فارسی کے نامور شاعر اور عظیم
مصلح شیخ فریدالدین عطّار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اے برادر گر خرد داری تمام
نرم وشیریں گوئی بامردم کلام
ہرکہ باشدتلخ گوی وترش روے
دوستاں ازوے بگردانندروے
”اے پیارے بھائی! اگر تم کامل عقل رکھتے ہو تو لوگوں سے نرم اور شیریں
گفتگو کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص ترش رو اور سخت بات کہنے کا عادی ہو تو دوست
بھی اس سے دور بھاگ جاتے ہیں“۔
آج اکثر و بیشتر مسلمانوں میں خوش خلقی، خندہ روئی، کشادہ پیشانی اور فراخ
دلی جیسی عمدہ صفات ناپیدہوتی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب اسلام اور
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت
بتلائی ہے جن سے آگاہی ہر مسلمان کیلیے انتہائی ضروری ہے۔ کتب احادیث میں
اس حوالے سے بہت سی احادیث موجودہیں۔ ذیل میں حدیث کی مشہور کتاب ”الجامع
للامام الترمذی“سے چند احادیث کا اردو ترجمہ اور آسان تشریح پیش کی جارہی
ہے کیونکہ اسوہ حسنہ میں ہی ہماری کامیابی ہے
حضرت ابوالدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کے ترازو میں اچھے اخلاق سے
بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بدگو کو
مبغوض رکھتے ہیں۔
تشریح....انسان میں دو طرح کے اخلاق رکھے گئے ہیں۔ اچھے اخلاق، جیسے صبر،
شکر، تواضع، رضا و توکل وغیرہ اور برے اخلاق جیسے حسد، کبر، ریا وغیرہ۔
اخلاق حسنہ کو حاصل کرنا اور اخلاق رذیلہ سے قلب کو پاک کرنا شریعت کے
مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصد ہے، جس کیلئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کو مبعوث کیا گیا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
بعثت لا تمم حسن الاخلاق (مشکوة)
”مجھے حسن اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے“۔
بعثت لاتمم صالح الاخلاق(مستدرک حاکم)
”مجھے صالح اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث کیا گیا“
چونکہ ظاہری اعمال باطنی اخلاق کا اثر ہیں، اس لئے حسن اخلاق سے بڑھ کر
کوئی چیز میزان میں بھاری نہیں ہوگی اور حسن اخلاق کے مقابلہ میں بداخلاقی،
فحش گوئی اور بے حیائی ہے جس کے بارے میں فرمایا کہ ایسا شخص جس میں یہ
خصلتیں پائی جاتی ہوں، اللہ تعالیٰ کی نظر میں مبغوض اور ناپسندیدہ ہے۔
حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ قیامت کے دن میزان عدالت میں
کوئی ایسی چیز نہیں رکھی جائے گی جو حسن اخلاق سے بھاری ہو اور خوش اخلاق
اپنی خوش اخلاقی کی بدولت روزے اور نماز والے شخص کے درجے کو پہنچ جاتا
ہے“۔
تشریح.... یعنی ایک شخص نفلی نماز روزے کی کثرت کرتا ہے اور دوسرا شخص نفلی
نماز روزہ نہیں کرتا لیکن لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے تو
چونکہ حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ کرنا بھی ایک نیک عمل ہے اور سب سے بھاری
عمل ہے اس لئے صاحب خلق حسن، روزہ، نماز والے کے درجے کو پالیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
دریافت کیا گیا کہ وہ کون سی چیز ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ جنت میں داخل
کرے گی؟ فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور خوش اخلاقی! اور سوال کیا گیا کہ
وہ کون سی چیز ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ دوزخ میں ڈالے گی؟ فرمایا، منہ
اور شرمگاہ۔
