نے عالمی طور پر محنت کشوں اور غریبوں کو موت کی دہلیز پر آن کھڑا کیا ہے۔

بڑے بڑے ممالک سے چھوٹے چھوٹے ممالک اور ان پر حکومت کرنے والے کرپٹ، بد دیانت اور سرمایہ دار حکمران بزور طاقت اپنی جابرانہ اقتصادی اور معاشی پالیسیوں کے ذریعے جہاں پوری دنیا پر اپنا راج قائم رکھنا چاہتے ہیں وہیں وہ نہ صرف اپنے ممالک میں بھوک ، غربت اور مختلف مشکلات کو جنم دے رہے ہیں بلکہ وہ بین الااقوامی طور پر اپنے آپکو غیر محفوظ بھی کر رہے ہیں جسکی سب سے بڑی مثال مختلف اشکال میں پائی جانے والی دہشت گردی ہے جس سے وہ خوفذدہ ہیں اور وہ اس دہشت گردی میں برابر کے مجرم ہیں۔

غربت ، بھوک اور ننگ کے سامنے خدا بھی آتے ہوئے ڈرتا ہے کیونکہ غربت بھوک اور ننگ کو خدا سے کچھ لینا دینا نہیں ہاں اگر خدابھوک اور ننگ کے سامنے روٹی کی شکل میں نمو دار ہو جائے تو شاید وہ اسکا بھرم رکھ لے۔بھوک اور غربت کے سامنے نہ تو کوئی دینی واعظ ، نہ ہی کوئی پیش گوئی کرنے والا ،نہ ہی کوئی علم و دانش اور نہ ہی کوئی خیال آرائی کام آتی ہے ۔ بھوک کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے ، بھوک صرف کھانے سے ختم ہوتی ہے اور اس پر سرمایادارانہ نظا م کا قبضہ ہے ۔ پوری دنیا میں بسنے والی اقوام پر حکومت کرنے والوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ غربیوں کو روٹی کپڑا اور سر چھپانے کیلئے گھر فراہم کریں کیونکہ یہ ہر انسان کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے اور یہ ایک انتہائی قبیح جرم ہے جس میں ہمارے مذہبی پیشوا، سیاستدان اور حکمران ملوث پائے جاتے ہیں ۔ گو کہ اب پوری دنیا میں غربت او ر بھوک کو ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں مگر یہ باتیں صرف ان حلقوں میں کی جاتی ہیں جو بھوک اور غربت سے نبرد آزما ہیں اور اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر دنیا بھر کے سرمایہ دار، جاگیر دار اور دولت مند وں کی چاپلوسی کرنے والے یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ بھوک اور ننگ ختم ہو کیونکہ اسی سے انکے مفادات وابسطہ ہیں۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کی معیشت بہت مضبوط ہے مگر غربت وہاں پر بھی ہے، لوگ وہاں بھی اپنی راتیں فٹ پا تھوں ، پارکوں اور دوکانوں کے سامنے بنے ہوئے چبوتروں پر بھوکے پیٹ بسر کرنے پر مجبور ہیں جسکی سب سے بڑی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔ بھوک اور ننگ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اس بات کا تعین کرنا خاصا مشکل کام ہے کہ غربت یا پھر بھوک میں سے پہلے کونسا عنصر آتا ہے۔ کرہ ارض پر ہوس زر اور اپنی سلطنت کو بڑھاوا دینے والی شرمناک جنگیں انسانوں کو تباہی اور بربادی کیطرف لے جا رہی ہیں اور یہ صرف اسلحے کی دوڑ اور اس سے اپنی معیشت کو مضبو ط بنانے اور پوری دنیا پر طاقت ور بننے کا وہ خواب ہے جو صدیوں پر محیط ہے اور ان جنگوں میں کروڑوں انسان تاحال لقمہء اجل بن چکے ہیں ۔ طاقت کو حاصل کرنے اور پوری دنیا پر حکومت کرنے کے اس کھیل میں رنگ و نسل، مذہب، سیاست اور معیشت کے لالچ نے انتہائی خطرناک کردار ادا کیا ہے۔ جنگیں، افواج کی فتوحات، بادشاہوں کی سلطنتیں، آسمان پر اڑنے ، چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے، خلاء میں پرواز کرنے کے خواب، زہر یلا دھواں اگلتی ہوئی فیکٹریوں کی چمنیاں، بھاری بھرکم مشینریاں، وہ جنہوں نے موجودہ انسانی تہذیب کو اس نہج پر لانے کیلئے اپنا کردار کیا وہ سب کے سب کروڑوں انسانوں کی بھوک اور غربت پر اپنی اپنی امارات کی بنیاد رکھ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔ انہیں شاید یہ علم ہی نہیں کہ بھوک اور غربت وہ طاقتور جانور ہیں جو انکی انکے حالات پر رکھی گئی بنیادوں کو پلک جھپکنے میں ہلا کر رکھ دینگے اورانہیں تار تار کر دینگے۔افریقی، ایشیائی، لاطینی امریکہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی اور شمالی ایشیاء کی اقوام نے پوری دنیا کی تہذیت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ قحط سالی کی ما ری ہوئی افریقی اور ایشیائی قومیں اور انکا دم توڑتا ہوا معاشرہ اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انکی حکومتوں نے غربت اور بھوک سے بنر د آ زما ہونے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف افریقہ میں سو ملین سے ذیادہ لوگ ہیں جو بھوک اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انکے ہڈیاں نکلے ہوئے اجسام ، بے رونق اور فاقہ زدہ چہرے طاقت کے زعم میں مست ہاتھیوں کی طرح پھیلے ہوئے ان ممالک کیلئے باعث شرم ہیں جو اقوام عالم پر اپنی معیشت اور اسلحے کے زور پر حکومت کرتے ہیں ۔ 