حکیم محمد سعیدشہید۔تحقیق کے آئینے میں(قسط ۔ 2)

شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت اور ان کی علم، ادبی، سماجی خدمات سے کون واقف نہیں۔ 17اکتوبر2015ء کو انہیں ہم سے رخصت ہوئے17برس بیت گئے۔ حکیم سعید کی شخصیت کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ان کا اپنا علمی کام معیاراور تعداد کے اعتبار سے قابل ذکر ہے۔حکیم صاحب کی شخصیت و خدمات کے حوالے سے مختلف جامعات و دیگر تعلیمی اداروں میں تحقیقی کام ہوئے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ذیل میں ذیل میں دیا گیا مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے سے ماخوذ ہے۔ مصنف شہید حکیم محمد سعید پر پر پی ایچ ڈی کرنے والوں میں سر ِ فہرست ہیں۔ حکیم صاحب کی کتاب اور کتب خانوں کے حوالہ سے پی ایچ ڈی کی سطح پر یہ اولین تحقیق ہے جسے جامعہ ہمدرد سے 2009میں پی ایچ ڈی کی سند عطا کی گئی۔ مقالہ بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ہے۔ مضمون میں صرف حکیم محمد سعید کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مضمون روزنامہ ’جناح‘‘اسلام آباد ، لاہور ، کرچی نے اپنی اشاعت 17،18اکتوبر 2015کو شائع کیا۔ اس موضوع پر مصنف کے متعدد مضامین دیگر اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔

مصنف حکیم محمد سعید شہید کے ہمراہ نمائش کتب کے موقع پر

شہید حکیم محمد سعید کی 17برسی کے موقع پر
(روزنامہ ’جناح‘‘اسلام آباد ، لاہور ، کرچی نے اپنی اشاعت 17،19,18اکتوبر 2015کو شائع کیا)

برصغیر تقسیم ہوگیااور مملکت خدادادِ پاکستان، معرض وجود میں آگئی، لیکن اس کے بعد (یا پہلے) جو کچھ ہوا اس نے حکیم محمد سعید کا سینہ چھلنی کر دیا ۔ ظلم وبربریت کا فیل مست بے زنجیر ہوگیا اور انسانیت کو پس دیوار منہ چھپا کر آنسو بہانا پڑے۔ مسلمان کش فسادات حکیم محمد سعید نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ دہلی میں ان کے کئی چاہنے اور چاہے جانے والے شہید ہوگئے۔ سرزمین دہلی میں جن کی جڑیں صدیوں سے جمی ہوئی تھیں وہ خشک اوربے حقیر تنکوں کی طرح دوش ہوا پر اڑنے لگے۔ ہمدم، دوست، سب کچھ لٹا کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ رشتے دار اور مضبوط تعلقات تارِ عنکبوت سے زیادہ ناپائیدار ثابت ہوئے۔ علم و ادب کے خزانے جلا دیے گئے۔ عزتیں لوٹی گئیں، مہر و محبت کے شبستان نذر آتش کر دیے گئے۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوگئی ۔ ہندوؤں، سکھوں کا کردار اس قدر گھناؤنا، اس قدر نفرت انگیز تھا کہ حکیم محمد سعید نے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کر دیا۔ ہندستان میں آپ نے اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر بہت بڑا مشن پورا کر دیا۔ ادارہ ہمدرد عوام الناس کی خدمات کے لیے وقف ہو چکا تھا۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ نوزائدہ مملکت پاکستان کے عوام کی خدمت بھی کی جائے ۔ حکیم محمد سعید نے عزیز رشتہ داروں، دوستوں اور بے شمار چاہنے والوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔ کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنانے کے بارے میں حکیم محمد سعید نے اپنی کہانی میں تحریر فر مایا کہ’’میں کراچی کیوں آیا؟ ایک دل چسپ داستان ہے۔ ایک تو بات یہی ہے کہ جناب حکیم احسن صاحب دہلی میں طبیہ کالج میں میرے ساتھ طب پڑھا کرتے تھے پھر سندھ اسمبلی کے اسپیکر آنریبل سید میاں محمد شاہ صاحب سے حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کے ہاں تعلق قائم ہوا۔ پھر ان سے دوستی ہوگئی۔ سید میران محمد شاہ اس زمانے ۱۹۳۷ء میں وائسرائے کی کونسل میں بیٹھنے کے لیے خاص لباس ٹیل کوٹ، کالی نکٹائی وغیرہ کے ساتھ آیا کر تے۔ اب دوستی پھیلی تو سندھ کے وزیر اعلیٰ خاں بہادر محمد ایوب کھوڑو جب دہلی آتے تو میں ان کا میزبان بنا۔ سندھ کے وزیر تعلیم جناب پیر الہٰی بخش صاحب سے دوستی تھی۔ وہ میرے گھرٹہرا کرتے تھے۔ میرغلام علی تالپور کا بھی میں ہی میزبان ہوتا تھا۔ وہ وزیر داخلہ سندھ تھے۔ یہ دوستیاں مجھے راولپنڈی کے بجائے کراچی لے آئیں، ورنہ فکر و فہم کے لحاظ سے راولپنڈی میں صنعت لگانی چاہیے تھی۔ میری دوربین نگاہیں راولپنڈی کا مستقبل ۱۹۴۷ء میں دیکھ سکتی تھیں‘۔

