حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ : شخصیت، کردار اور کارنامے

حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عالم اسلام کی ان چند گنی چنی ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کے احسان سے یہ امت مسلمہ سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ آپ ان چند کبار صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین میں ہیں جن کو سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مسلسل حاضری اور حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ وحی کو لکھنے کا شرف حاصل ہے۔ وہ حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے منظورِ نظر تھے جنہوں نے کئی سال تک آپ کیلئے کتابت وحی کے نازک فرائض انجام دیئے، آپ سے اپنے علم وعمل کیلئے بہترین دعائیں لیں، جنہوں نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے خلیفہ کے زمانے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جنہوں نے تاریخ اسلام میں سب سے پہلا بحری بیڑہ تیار کیا، اپنی عمر کا بہترین حصہ رومی عیسائیوں کیخلاف جہاد میں گزارا اور ہر بار ان کے دانت کھٹے کئے، آج دنیا ان کو فراموش کرچکی ہے، لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہ ہیں جن کی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ ہوئی تھی لیکن قبرص، روڈس، صقلیہ اور سوڈان جیسے اہم ممالک کس نے فتح کئے؟ سالہا سال کے باہمی خلفشار کے بعد عالم اسلام کو پھر سے ایک جھنڈے تلے کس نے جمع کیا؟ جہاد کا جو فریضہ تقریباً متروک ہوچکا تھا اسے ازسر نو کس نے زندہ کیا؟ اور اپنے عہد حکومت میں نئے حالات کے مطابق شجاعت وجواں مردی، علم وعمل، حلم و بردباری، امانت ودیانت میں نظم وضبط کی بہترین مثالیں کس نے قائم کیں؟ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو پروپیگنڈے کی غلیظ تہوں میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق
اسلام لانے کے بعد آپ مستقلاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لگے رہے۔ علامہ حزم رحمتہ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ ”نبی کریم کے کاتبین میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا تھا۔ یہ دونوں حضرات دن رات آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مسلسل حاضری، کتابت وحی، امانت و دیانت اور دیگر صفات محمود کی وجہ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد بار آپ کیلئے دعا فرمائی۔ حدیث کی مشہور کتاب جامع الترمذی میں ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دعا دی اور فرمایا ”اے اللہ معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجئے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دعا دی اور فرمایا ”اے اللہ معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا“۔

مشہور صحابی حضرت عمروبن العاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا”اے اللہ معاویہ (رض) کو کتاب سکھلا دے اور شہروں میں اس کیلئے ٹھکانا بنا دے اور اس کو
عذاب سے بچا لے“۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی امارت و خلافت کی اپنی حیات میں ہی پیشن گوئی فرما دی تھی اور اس کیلئے دعا بھی فرمائی تھی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ظاہر ہے۔ نیز حضرت معاویہ (رض) خود بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے وضو کا پانی لے کر گیا۔ آپ نے پانی سے وضو فرمایا اور وضو کرنے کے بعد میری طرف دیکھا اور فرمایا ”اے معاویہ! اگر تمہارے سپرد امارت کی جائے(اور تمہیں امیر بنا دیا جائے) تو تم اللہ سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرنا“۔

اور بعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” جو شخص اچھا کام کرے اس کی طرف توجہ کر اور مہربانی کر اور جو کوئی برا کام کرے اس سے درگزر کر“۔

حضرت معاویہ (رض) اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں” مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بعد خیال لگا رہا کہ مجھے ضرور اس کام میں آزمایا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا(مجھے امیر بنا دیا گیا)۔ ان روایات سے صاف واضح ہے کہ حضرت معاویہ (رض) کو دربار نبوی میں کیا مرتبہ حاصل تھا؟ اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان سے کتنی محبت فرماتے تھے؟

نیز ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سواری پر سوار ہوئے اور حضرت معاویہ (رض) کو اپنے پیچھے بٹھایا تھوڑی دیر بعد آپ نے فرمایا” اے معاویہ! تمہارے جسم کا کون سا حصہ میرے جسم کے ساتھ مل رہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرا پیٹ (اور سینہ) آپ کے جسم مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہ سن کر آپ نے دعا دی” اے اللہ اس کو علم سے بھر دے“۔

جب آپ کے والد اسلام لے آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا” یارسول اللہ! میں اسلام لانے سے قبل مسلمانوں سے قتال کرتا تھا اب آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں کفار سے لڑوں اور جہاد کروں، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”ضرور! جہاد کرو“۔

حضرت معاویہ (رض) صحابہ کی نظر میں
ایک بار حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا ”قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو جو غصہ کے وقت ہنستا ہے (یعنی انتہائی بردبار ہے) اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا (یعنی انتہائی غیور اور شجاع ہے)۔

اور حضرت عمر (رض) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا” اے لوگوں! تم میرے بعد آپس میں فرقہ بندی سے بچو اور اگر تم نے ایسا کیا تو سمجھ رکھو کہ معاویہ (رض) شام میں موجود ہیں“۔

حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے ”تم قیصرو کسریٰ اور ان کی سیاست کی تعریف کرتے ہو حالانکہ خود تم میں معاویہ (رض) موجود ہیں۔ حضرت عمر (رض) کی نظر میں آپ کا مرتبہ اور مقام اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے آپ کے بھائی بزید بن ابی سفیان (رض) کے انتقال کے بعد آپ کو شام کا گورنر مقرر کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ حضرت عمر (رض) اپنے گورنروں اور والیوں کے تقرر کے معاملہ میں انتہائی محتاط تھے اور جب تک کسی شخص پر مکمل اطمینان نہ ہوجاتا اسے کسی مقام اور علاقہ کا امیر مقرر نہ کرتے تھے، پھر جس شخص کو گورنر بناتے اس کی پوری نگرانی فرماتے، اور جب کبھی معیار مطلوب سے فروز محسوس ہوتا اسے معزول فرما دیتے تھے، ان کا آپ کو شام کا گورنر مقرر کرنا اور آخر حیات تک انہیں اس عہدے پر باقی رکھنا ظاہر کرتا ہے انہیں آپ (رض) پر مکمل اعتماد ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) سے ایک فقہی مسئلہ میں حضرت معاویہ کی شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا ”یقیناً معاویہ (رض) فقیہ ہیں“۔ (جو کچھ انہوں نے کیا اپنے علم وفقہ کی بناء پر کیا ہوگا)ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے جواب میں فرمایا” کہ معاویہ (رض) نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف اٹھایا ہے( اس لئے ان پر اعتراض بیجا ہے)۔

حضرت ابن عباس (رض) کا قول مشہور ہے کہ میں نے معاویہ (رض) سے بڑھ کر سلطنت اور بادشاہت کا لائق کسی کو نہ پایا۔

حضرت عمیر بن سعد (رض) کا قول حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروق )(رض) نے عمیر بن سعد (رض) کو حمص کی گورنری سے معزول کردیا اور ان کی جگہ حضرت معاویہ (رض) کو مقرر کیا تو کچھ لوگوں نے چہ مگوئیاں کیں،حضرت عمر (رض) نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا” معاویہ (رض) کا صرف بھلائی کے ساتھ ذکر کرو، کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے متعلق یہ دعا دیتے سنا ہے: اے اللہ اس کے ذریعہ سے ہدایت عطا فرما۔

حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) سے بڑھ کر سرداری کے لائق کوئی آدمی نہیں پایا۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص (رض) جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت علی (رض) اور حضرت معاویہ (رض) کی آپس میں جنگوں میں غیر جانب دار رہے، فرمایا کرتے تھے” کہ میں نے حضرت عثمان (رض) کے بعد کسی کو معاویہ (رض) سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والا نہیں پایا۔

حضرت قبیصہ بن جابر کا قول ہے” میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو (حضرت) معاویہ (رض) سے بڑھ کر بردبار، ان سے بڑھ کر سیادت کا لائق، ان سے زیادہ باوقار، ان سے زیادہ نرم دل اور نیکی کے معاملہ میں ان سے زیادہ کشادہ دست ہو“۔

حضرت معاویہ (رض) تابعین کی نظر میں
حضرت عمر بن عبدالعزیز(رح) نے اپنے دور خلافت میں کبھی کسی کو کوڑوں سے نہیں مارا، مگر ایک شخص جس نے حضرت معاویہ (رض) پر زبان درازی کی تھی، اس کے متعلق انہوں نے حکم دیا کہ اسے کوڑے لگائے جائیں۔

حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمتہ اﷲ علیہ جو مشہور تابعین میں سے ہیں، ان سے کسی نے حضرت معاویہ (رض) کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن المبارک رحمتہ اﷲ علیہ جواب میں کہنے لگے ”بھلا میں اس شخص کے بارے میں کیا کہوں؟ جس نے سرکار دو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہو اور جب سرکار صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو انہوں نے جواب میں ربنا لک الحمد کہا ہو۔

انہی عبداللہ ابن المبارک رحمتہ اﷲ علیہ سے ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا کہ بتلائیے کہ حضرت معاویہ (رض) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) میں سے کون افضل ہیں؟ سوال کرنے والے نے ایک جانب اس صحابی کو رکھا جس پر طرح طرح کے اعتراضات کئے گئے تھے اور دوسری طرف اس جلیل القدر تابعی کو جس کی جلالت شان پر تمام امت کا اتفاق ہے، یہ سوال سن کر عبداللہ ابن المبارک (رح) غصہ میں آگئے اور فرمایا ”تم ان دونوں کی آپس میں نسبت پوچھتے ہو، خدا کی قسم! وہ مٹی جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے حضرت معاویہ (رض) کی ناک کے سوراخ میں چلی گئی، وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہے۔

مشہور تابعی حضرت احنف بن قیس (رح) اہل عرب میں بہت حلیم اور بردبار مشہور ہیں ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ بردبار کون ہے؟ آپ یا معاویہ (رض)؟ آپ نے فرمایا ”بخدا میں نے تم سے بڑا جاہل کوئی نہیں دیکھا (حضرت) معاویہ (رض) قدرت رکھتے ہوئے حلم اور بردباری سے کام لیتے ہیں اور میں قدرت نہ رکھتے ہوئے بردباری کرتا ہوں، لہٰذا میں ان سے کیسے بڑھ سکتا ہوں؟ یا ان کے برابر کیسے ہوسکتا ہوں؟
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372899 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.