1972 سے تا حال افریقہ میں بھوک اور غربت سے مرنے والے 40 ملین کو پہنچ چکے ہیں مگر اسلحے کی دوڑ میں مبتلا آسمانوں کو چھونے والے ممالک اور ان پر راج کرنے والے شہنشاہوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی جو انکے مہذب ہونے کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے۔ ہمیں اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بھوک اور غربت کھانے پینے کی اشیاء کے فقدان سے نہیں بلکہ یہ ہمارے گلے سڑے ، ناقص اور ناکارہ نظام کیوجہ سے ہے جس میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی چیرہ دستیاں شامل ہیں۔غربت کی لعنت کی بنیاد دولت کی غیر مساویانہ تقسیم پر رکھی گئی ہے جو صرف غریبوں تک محدود نہیں بلکہ یہ لعنت سامراجی امیروں کے ایوانوں تک پہنچتی ہے۔ وہ بھی مقابلے کی اس لعنت کا شکار ہیں اور انہیں اس لعنت کا شکار ہونا چاہئے اور کوئی بھی اس لعنت سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ سرمایادارانہ نظام جسکے تحفظ کیلئے بھوک اور غربت کے راستے کھولے جا رہے ہیں اور غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال کرکے انہیں مذید کمزور کیا جا رہا ہے صرف اور صرف سرمایے کو بڑھانے کی وہ جنگ ہے جسمیں غریبوں اور محنت کشوں کو سرمائے کی اس بھٹی کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ سرمایا دار خواہ مقامی ہو یا پھر بین الا اقوامی ہو وہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور وہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے مقامی طور پر اور بین الاقوامی طور پر محنت کشوں کا استحصال کرکے بین الاقوامی طور پر بھوک،افلاس اور غربت پھیلانے میں مجرمانہ کردار ادا کر رہا ہے۔اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ٹی بی، ہیپا ٹائٹس، دمہ اور دوسری چھوتی بیماریاں ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اموات کا باعث کم جبکہ غربت اور بھوک انسانوں کو مارنے میں خطرناک حد تک اپنا کردار کر رہی ہیں۔ غربت چھوتی بیماریوں سے ذیادہ خطرناک ہے کیونکہ اگر ہم اپنے شہروں اور دیہاتوں میں دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لوگ بھوک اور غربت سے کیسے مر رہے ہیں ۔ خوراک کی کمی اور موسم کے مطابق لباس کا نہ ہونا غریبوں کی بستیوں میں ہر ایک آنے والے نئے بچے کیلئے موت کا پیغام ہے اور یہ نو مولود بچے مکھیوں اور مچھروں کی طرح ہر روز مر رہے ہیں مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور ارباب اختیار جو ان حقیقتوں کو جانتے بوجھتے آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں وہ بھوک اور غربت پھیلانے کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ اگر غربت ، بھوک اور ننگ کی وجہ سرمایا دار اور جاگیر دار ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جو اس جرم کے برابر کے شریک ہیں لیکن اگر غربت غیر ضروری ہے تو یہ پھر ایک جرم ہے اور ہمارا معاشرے میں رہنے والے لوگ اسکے مجرم ہیں جسکی وجہ سے ہمارا معاشرہ اس لعنت میں گھرا ہوا ہے اور ان مجرموں کے ہاتھوں مجبور ہے۔

مذہب کے وہ ٹھیکیدار جو جاگیرداروں اور سرمایا داروں کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں اور انکی دلالی کرتے ہیں اور غربت ، افلاس اور بھوک کو مذہب کے نام پر خدائی فیصلہ قرار دیکر ان غریبوں، ناداروں، مفلسوں اور بھوکوں کو رضائے الہیٰ قرارد دیتے ہیں اور اسے انکی قسمت سے منسوب کرتے ہوئے جاگیرداروں اور سرمایا داروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر انکا استحصال کرتے چلے آ رہے ہیں اب بھوکوں اور غریبوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانی چاہئے کہ یہ ہمارے معاشرے کی اس کلاس کا غریبوں کے ساتھ ایسا گھناؤنا استحصال ہے جو انہوں نے مذہب کی آڑ لیکر سالہا سالوں سے جہالت کے اندھیروں میں گھرے بھوکوں کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس معاشرے میں تمام بنیادی سہولتیں اور ذائد الضرورت سرمایہ چند