پاکستان ہجرت کی تین وجوہات بیان کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ ’ میں 9 جنوری 1947ء کو ہمیشہ کے لیے کراچی آگیا، اپنی والدہ محترمہ رابعہ بیگم کو روتا چھوڑ کر آیا، اپنے عظیم محسن اور بھائی کو اداس چھوڑ آیا، اپنی ہر جائیداد چھوڑ آیا، اپنا پیارا شہر دہلی چھوڑ آیا۔ یہ اصول کی بات تھی۔ میں فکری اعتبار سے اورمزاجی لحاظ سے بھارت کا وفاراد نہیں ہوسکتا تھا۔ جب میں بھارت کا وفادار نہیں ہوسکتا تھا تو مجھے اصولاً وہاں رہنا نہیں چاہیے تھا۔ بھارت چھوڑنے پر میرا ہر دوست مخالف تھا۔ میرے عزیز و اقارب کو میرا بھارت چھوڑنا گوارا نہ تھا، حتیٰ کہ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد تک نے بھی پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ میرے بزرگ بلکہ دوست حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کی رائے بھی یہی تھی کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا چاہیے، مگر میں نے اصول کی خاطر ہر چیزقربان کر دی اور خالی ہاتھ پاکستان چلا آیا‘۔

ہجرت کی دوسری وجہ آپ نے یہ بیان کی کہ’’ وقت گزرتا گیا بھائی جان محترم کے بیٹے عبدالمعیداور حماد احمد بڑے ہوتے رہے ان نہایت اچھے بھتیجوں کے دل میں ضرور یہ خیال آیا کہ یہ چچا جان کون بزرگ ہیں جو سارے کاروبار پر حاوی و قابض ہیں ان کی جائیداد تو ابا جان سے بھی زیادہ ہے جس دن میں نے اپنے بھتیجوں کے دلوں میں اس کانٹے کو محسوس کیا میں نے ایک تاریخی فیصلہ کر لیا۔ میں نے 1944ء میں کراچی کو اپنا مرکز بنانے کا ارادہ کر لیا، مگر بات ٹلتی رہی۔ 1944ء میں، میں کراچی آکر رہا تھا۔ پھر مارچ 1947ء میں کراچی آیا۔ یہاں سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ میں زمین خریدی۔ ایک مکان کا فیصلہ کیا۔ اب میں نے ہجرت کاحتمی فیصلہ کر لیا۔ میں خاندان میں کوئی افتراق پیدا نہیں کر سکتا تھا اور میں اپنے عظیم بڑے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یہ ساتھ دل کا ساتھ تھا یہ ساتھ محبت کا ساتھ تھا۔ یہ ساتھ احترام کا ساتھ تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا ہمدرد خاندان میں چچا بھتیجوں کی لڑائی کا کوئی بھی امکان ہو۔ عزتِ خاندان نے مجھے راہ ہجرت دکھائی۔ میں نے اسے سنت کے طور پر قبول کر لیا۔ 9جنوری 1948ء کو میں نے صبح ۱۰ بجے ہندستان چھوڑ دیا‘۔ ہجرت کی تیسری وجہ آپ نے یہ بیان کی کہ’’ستمبر 1947ء میں دہلی میں جو قتل عام ہوا اس نے 1857ء کی یادیں تازہ کر دیں اس میں جوانمردی اور جرات سے ہم نے ہمدرد کو محفوظ کیا، مگر یہ بھی فیصلہ کیا کہ پاکستان جاکر قسمت آزمائیں‘۔

