حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی، غیر تشریعی، ظلی، بروزی یا نیا نبی نہیں
آئے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ
کافر، مرتد، زندیق اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیاتِ
مبارکہ اور حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تقریباً دو سو دس
احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر پختہ ایمان”عقیدہ
ختم نبوت“کہلاتا ہے۔
قرآن مجید، ایک سراپا اعجاز کتاب ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ علم وحکمت کا خزینہ
ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر دور ہر خطہ کے ہر ایک انسان کی مکمل
راہنمائی کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسلام دشمنوں کی طرف سے اسلام کی بیخ
وبن کو ہلا دینے والے خطرناک طوفانوں میں بھی اس کی عظمت و وقار میں رتی
بھر فرق نہ آیا، اور نہ قیامت تک آئے گا۔ کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے
اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ہر
مسئلہ میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے، اسی طرح وہ عقیدہ ختم نبوت کو بھی
بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے
زائد آیات مبارکہ ختم نبوت کے ہر پہلو کو کھول کھول کر بیان کرتی اور
واشگاف الفاظ میں اعلان کررہی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
قیامت تک اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں ۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
۱۔حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے: ”ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول
اللہ وخاتم النبیین“۔ (الاحزاب۰۴)
ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں“
اس آیت میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین فرمایا ہے اور
خاتم النبیین کی تفسیر خود آنحضرتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ”لانبی بعدی“ کے
ساتھ فرما دی، یعنی خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور تفسیر نبوی کی روشنی میں تمام
مفسرین اس پر متفق ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی شخص کو نبوت عطا نہیں کی جائے گی، جن حضرات کو
نبوت ورسالت کی دولت سے نوازا گیا اور رسول ونبی کے منصب پر ان کو فائز کیا
گیا ان میں سب سے آخری حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
علامہ زرقانی شرح مواھب لدنیہ میں آیت مذکورہ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے
ہیں” اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ
سب انبیاء اور رسل کے ختم کرنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
”ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین“ یعنی آخر النبیین جس نے انبیاء کو ختم کیا
یا وہ جس پر انبیا ختم کئے گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے
کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رسالت و نبوت منقطع
ہوچکی، نہ میرے بعد کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
خلاصہ یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کیلئے پوری نوع انسانی
کیلئے مبعوث فرما گئے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا آفتاب
عالم تاب قیامت تک روشن رہے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ کسی
نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔
۲۔” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام
دینا“(سورہ مائدہ)
ترجمہ: ”آج میں نے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی
اور تمہارے لئے دین اسلام ہی کو پسند کیا“۔
یہ آیت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آخری حج حجة الوداع میں جمعہ کے
دن ۹ ذی الحج کو نازل ہوئی اور اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
۰۸،۱۸دن دنیا میں رونق افروز رہے اور اس آیت شریفہ کے بعد حلت یا حرمت کا
کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔
اس آیت شریفہ میں دین کے بہمہ وجوہ کامل ہونے اورنعمت خداوندی کے پورا ہونے
کا اعلان فرمایا گیا ہے اور چونکہ قیامت تک کیلئے دین کی تکمیل کا اعلان
کردیا گیا، اس لئے یہ اعلان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین
ہونے کو بھی شامل ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں:”یہ اس امت پر اللہ
تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے ان کیلئے دین کو کامل فرمایا، لہٰذا
امت محمدیہ نہ اور کسی دین کی محتاج ہے نہ اور کسی نبی کی اور اس کیلئے