تشریح.... چونکہ تقویٰ تمام اعمال صالحہ کا راس رئیس ہے اور حسن اخلاق تمام
اعمال صالحہ سے بھاری عمل ہے اس لئے یہ دونوں لوگوں کو جنت میں لے جانے کے
زیادہ باعث ہوں گے اور پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات کو غلط طریقے سے پورا
کرنا بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اس لئے یہ دونوں چیزیں سب سے زیادہ دوزخ
میں لے جانے کا سبب ہوں گی۔
حضرت عبداللہ بن مبارک (رض) کا ارشاد ہے کہ انہوں نے خوش خلقی کی تشریح
کرتے ہوئے فرمایا کہ خوش خلقی، کشادہ پیشانی، دوسروں کی بھلائی سے دریغ نہ
کرنے اور اپنی ایذا سے لوگوں کو بچانے کا نام ہے“۔
تشریح.... اوپر عرض کیا گیا کہ ”خوش اخلاقی“ کا مفہوم بڑا وسیع ہے اور یہ
تمام اخلاق حسنہ کو شامل ہے لیکن عرف عام میں لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ
پیش آنے کو ”خوش اخلاقی“ کہا جاتا ہے، اسی مفہوم کو حضرت عبداللہ بن مبارک
(رض) بیان فرما رہے ہیں کہ خوش خلقی یہ ہے کہ لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ
ملے، دوسروں کی نفع رسانی میں دریغ نہ کرے اور لوگوں کو اپنی ایذاﺅں سے
بچائے۔
ابوالاحوص (عوف بن مالک) اپنے والد حضرت مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہما سے
روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں ایک
شخص کے پاس سے گزرتا ہوں وہ میری مہمانی اور ضیافت نہیں کرتا، پھر وہ میرے
پاس سے گزرے تو کیا میں بھی اس سے یہی سلوک کروں؟ فرمایا نہیں! تم اس کی
مہمانی کرو، اور آنحضرتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں نے
پرانے بوسیدہ کپڑے پہن رکھے ہیں تو دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس مال
ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے اونٹ
بھی، بکریاں بھی، فرمایا پھر اللہ تعالیٰ کے انعام کا اثر تم پر نظر آنا
چاہئے“۔
تشریح.... کوئی مسافر، اجنبی اگر کسی کے پاس آئے تو حسب توفیق اس کی مہمانی
کرنا مکارم اخلاق میں شامل ہے اور اگر کوئی شخص ایسا نہ کرے تو یہ اخلاق سے
گری ہوئی بات ہے، اس حدیث پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے
ساتھ اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرے تو تم اس کے مقابلہ میں بلندی اخلاق کا
مظاہرہ کرو۔
دوسرا مضمون حدیث میں یہ بیان فرمایا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و
دولت سے نوازا ہو تو اس کے بدن پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اثر ظاہر ہونا
چاہئے۔ یہ بھی تحدیث بالنعمة کی ایک صورت ہے۔ ایسے شخص کو پھٹے پرانے کپڑوں
میں رہنا مناسب نہیں جس سے لوگوں کو محسوس ہو کہ یہ بے چارا نادار آدمی ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل
کرتے ہیں کہ تم لوگ دوسروں کے پیچھے چلنے والے نہ بنو کہ تم یوں کہنے لگو
کہ اگر لوگ ہم سے اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آئیں گے اور اگر وہ ہم سے بے انصافی کریں گے، تو ہم بھی بے انصافی کریں گے
بلکہ تم اپنے نفسوں کو اس کا عادی بناﺅ کہ اگر لوگ احسان کریں تو تم بھی
احسان کرو گے اور اگر وہ تم سے برا سلوک کریں تو تم ان کے ساتھ بے انصافی
نہیں کرو گے“۔
تشریح.... عربی میں ”امعہ“ کہتے ہیں لوگوں کی ریس کرنے اور ان کی تقلید
کرنے والے کو، مطلب یہ کہ اگر تم یہ اصول اپناﺅ کہ اگر لوگ ہم سے بھلائی
کریں گے تو ہم بھی ان سے بھلائی کے ساتھ پیش آئیں گے اور اگر لوگ ہم سے