9 جنوری 1948ء دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر حکیم محمد سعید کو رخصت کرنے دیگر لوگوں کے علاوہ آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید، آپ کے استاد مولانا قاضی سجاد حسین موجود تھے۔ قاضی سجاد حسین نے حکیم صاحب کو عربی اور فارسی پڑھائی تھی۔ آپ اسی روز ہندوستان سے اپنی شریک حیات اور بیٹی سعدیہ کے ہمراہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئے۔ کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ سندھ کالونی، جمشید کوارٹرز کے مکان 185/1 میں رہائش اختیار کی جو حافظ محمد الیاس کی نگہبانی میں تھا۔ شہر کراچی آپ کے لیے نیا نہیں تھا۔ آپ 1944ء اور1947ء میں بھی یہاں آچکے تھے، لیکن اس بار صورت حال مختلف تھی۔ آپ نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے وطن ہندستان کو مستقل طور پر خیرباد کہا اور پاکستان کو دل و جان سے اپنا وطن بنایا۔ آپ اپنا سب کچھ ہندستان چھوڑ آئے تھے۔ آپ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ ابتدائی چند ماہ مشکل میں گزرے۔ ہر وقت مصروف رہنے والے کے پاس کوئی مصروفیت نہ تھی۔ دہلی میں بے شمار جائیداد کا مالک، پیکارڈ کار میں سفر کرنے والا کراچی میں میلوں پیدل سفر کر رہا تھا۔

آپ اس کوشش میں تھے کہ مطب کے لیے کوئی جگہ مل جائے۔ بالاآخر آپ اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ ایک پارسی ایڈلجی ڈنشا کے ذریعہ کراچی کے علاقے آرام باغ میں شاہراہ لیاقت (فیریئر روڈ) پر اعوان لاج میں جگہ مل گئی اور ہمدرد مطب کا آغاز ہوا۔ افتتاح 19جون 1948ء کو وزیر تعلیم پیر الہٰی بخش نے کیا۔ مطب کا آغاز ہوا۔ اﷲ نے برکت دی۔ مریض آنے لگے۔ اب دوا سازی کے لیے جگہ کی ضرورت محسوس ہو ئی، اس موقع پر آپ کی دوستی کام آئی، آپ کے دوست اسپیکر سندھ اسمبلی کے توسط سے آرام باغ میں اعوان لاج کے سامنے قائم دھرم شالہ کا نیچے کا حصہ حاصل ہوگیا۔ یہاں سے ہمدرد پاکستان کے تحت دوا سازی کے کا م کاآغاز ہوا۔ دواؤں کی تیاری کے بعد ان کی فروخت بھی ضروری تھی اب ایک ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں سے لوگوں کو آسانی سے ہمدرد کی دوا مل سکے ۔ اس وقت صورت حال بہتر ہو چکی تھی۔ مطب شروع ہو چکا تھا، دوائیں تیار ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اس کے علاوہ نونہال گرائپ واٹر کی وہ بوتلیں جو ہندوستان سے چلتے ہوئے آپ کے بڑے بھائی نے آپ کے ہمراہ کر دی تھیں کہ وقت ضرورت کام آئیں گی وہ تمام فروخت ہو چکی تھیں۔ ان بوتلوں کی فروخت کے لیے آپ نے بڑی محنت اور مشقت کی تھی، کیوں کہ یہ کام آپ نے از خود انجا م دیا تھا۔ کراچی کی معروف شاہراہ فریئر روڈ پر ایک دکان ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدی گئی۔ پاکستان میں یہ ہمدرد کا نقطہ آغاز تھا۔ آپ نے اپنا مطب اور اپنی خدمات کو زندگی کے اختتام تک اسی جگہ پر قائم رکھا۔ اس مقام تک پہنچنے سے قبل آپ کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آپ نے استاد کی حیثیت سے ملازمت کی بھی کوشش کی۔ حاجی سرعبداﷲ ہارون یتیم خانہ جو کراچی کے قدیم علاقے کھڈا مارکیٹ میں قائم ہے۔ اب اس علاقے کا نام نیا آباد میمن سوسائٹی ہے۔ یتیم خانہ کے ساتھ ایک پرائمری اسکول ہوا کرتا تھایہ اب حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ اسکول کے نام سے موجود ہے۔ حکیم محمد سعید اس ا سکول میں پہنچے اور کہا کہ’ حافظ قرآن ہوں استاد کی حیثیت سے ملازمت چاہتا ہوں‘، آپ کو کامیابی نہ ہوسکی۔ اس طرح سول اسپتال کے نزدیک ایک اسکول میں بھی آپ کو ملازمت نہ مل سکی۔ لیکن آپ نے حوصلہ نہ ہارا، جدوجہد کرتے رہے، حتیٰ کہ کامیابی نے آپ کے قدم چومے۔آپ نے ایک اسکول میں چھ ماہ استاد کی حیثیت سے بچوں کو تعلیم بھی دی اور اسی دوران یہ فیصلہ بھی کیا کہ مستقبل میں اسکول ضرور قائم کریں گے۔

