آ ج کا چین

ایک ارب 35 کروڑ افراد کی آبادی پر مشتمل چین آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اور رقبے کے لحاظ سے روس، کینیڈا اور امریکہ کے بعد چوتھا بڑا ملک ہے۔ اس کی سرحدیں 14 ممالک سے ملتی ہیں جن میں روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان، بھارت، نیپال، بھوٹان، برما، کوریا، لاؤنس، منگولیا اور ویت نام شامل ہیں۔ 22 صوبوں اور کئی خودمختار علاقوں سنکیانگ، مکاؤ، ہانگ کانگ وغیرہ پر مشتمل اس ملک کا معاشی اعتبار سے پھلنا پھولنا آج ساری دنیا کے لیے توجہ کا باعث ہے۔ مجھے بارہا چین جانے کا اتفاق ہوا اور ہر بار ایک نیا تجربہ ہوا۔ نئی نئی باتیں اور نئے نئے واقعات سے پالا پڑا جو یقینا دلچسپی کا باعث ہیں۔ چین چونکہ ایک بڑا ملک ہے اس میں ہر طرح کا موسم ہوتا ہے۔ سوائے سخت گرمی کے North میں سخت سردی جب کہ South میں سردیوں کا موسم خوشگوار سا ہوتا ہے۔ سر دیوں یں ارمچی اور بیجنگ میں درجہ حرا ر ت منفی 20 ڈگری تک ہوتا ہے جبکہ گوانگ ژو میں چھ سات ڈگری ہوتا ہے مگر ایک چیز جو چین میں مَیں نے خاص طور پردیکھی وہ عجیب ہے کہ موسم پل بھر میں بدل جاتا ہے۔ سخت دھوپ میں آپ باہر نکلے ہیں ابھی دس قدم نہیں چلے کہ موسلادھار بارش شروع ہو جائے گی۔ پندرہ بیس منٹ بارش کے بعد موسم بالکل ویسا ہی ہو جائے گاجیسا پہلے تھا۔ وہی چمکتی ہوئی دھوپ، اور چین کے لوگ اس کے اس قدر عادی ہیں کہ ادھر بارش شروع ہوئی ادھر ہر ایک کے ہاتھ میں آپ کو چھتری نظر آ رہی ہو گی۔ پتہ نہیں کہاں چھپا کے رکھتے ہیں۔ عورتیں تو خیر پرس میں ڈالتی ہوں گی مگرمرد بھی کہیں نہ کہیں جیب میں رکھے ہوتے ہیں۔ کاروبارِ زندگی کو بارش کوئی فرق نہیں ڈالتی۔ میں ہوٹل کے کمرے سے باہر جانے کے لیے نکلا۔ کھڑ کی سے تیزدھوپ آ رہی تھی۔ چھٹی منزل سے نیچے پہنچا اورلابی سے باہر دیکھا تو شدید بارش۔

پولٹ بیورو کمیونسٹ پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کا نام ہے۔ یہ کمیٹی چین میں طاقت کا منبع ہے۔ اس کے بعد 210 ارکان پر مشتمل سنٹرل کمیٹی ہے جس میں نوجوان ارکان اور صوبوں کے نمائندے شامل ہیں۔ گر اس روٹ لیول پر پارٹی نے فوج، یونیورسٹی، انڈسٹری یعنی ہر جگہ ایک متوازی حکومت کمیٹی قائم کی ہوئی ہے جو چیک اور بیلنس رکھتی ہے۔ اور عملاً پارٹی کے عہدیداروں کو ہر فیصلے میں فوقیت حاصل ہے جب کہ یہ عہدیدار پارٹی Direction کے مطابق کام کرتے ہیں۔ (تنوی) یونین کونسل کی طرح Basic Unit ہے۔ ہر چائینز اس کا ممبر ہے۔ گھروں کے چھوٹے چھوٹے مسائل، شادی، طلاق، رہائش، نوکری اوراس طرح کے تمام مسائل کو حل کرنا اس یونٹ کا کام ہے۔ تنوی کے ممبران کو Politically Elite کہا جاتا ہے۔