برائی کے ساتھ پیش آئیں گے تو ہم ان سے بڑھ کر برائی کے ساتھ پیش آنے والے
ہوں گے تو تم لوگوں کی ریس کرنے والے اور ان کے پیچھے چلنے والے ٹھہرو گے،
عام طور پر لوگ اسی اصول پر کاربند ہیں۔ چنانچہ ایک جاہلی شاعر کہتا ہے۔
الا لا یجہل احد علینا
فتجہل فوق جہل الجاہلینا
خبردار! کوئی ہم سے جہالت کا برتاﺅ نہ کرے، ورنہ ہم تمام جاہلوں سے بڑھ کر
جاہلیت کرنا جانتے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس
تقلیدی اصول کو بدلو، تم اپنا اصول یہ بناﺅ کہ اگر لوگ ہم سے بھلائی کریں
گے تو بلاشبہ ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر لوگ ہماری حق تلفی کریں اور
ہمارے ساتھ ظلم وبے انصافی کے ساتھ پیش آئیں تو ہم ان کی حق تلفی نہیں کریں
گے اور ان کے ساتھ ظلم ونا انصافی نہیں کریں گے۔
حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ تم لوگوں میں مجھے سب سے محبوب شخص اور ایسا شخص جس کی مجلس
قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب ہوگی، وہ لوگ ہیں جو تم میں سب سے زیادہ
خوش اخلاق ہوں اور تم میں میرے لئے سب سے ناپسندیدہ لوگ اور جو قیامت کے دن
مجھ سے سب سے زیادہ دور ہوں گے وہ تین قسم کے لوگ ہیں:
اول: ثرثارون....یعنی جو بہت باتونی ہوں
دوم: متشد قون.... یعنی جو بات بات میں دوسروں کو دباتے ہوں اور ان کے حق
میں بدزبانی کرتے ہوں۔
سوم: متفیہقون.... صحابہ نے عرض کیا، یارسول اللہ! پہلی دو قسم کے لوگوں کو
تو ہم جانتے ہیں، یہ تیسری قسم کے کون لوگ ہیں، فرمایا: متکبر لوگ۔
کسی پر لعن طعن کرنا
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے
ہیں کہ مومن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا، ایک اور روایت میں ہے کہ مومن لعنت
کرنے والا نہیں ہوتا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ مومن کے شایان شان نہیں کہ
وہ لعنت کرنے والا ہو“۔
تشریح.... لعنت، رحمت کی ضد ہے اور اس لعنت کرنے کے معنیٰ ہیں کسی کیلئے
رحمت خداوندی سے دور ہونے کی دعا کرنا۔ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ سب کیلئے
رحمت کی دعا کرنے والا ہو، نہ کہ رحمت سے دوری کی، اسی بنا پر اہل سنت اس
کے قائل ہیں کہ کسی شخصیت پر اس کا نام لے کر لعنت کرنا جائز نہیں، سوائے
ان لوگوں کے جن کا کفر پرخ اتمہ ہونا معلوم ہو، البتہ صفات پر لعنت کرنا
صحیح ہے، مثلاً جھوٹوں پر لعنت، کافروں پر لعنت وغیرہ۔
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کچھ تعلیم
فرمائیے لیکن بات مختصر سی ہو، لمبی نہ ہو تاکہ میں محفوظ کرسکوں، ارشاد
فرمایا: غصہ نہ کیا کر، غصہ نہ کیا کر، بار بار اسی کو دہراتے رہے کہ ”غصہ
نہ کیا کر، غصہ نہ کیا کر“۔
تشریح.... غالباً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو منکشف ہوا ہوگا کہ ان
صاحب میں غصہ کا مرض ہے اس لئے ان کو غصہ ترک کرنے کی بطور خاص تاکید
فرمائی اور اسی ایک فقرے کو دہرانا اس کی تاکید کیلئے تھا تاکہ غصہ کی
برائی مخاطب کے دل میں خوب بیٹھ جائے۔
حضرت معاذ بن انس الجہنی (رض) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل
کرتے ہیں کہ جس شخص نے غصہ کو نافذ کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود غصہ کو پی
لیا تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ان تمام لوگوں کے سامنے بلا کر
اختیار دیں گے کہ ان حوروں میں سے جون سی حور کو چاہے چھانٹ لے“۔