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنایا اور
تمام جن وبشر کی طرف مبعوث فرمایا“۔
اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کیلئے
تمام انسانوں اور جنوں کیلئے رسول ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
تشریف آوری کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
۳۔حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام سے سلسلہ نبوت شروع ہوا تو اعلان ہوا” یا
بنی آدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیتی“(الاعراف ۵۳)
ترجمہ”اے اولاد آدم کی! اگر تمہارے پاس میرے پیغمبر آویں جو تم ہی میں سے
ہوں گے جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے“
اس آیت میں ایک نہیں متعدد رسولوں کے آنے کی خبر دی گئی لیکن حضرت عیسیٰ
علیہ الصلوة والسلام جو خاتم انبیا بنی اسرائیل ہیں، ان کی زبان مبارک سے
یہ اعلان فرمایا گیا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جن کا نام نامی اوراسم
گرامی احمد ہوگا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جیسا کہ ارشاد باری ہے:” ومبشرا
برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد“ترجمہ: ” اور میرے بعد ایک رسول آنے والے ہیں
جن نام (مبارک) احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں“۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام کے بعد صرف ایک رسول کا
آنا باقی تھا اور وہ ہیں محمد مصطفی احمد مجتبےٰ، ان کی تشریف آوری کے بعد
قیامت تک ان کے علاوہ کسی نبی و رسول کی آمد متوقع نہیں۔
۴۔قرآن کریم میں بار بار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کے انبیا
کرام علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن آپ کے بعد کسی رسول کے آنے کی
طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا گیا( مثلاً : ۱۔”وماارسلنا من قبلک من
رسول“(الانبیائ۲۵)ترجمہ:” اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں
بھیجا“۔
۲۔”وما ارسلنامن قبلک من رسول ولانبی“(الحج ۵۶)ترجمہ: اور (اے محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا“۔
۳۔وما ارسلناقبلک من المرسلین“۔(الفرقان:۰۲)ترجمہ:”اور ہم نے آپ سے پہلے
جتنے پیغمبر بھیجے“۔
اس قسم کی آیات بہت ہیں ”المعجم المفہرس لالفاظ القرآن“ میں اس نوع کی آیات
بتیس ذکرکی گئی ہیں)
ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبوت مقدر ہوتی
اور ان نبیوں کے انکار سے امت کی تکفیر لازم آتی تو محالہ وصیت وتاکید ہوتی
کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی نبی آئیں گے ایسا نہ ہوکہ ان
میں سے کسی کا انکار کر کے ہلاک ہوجاﺅ۔
پورے قرآن میں ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں بعد میں آنے والے کسی نبی کا
تذکرہ ہو، معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ
کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔
ختم نبوت اور احادیث متواترہ: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً دو
سو احادیث میں علی رﺅس الاشہاد مسئلہ ختم نبوت کو بیان فرمایا کہ آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن کسی
حدیث میں اس طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
بعد سلسلہ نبوت جاری رہے گا یا یہ کہ انبیا آتے رہیں گے۔ ختم نبوت پر چند
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون
کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے“۔اور صحیح
مسلم کی ایک روایت میں ہے” مگر میرے بعد نبوت نہیں“
یہ حدیث ان پندرہ صحابہ کرام سے مروی ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت جابر
بن عبداللہ، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت اسماءبنت عمیس، حضرت ابو سعید خدری،
حضرت ابوایوب انصاری، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت ام سلمہ، حضرت براءبن عازب،
حضرت زید بن ارقم، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حبشی بن جنادہ، حضرت مالک بن
حسن بن حویرث، حضرت زید بن ابی اوفیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین
حضرت ہارون ،حضرت موسیٰ علیہما السلام کے تابع تھے اور ان کی کتاب وشریعت
کے پابند تھے، گویا غیر تشریعی نبی تھے لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے اپنے بعد ایسی نبوت کی بھی نفی فرمادی، معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک نہ کوئی تشریعی نبی آسکتا ہے نہ غیر تشریعی۔
۲۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے نبی کرتے تھے، جب ایک نبی کی