چین 1949 میں آزاد ہوا۔1960ء میں ماؤزے تنگ نے Cultural Revolution کی بنیاد رکھی۔ اس Revolution میں پرولتاری اور بورژوا کی اصطلاحات بہت عام سنی گئیں۔ ماؤزے تنگ کاخیال تھا کہ ذاتی ملکیت چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو Capitalisation ہے اور یہ غریبوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے۔ ماؤ نے کہا کہ NO construction without distruction۔ ماؤ نے کہا کہ آزاد دنیا کے ساتھ کوئی معاشی تعلق نہ رکھو کیونکہ اس تعلق سے تم ان کے غلام ہو جاؤ گے۔ ماؤ کے یہ خیالات سن کردنیا بھر میں اس کے پیروکار جھوم جھوم اٹھے۔دنیا بھر میں ہر جگہ انقلابی توڑ پھوڑ کے نعرے لئے دندنانے لگے کہ ماؤ نے کہا ہے تعمیر کی ابتدا تخریب سے ہوتی ہے۔ چین میں Cultural Revolution کو عملی جامہ پہنانے کے لیے Red Gaurd کی صورت میں پارٹی ورکر حرکت میں لائے گئے۔ یہ پارٹی ورکر کچھ نہیں کرتے تھے ماسوائے دہشت پھیلانے کے۔ ذاتی ملکیت میں کھو کے سے لے کر بڑی بڑی ملوں تک کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ منفعت بخش انڈسٹری کو بری طرح توڑا پھوڑا گیا۔ کسی شخص نے کسی چھوٹی سی چیز کو اپنی ملکیت ظاہر کیا۔ ریڈ گارڈ نے اس چیز کو فوراً تہس نہس کردیا۔ چین نے وہ چند سال نہایت افراتفری میں گزارے۔ وہ لوگ جو دنیا بھر میں کمیونسٹ انقلاب کے داعی تھے جب چین جاتے تو وہاں کی صورتحال انہیں انتہائی مایوس کرتی۔ Red Gaurds پورے ملک میں دندناتے پھر رہے تھے۔ وہ فیکٹریوں، سکولوں، لائبریریوں کو آگ لگا دیتے اور بے گناہوں کو بلاوجہ مار دیتے۔ ماؤ کے جانشین تنگ سیاؤ ینگ کے جوان بیٹے کو چوتھی منزل سے نیچے گرا کر مار دیا گیا۔ اس Cultural Revolution کے دوران سکول بند رہے۔ عبادت گاہوں کو فیکٹریاں قرار دے دیا گیا۔ مسجدوں سے امام، گرجوں سے پادری اور نن اور مندروں سے مونک پکڑ کر جیل میں بند کر دیئے گئے یا کسی انڈسٹری میں جبری مشقت پر لگا دیئے گئے۔ تمام اہل فکر، اساتذہ، اصحاب دانش قید کر دیئے گئے اور اس سارے عمل کو عوامی انقلاب قرار دیا گیا۔

1976ء میں ماؤزے تنگ انتقال کر گئے تو پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی۔ جلد ہی ماؤ کے حامی گروپ کے چار لیڈروں کو جس میں ماؤ کی بیگم جیانگ چنگ بھی شامل تھی گرفتار کر لیا گیا اور اسے چار کا ٹولہ قرار دیاگیا۔ ماؤ کی بیگم نے اسی قید میں 1991ء میں خودکشی کی ۔چار کے ٹولے کی گرفتاری کے بعد چین میں معیشت کا پہیہ جس سمت میں ماؤ چلا رہے تھے اس سے الٹا گھومنا شروع ہوا۔

1980ء کے اوائل میں مسجدوں، گرجوں اور مندروں کو بحال کردیا گیا۔ گو یہ سیاحت کے لیے تھا مگر عملی طور پر اس سے ہرمسلک کے لوگوں نے اپنی عبادت گاہوں میں آنا جانا شروع کردیا۔چین کے بہت سے شہروں میں مسجدیں اب پوری طرح آباد ہیں۔ہرمچی اور گوانگ ژو کی مسجدوں میں مجھے بھی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ گوانگ ژوشہر کے وسط میں ایک قبرستان ہے جس میں حضرت سعد کامزارلوگوں کی بھرپور توجہ کا مرکز ہے۔ یہاں جمعہ کے دن بہت سے لوگ نماز بھی ادا کرتے ہیں Cultural Revolution کے دوران جو مقدس کتابیں ضائع ہو گئی تھیں وہ بہرحال ایک ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ کبھی بھی ممکن نہیں بہر حال جو بیت گیا سو بات گئی۔1989ء میں چین میں ایک نیا دور شروع ہوا ایک نیا انقلابی دور جس کا ماؤزے تنگ کے خیالات اور نظریات سے کوئی تعلق نہ تھا مگر اس کے باوجود ماؤزے تنگ کے احترام اور مقام میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ نیا شروع ہونے والا دور وہ دور ہے کہ جس کے بارے میں نپولین نے برسوں پہلے کہا تھا:
"China is a sleeping giant. Let her sleep for when she awakes, she will astonish the world."
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444529 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More