تشریح.... جو شخص اپنے غصہ کے مقتضیٰ پر عمل نہ کرسکتا ہو اور اپنے غصہ کو
جاری اور نافذ کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ بے چارا غصہ کا کڑوا گھونٹ پینے
پر مجبور ہے لیکن جو شخص اختیار واقتدار کا مالک ہو اور اپنے غصہ کو نافذ
کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس کا صبروتحمل سے کام لینا اور غصہ کو پی جانا بڑے
حوصلے اور مردانگی کا کام ہے، اس لئے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا اعزاز
فرمائیں گے اور سب کے سامنے اس کو انعام واکرام سے نوازیں گے۔ اس حدیث شریف
سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غصہ کا علاج ضبط کرنا ہے اور درج ذیل امور غصہ کے
ضبط کرنے میں معین ہیں:
۱۔ اپنے جرائم کے ساتھ حق تعالیٰ شانہ کے حلم کا استحضار کیا جائے کہ میں
اللہ تعالیٰ کا کس قدر قصور وار اور مجرم ہوں مگر اللہ تعالیٰ پوری قدرت کے
باوجود میرے جرائم پر حلم فرماتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح مجھ پر
گرفت فرمائیں تو میرا کیا ٹھکانا ہوگا؟
۲۔ اعوذ باللہ پڑھ لی جائے۔۳۔ ٹھنڈا پانی پی لیا جائے۔۴۔ آدمی وہاں سے ہٹ
جائے۔۵۔ کسی دوسرے کام میں لگ جائے۔۶۔ کھڑا ہوتو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو
لیٹ جائے۔۷۔ جس شخص پر غصہ کیا ہو بعد میں اس سے معافی مانگ لے۔
حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ نہیں اکرام کیا کسی جوان نے کسی بوڑھے کا اس کے سن وسال کی وجہ سے مگر
مقرر کردیں گے اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو جو ان کا اکرام کرے اس کے بڑھاپے
میں“۔
تشریح.... جو شخص کسی معمر بزرگ کا اس کے سن وسال کی وجہ سے اکرام کرتا ہے
اس کیلئے اس حدیث پاک میں دو خوشخبریاں ہیں، ایک یہ کہ اس کو طویل عمر نصیب
ہوگی، یہاں تک کہ یہ شخص بڑھاپے کو پہنچے گا، گویا بوڑھوں کی خدمت کرنا عمر
کو بڑھاتا ہے، دوسری خوشخبری یہ ہے کہ جب یہ جوان بوڑھا ہوگا تو حق تعالیٰ
شانہ اس کی خدمت کیلئے نوجوانوں کو کھڑا کردیں گے۔ گویا اس پر ”ہر کہ خدمت
کرد اومخدوم شد“ کامضمون صادق آئے گا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا ہر پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھلتے ہیں۔ پس ان دونوں دنوں
میں ہر ایسے شخص کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ
ٹھہراتا ہو ( یعنی مسلمان ہو) مگر ایسے دو شخص جنہوں نے آپس میں قطع تعلق
کیا ہوا ہو، ان کی بخشش نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کو واپس
کردو (یعنی ان کامعاملہ مؤخر کردو) یہاں تک کہ یہ دونوں آپس میں صلح کرلیں۔
مصنف فرماتے ہیں کہ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ کسی مسلمان
کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق
رکھے“۔
تشریح.... اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں قطع تعلق کتنا
برا اور کتنا بڑا گناہ ہے کہ ایسے اوقات میں بھی ان کی بخشش نہیں ہوتی جن
میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوسکتا
ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کے ساتھ کیسی شفقت ہے کہ ان کی آپس کی رنجش
اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں، جس طرح والدین کو اپنی اولاد کی باہمی رنجش سے
رنج ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندوں کی باہمی رنجش اور قطع
تعلق سے ناراض ہوتے ہیں۔ |