وفات ہوجاتی تو اس کی جگہ دوسرا آجاتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ
خلفا ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا ہمیں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟
فرمایا جس سے پہلے بیعت ہوجائے اس کی بیعت کو پورا کرو، اسی طرح درجہ بدرجہ
ان کو ان کا حق دو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں خود
سوال کرلیں گے“۔انبیا بنی اسرائیل سابقہ شریعت پر قائم تھے خود اپنی شریعت
نہیں رکھتے تھے، گویا غیرتشریعی نبی تھے اور ان انبیاء کرام علیہم الصلوة
والسلام کا ذکر کرکے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ معلوم ہوا کہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ صرف یہ کہ صاحب شریعت نبی نہیں
آسکتے بلکہ غیر تشریعی انبیا کی آمد بھی بند کردی گئی اور یہ بھی ارشاد
فرمایا کہ اس امت کو انبیا کے بجائے خلفا سے واسطہ پڑے گا۔
۳۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ختم نبوت کی ”حسی“ مثال بیان فرمائی،
فرمایا” میری اور مجھ سے پہلے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک شخص نے
بہت حسین وجمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔
لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ
ایک اینٹ کیوں نہیں لگا دی گئی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
میں وہی آخری اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں“۔
یہ حدیث حضرت ابوسعید خدری (رض) سے بھی مروی ہے۔ اس حدیث پاک میں حسی مثال
سے سمجھایا کہ نبوت کے محل میں صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی جو آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پُر ہوچکی ہے اور قصر نبوت پایہ تکمیل
کو پہنچ چکا ہے، اب کسی اور نبی کی گنجائش ہی نہیں۔
۴۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی سمجھایا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کا ساری مخلوق کی طرف مبعوث ہونا اور آپ کے ذریعہ سے انبیا کرام
کی آمد کا سلسلہ بند ہوجانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ ”حضرت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیا کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے۔۱: مجھے
جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں۔ ۲۔رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔ ۳۔مال
غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے۔ ۴۔ روئے زمین کو میرے لئے پاک کرنے والی
چیز اور مسجد بنا دیا گیا ہے۔۵۔مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔۶۔
اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ “(صحیح مسلم)
اس مضمون کے آخر میں ہے: ”پہلے انبیا کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا
جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے“۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک کے تمام
انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
بعد کسی نبی کے آنے کی گنجائش نہیں، لہٰذا جو شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے بعد نبوت ورسالت کا دعویٰ کرتا ہے وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی تکذیب کرتا ہے اور ایسا شخص دجال وکذاب ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے ایسے دجالوں اورکذابوں کے ظہور کی پیشن گوئی بھی فرمائی ہے۔
۵۔حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہی دعویٰ کرے گا
کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی
نہیں“(ابوداﺅد،ترمذی)
اجماع امت
۱۔علامہ علی قاری رحمتہ اللہ علیہ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں:دعویٰ النبوة
بعدالنبینا کفربالاجماع۔جو شخص ہمارے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد
نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے۔
۲۔حافظ فضل اللہ تورپشتی ”معتمد فی المعتقد“ میں عقیدہ ختم نبوت کا منکر
وہی شخص ہوسکتا ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر بھی ایمان
نہ رکھتا ہو، کیوں کہ اگر یہ شخص آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا
قائل ہوتا تو جن چیزوں کی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی ہے ان میں آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو سچا سمجھتا اور جن دلائل اور جس طریق تواتر سے آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ونبوت ہمارے لئے ثابت ہوئی ہے، ٹھیک اسی
درجہ کے تواتر سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ آپ آخری نبی ہیں اور آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اور قیامت تک کوئی نبی نہ ہوگا اور جس شخص