مطب اور دوا سازی کے کام میں استحکام پیدا ہوا تو آپ نے اپنی طبی خدمات کے دائرے کو کراچی کے علاوہ دیگر شہروں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۵۰ء میں سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ہمدرد کی بنیاد رکھی۔ ایک سال بعد ۱۹۵۱ء میں لاہور میں انارکلی میں مطب قائم ہوا جس کا افتتاح وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد ممتاز دولتانہ نے کیا۔ بعد از اں آپ پشاور، راولپنڈی، ملتان اور سکھر میں بھی مطب کر نے لگے۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ مطب والے دن بطور خاص روزہ رکھا کرتے اور بغیر کسی وقفہ کے مریضوں کو دیکھا کرتے۔ آپ نے لندن میں بھی مطب کیا۔ مریض غریب ہوتا یا امیر آپ نے کبھی کسی مریض سے فیس نہیں لی طب کے فروغ کے لیے طبیہ کالج قائم کیا جس کا افتتاح 14 اگست 1958ء کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کراچی میں کیا۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کا قیام دہلی میں 1947ء میں عمل میں آیا۔ کراچی میں ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی بنیاد 1956ء میں پڑی۔ اس سے قبل آپ 1953ء میں ہمدرد کو وقف کر چکے تھے۔ اور اس کی راہ متعین کر دی تھی۔ ارشاد احمد حقانی کے بقول حکیم صاحب پاکستان کے ان مایہ ناز فرزندوں میں سے تھے جو قوم کی عظمت اور رفعت کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں۔ دولت تو بہت سے لوگوں نے کمائی، لیکن حکیم صاحب نے یہ دولت ایک درجن سے زائد میدانوں میں قوی زندگی کو شان دار اور مال دار بنانے کے لیے وقف کر دی۔ خود درویشی کی زندگی گزاری ۔ ایس ایم ظفر کے خیال میں ’مجھے تو وہ اس دور کے ابوذر غفاری دکھائی دیتے ہیں جو اپنی ضرورت سے زیادہ دولت وقف کرتے جاتے ہیں اور دولت جمع کرنے والوں اور ارتکاز زر کے ملزموں کو اپنے عمل اور بیانات سے بے نقاب کر رہے ہیں‘۔ خدمت انسانی کا یہ اعزاز شاید ہی کسی اور کوحاصل ہواہو کہ آپ نے اپنی زندگی میں معاشرے کے ہر طبقے کے تین ملین مریضوں کا علاج کیا۔ ان میں امیر بھی تھے غریب بھی، جو ان بھی تھے بوڑھے بھی۔ سربراہان ِ مملکت سے لے کرنچلی سطح تک کے لوگ شامل تھے۔ کسی ایک سے بھی تشخیص و تجویز کا معاوضہ (Consultation Fee)نہیں لیا ۔