ہاتھوں میں ہوگا وہاں غربت نے ضرور ڈیرے ڈال رکھے ہونگے، وہاں بھوک اور ننگ کا بازار گرم ہوگا ، وہاں لوگ بیماریوں سے مر رہے ہونگے، وہاں عورتوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہونگی، وہاں انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہونگی، وہاں ایک خاص طبقے کیلئے سب کچھ اور غریب طبقے کیلئے اندھیرا اور جہالت ہوگی، وہاں تعلیم کا معیار انتہائی گھٹیا ہوگا جو صرف سرمایادار اور جاگیر دار طبقے کی میراث ہوگا، ایسے معاشروں میں جرائم کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہوگی، وہاں ادویات کا معیار گھٹیا ہوگا اور جعلی اور بوگس ادویات کی بھرمارہوگی، ایسے معاشرے میں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اپنے زوروں پر ہوگی، لوگوں کو مردار جانوروں کا گوشت کھلایا جا رہا ہوگا، پینے کا صاف پانی غریبوں اور محنت کشوں کی پہنچ سے باہر ہوگا۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ جہاں عام اور غریب لوگ رہتے ہیں وہاں اندھیروں کا راج کیوں ہے، وہاں صفائی کا نظام درہم برہم کیوں ہے، وہاں پر مچھروں اور مکھیوں کا راج کیوں ہے، وہاں پر بچے بیمار کیوں پڑتے ہیں، ان علاقوں میں سیوریج کا نظام انتہائی گندہ کیوں ہے، ان علاقوؓں میں ہر وقت فضاء میں تعفن اور بدبو کیوں پھیلی رہتی ہے، ہماری گلیوں میں گندگی کے ڈھیر کیوں ہیں، ہماری سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ہمارے چلنے پھرے میں مانع ہیں اسلئے کہ شاندار اور پوش علاقوں میں رہنے والے اول کلاس سے تعلق رکھنے والے ہم سے ہمارا سب کچھ چھین کر لے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ان پر خرچ ہو جاتا ہے اور اسکا نتیجہ غریبوں کی زوال پزیری کی شکل میں ظا ہر ہوتا ہے ۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو پھر بھوکے او ر ننگے لوگ بازاروں ، گلیوں اور سڑکوں پر اپنی جھونپڑیوں سے باہر نکل آتے ہیں اور سرمایا داروں اور جاگیرداروں کے بڑے بڑے گوداموں میں سٹاک کی ہوئی اشیائے خوردو نوش اور ضرورت کی چیزوں کی لوٹ لیا کرتے ہیں اور یہ وہ چیزیں ہوا کرتی ہیں جو غریب عوام کو بھوکا مار کر ذخیرہ اندوزی کی غرض سے منافع کمانے کیلئے ذخیرہ کی ہوئی ہوتی ہیں یہ ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے جو بھوکوں کو مار کر منافع کمانے کیلئے کیا جاتا ہے مگر بھوک کو ختم کرنے کیلئے سرمایا دارانہ اور جاگیردارانہ حکومتیں کوئی اقدام نہیں اٹھاتیں ۔

آئیں ہم سب مل کر سوچیں کہ کیا ہمارے معاشرے میں پھیلتی ہوئی بھوک ، ننگ، افلاس اور غربت ہماری قسمت ہے یا یہ سرمایا داروں، جاگیرداروں اور انکے نام نہاد مذہبی گماشتوں اور ٹھیکیداروں کا نا قابل معافی وہ جرم ہے جو وہ صدیوں سے کرتے چلے ٓ رہے ہیں اور تاحال جاری ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ محنت کشوں کو انکے حقوق دئے جائیں۔ زمینیں اور صنعتیں جن پر محنت کش دن رات کام کرتے ہیں مگر انہیں کچھ نہیں دیا جاتا ان زمینوں اور صنعتوں کو کسانوں اور مزدوروں کے کنٹرول میں دیا جائے، نجکاری کی پالیسی پر پابندی عائد کی جائے، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کیا جائے، ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا جائے ، تعلیم سب کیلئے یکساں کی جائے، سب انسان برابر ہیں لہٰذا صحت کے مواقع سب کیلئے یکساں فراہم کئے جائیں، افراط زر پیدا کرنے والے عوامل سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے، سرمایے کا ارتکاز چند ہاتھوں سے نکال کر اسے پھیلایا جائے۔ غلامانہ روش کو ختم کرکے محنت کشوں کا استحصال ختم کیا جائے۔ہمیں اپنی تمام تر ذلتوں سے نجات حاصل کرکے اس نظام کے خلاف لڑنا ہے جو ہمیں ذلت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے ۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری سے نجات اور اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ہمیں انے طاغوتی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور موجودہ استحصالی نظام سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کرنا ہوگا کہ یہی ہمارے لئے راہ نجات ہے۔
Syed Anees Bukhari
About the Author: Syed Anees Bukhari Read More Articles by Syed Anees Bukhari: 136 Articles with 139684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.