کو اس ختم نبوت میں شک ہو، اسے خود رسالت محمدی میں بھی شک ہوگا اور جو شخص
یہ کہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوا تھا یا اب موجود
ہے یا آئندہ کوئی نبی ہوگا اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے بعد نبی ہوسکتا ہے، وہ کافر ہے“۔
۳۔حافظ ابن کثیر (رح) آیت خاتم النبیین کے تحت لکھتے ہیں”اللہ تعالیٰ نے
اپنی کتاب میں اور اس کے رسول نے اپنی احادیث متواترہ میں خبر دی ہے کہ آپ
کے بعد کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں تاکہ امت جان لے کہ ہر وہ شخص جو آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس مقام نبوت کا دعویٰ کرے وہ بڑا جھوٹا،
افتراپرداز، دجال گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے، اگرچہ شعبدہ بازی کرے اور
قسم قسم کے جادو، طلسم اور نیز نگیاں دکھلائے، اس لئے کہ یہ سب کا سب عقلاء
کے نزدیک باطل اور گمراہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسود عنسی (مدعی نبوت)
کے ہاتھ پر یمن میں اور مسیلمہ کذاب(مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمامہ میں احوال
فاسدہ اور اقوال باردہ ظاہر کئے، جن کو دیکھ کر ہر عقل وفہم اور تمیز والا
یہ سمجھ گیا کہ یہ دونوں جھوٹے اور گمراہ کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر
لعنت کرے اور ایسے ہی قیامت تک ہر مدعی نبوت پر یہاں تک کہ وہ مسیح دجال پر
ختم کردیئے جائیں گے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسے امور پیدا فرما دے گا کہ
علماء اور مسلمان اس کے جھوٹے ہونے کی شہادت دیں گے“۔
۴۔علامہ سفارینی حنبلی (رح)” شرح عقیدہ سفارینی“میں لکھتے ہیں:جو شخص یہ
عقیدہ رکھے کہ نبوت حاصل ہوسکتی ہے وہ زندیق اور واجب القتل ہے کیوں کہ اس
کا کلام وعقیدہ اس بات کو مقتضی ہے کہ نبوت کا دروازہ بند نہیں اور یہ بات
نص قرآن اور احادیث متواترہ کیخلاف ہے جن سے قطعاً ثابت ہے کہ ہمارے نبی
خاتم النبیین ہیں۔
۵۔علامہ زرقانی شرح مواہب میں امام ابن حبانؓ سے نقل کرتے ہیں: ”جس شخص کا
یہ مذہب ہو کہ نبوت کا دروازہ بند نہیں بلکہ حاصل ہوسکتی ہے یا یہ کہ ولی
نبی سے افضل ہوتا ہے ایسا شخص زندیق اور واجب القتل ہے کیونکہ وہ قرآن کریم
کی آیت ”خاتم النبیین“ کی تکذیب کرتا ہے“۔
محترم قارئین ! عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کو دل و جان سے زیادہ عزیز ہے۔
یہی وہ متاع عزیز ہے جس کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کے ہر مسلک کے علماء نے بے
دریغ قربانیاں دی ہیں۔انگریز کے دور اقتدار میں جب ان کے ایک پروردہ دجال
قادیان مرزا غلام احمد نے دعوی نبوت کیااور ختم نبوت کا انکار کیا، متعدد
انبیاءکرام علیہم السلام کی گستاخیاں، اصحاب و ازواج مطہرات تک کو نہ بخشا
اور کفریات و الحادیات کی ترغیب و تشویق میں سرگرداں ہوا تب علماء کرام نے
اس فتنے کی روک تھام کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی ہر فورم پر اس کی تعاقب کیا
جہاں کہیں قادیانی اپنی سرگرمیاں شروع کرتے علماء دین وہاں ان کا بھر پور
تعاقب کر کے ان کے مشن کو ناکام بنا دیتے تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہر مسلک کے
علماء کرام اور ہر صاحب دل مسلمان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے حضرت پیر مہر
علی شاہ صاحب٬ پیر سید جماعت علی شاہ٬ میاں شیر محمد شرقپوری٬ مولانا
ثناءاللہ امرتسری٬ مولانا سید انور شاہ کشمیری٬ علامہ محمد اقبال٬ مولانا
محمد علی جالندھری٬ مولانا عبداللہ درخواستی٬ مولانا سید محمد علی مونگیری٬
مولانا احمد علی لاہوری٬ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری سید ابو
الحسات شاہ قادری٬ پیر محمد کرم شاہ الازہری٬ علامہ احسان الہی ظہیر اور ان
کے علاوہ سینکڑوں ہزاروں علماء کرام کی خدمات اور قربانیاں ہماری تاریخ کا
زریں باب ہیں۔
اسی طرح جب پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کی دو
تاریخی تحریکیں چلیں 54 اور 73 ء میں ان میں جہاں ایک طرف ایسے سیاسی رہنما
تھے جنہوں نے قادیانیوں کو تحفظ فراہم کرنے سرکاری قوت و طاقت کا استعمال
کیا وہیں ایسے خوش نصیب سیاستدان بھی تھے جنہوں نے ہر قسم کے بیرونی دباﺅ
کو مسترد کرتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جس میں سرفہرست
نام مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا شامل ہے اور پھر صدر جنرل ضیاءالحق کے دور
میں بھی امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوئے۔
9 مئی 1974 کو جب ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے نشتر میڈیکل کالج
کے طلبہ پر دھاوا بولا اور انہیں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا تب پورے ملک
میں قادیانیت کے خلاف ایک پر زور تحریک چلی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار
دلوانے کا مطالبہ ہونے لگا بالآخر 30 جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں اپوزیشن
نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کیلئے ایک قرار داد پیش کی تھی اس سے
پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 13 جون کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے
خطاب کرتے ہوئے کہا:
”جو شخص ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ ربوہ کے واقعہ سے
تعلق رکھنے والے سارے مسئلے کو جولائی کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی کے
سامنے پیش کردیا جائے گا۔ گزشتہ عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلزپارٹی
کو ووٹ دیئے تھے لیکن انہوں نے ہمیں خرید تو نہیں لیا۔ ووٹ تو ہمیں دوسرے
فرقوں نے بھی دیئے مگر ہم ان کے محتاج تو نہیں۔ میں صرف اللہ کا محتاج ہوں
اور پاکستان اور اس کے عوام سے وفاداری میرا ایمان ہے۔ میں وہی کروں گا جو
میرا ضمیر کہے گا۔ میں مسلمان ہوں۔ مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے، کلمہ کے
ساتھ پیدا ہوا تھا اور کلمہ کے ساتھ مروں گا۔ ختم نبوت پر میرا ایمان کامل
ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں نے ملک کو جو دستور دیا اس میں ختم نبوت
کی اتنی ٹھوس ضمانت نہ دی گئی ہوتی۔ 1956ءاور 1962ءکے آئین میں ایسی کوئی
ضمانت کیوں نہیں دی گئی حالانکہ یہ مسئلہ 90 سال پرانا ہے۔ یہ شرف مجھ
گناہگار کو حاصل ہوا ہے کہ ہم نے اپنے دستور میں صدر مملکت اور وزیراعظم
کیلئے ختم نبوت پر کامل ایمان کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ ہم نے یہ ضمانت اس
لئے دی ہے کہ ہمارے ایمان کی رو سے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ
کے آخری رسول ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ملک کو نیا عوامی دستور دیا اور
انشاءاللہ عوام کے تعاون سے قادیانیوں کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردوں گا۔
یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہوگا اور یومِ حساب، خدا کے سامنے اس کام کے
باعث سرخرو ہوں گا“۔
آج پھر ایک طویل عرصے سے قادیانی اپنا زہر پھیلا رہے ہیں بیرونی آقاﺅں کے
اشارے پر ملک پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے اور اپنے جھوٹے نبی کے
خلیفہ کی پیشن گوئی( ایک نہ ایک دن پاکستان ختم ہو جائے گا اور اکھنڈ بھارت
وجود میں آجائے گا) کی تکمیل کیلئے سازشیں رچا رہے ہیں یہ قادیانی اسرائیل
سے مضبوط تعلقات رکھتے ہیں ان کے آدمی اسرائیل کی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں
اور یہ لوگ مختلف شاطرانہ چالوں سے بعض بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر بھی فائز
ہو کر اپنا اثر و رسوخ قادیانیت اور قادیانی سازشوں کے جال کو وسعت دینے
کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
آج پھر وقت ہے کہ تمام اہلیان وطن مسلکی اور فروعی اختلافات میں الجھنے کے
بجائے ان آستین کے سانپوں کا قلع قمع کریں آج پھر اسی پیپلز پارٹی کی حکومت
ہے جس کے بانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت دلوا کر ایک عظیم الشان
ایمانی کارنامہ سر انجام دیا اس حکومت کو اپنے بانی کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے قادیانیوں کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہئے ان کی سرپرستی کی بجائے ملک
مخالف سرگرمیوں پر انہیں کڑی سزا دینا چاہئے بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے ہٹانا
چاہئے اور امتناع قادیانیت آرڈینس کو پوری طرح نافذ العمل کرنا چاہئے اس
مقصد کیلئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے 30 مئی بروز ہفتہ لیاقت باغ
راولپنڈی میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا ہے تمام اہل اسلام اس کو
کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و
ناموس کے تحفظ کیلئے قادیانی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے بھر پور
شرکت کریں تاکہ انگریز اور ان کے پروردہ قادیانیوں کو اندازہ ہو جائے کہ آج
بھی اہل ایمان کی غیرت و جذبہ ایمانی زندہ ہے اور آج بھی پیر مہر علی شاہ٬
شاہ احمد نورانی، علامہ احسان الہی ظہیر اور سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے
حقیقی و سچے جانشین اور محبین و مخلصین ختم نبوت کے تحفظ کیلئے تن من دھن
وارنا سعادت سمجھتے ہیں۔ |