حکیم محمد سعید کا کہنا تھا کہ وہ صحافی بننا چاہتے تھے۔ علم و ادب سے شغف تھا اور تحریر و تصنیف کی جانب ابتدا ہی سے مائل تھے۔ 1932ء میں ہمدرد صحت کا اجرا دہلی سے ہوا، اس کے اولین مدیر خواجہ نیاز احمد تھے۔ 1933ء سے حکیم عبدالحمید اس کے مدیر ہوئے۔ ۱۹۳۷ء میں یہ ذمہ داریاں حکیم محمد سعید کو سونپ دی گئیں، لیکن عملی طور پر آپ نے 1941ء میں ادارت کے فرائض سنبھالے۔ یہ تحریر و تصنیف کی ابتدا تھی۔ طبی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے اس رسالہ کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی اوراس کی 19 جلدیں قیام پاکستان تک شائع ہوئیں۔ 1951ء میں آپ نے اس رسالہ کی اشاعت کراچی سے شروع کی، لیکن اس کا تسلسل ہندستان سے جاری کی گئیں جلدوں سے ہی برقرار رکھتے ہوئے اس کی جلد 20 کا اولین شمارہ جو جنوری 1951ء میں حکیم محمد سعید کی ادارت میں جاری ہوا تھا کراچی سے جاری ہونے والا پہلا شمارہ تھا۔ ہمدرد کے علاوہ آپ کی ادارت میں کئی رسائل جاری ہوئے ان میں ہمدرد نونہال (1953ء)، اخبار الاطب (یکم جنوری 1955ء)، پیامی (1977ء ۔ 1999ء)، ہمدرد میڈیکس (اپریل ۱۹۵۷ء)، SPEM (1995ء) میڈیکل ٹائم (1978ء)، ہمدرد اسلامیکس (1978ء)، Endeavour (1987ء)، جریدہ (1983ء)، خبرنامہ ہمدرد (1960ء) شامل ہیں۔حکیم محمد سعید شہید کا تحریری سرمایہ نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ علم و ادب کا شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو کہ جس پر آپ نے نہ لکھا ہو۔ آپ کی ا نگریزی اور اردو تصانیف 250 سے زیادہ ہے۔

طب کے میدان میں کامیابی حاصل ہو جانے کے بعد آپ نے معاشرہ کے دیگر مسائل اور کمزوریوں کی جانب توجہ دی۔ اس سلسلہ میں آپ نے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، سماجی کارکنوں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم اور مذہبی دانشوروں کودعوت دی کہ وہ آگے آئیں اور عام لوگوں کی مشکلات و مسائل کے حل میں شریک ہوں ۔

حکیم محمد سعید نے خدمت خلق، وطن سے محبت اور اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف طریقے اور پروگرام ترتیب دیے ان میں جاگو جگاؤ، پاکستان سے محبت کرو پاکستان کی تعمیر کرو، پاکستان کا یوم آزادی ۱۴ اگست کے بجائے 27رمضان المبارک کو منانے کی تحریک، کتب خانوں کے قیام اور فروغ کی تحریک، آواز اخلاق، ڈاکٹروں، حکیموں اور سائنس دانوں میں سہ فریقی اتحاد، علما اور علم کا احترام، صحت مند قوم، خودی، دن میں دو وقت کھانا، اردو زبان کی ترویج و ترقی، اسلامی تعلیمات کا فروغ، جہاں دوست، جوانان امروز کے علاوہ شام ہمدرد جو بعد میں ہمدرد مجلس شوریٰ کہلائی کے علاوہ بزم ہمدرد نونہال شامل ہے۔ شام ہمدرد کا آغاز 1961ء میں کیا گیا۔ اس کے ذریعے پاکستانی دانشوروں، ادیبوں، شعراء، حکماء اور سائنس دانوں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو ایک ایسا فقید المثال پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جس کے ذریعے وہ اپنا نقطہ نظر عوام الناس تک پہنچا سکتے تھے۔ یہ ایک ایسا غیر سیاسی ادارہ ہے جسے بام عروج پر پہنچانے کے لیے آپ نے مسلسل محنت اور جدوجہد کی۔ حتیٰ کہ اسے عالمی شہرت حاصل ہوگئی۔ 1955ء میں حکیم محمد سعید نے فقید المثال تحریک شام ہمدرد کو ’ہمدرد مجلس شوریٰ‘ کا مرتبہ ومقام دینا طے کیا۔ شورائیہ ہمدرد کے بنیادی مقاصد کی وضاحت آپ نے ان الفاظ میں کی’شورائیہ ہمدرد پاکستان میں ارباب اقتدار کی فکر و عدل کو صراط مستقیم دینے کا فریضہ انجام دے گی۔ اس ملی جدوجہد کا من تہائے مقصود صاحبان اقتدار کو بہ خلوص صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنا اور اس سے زیادہ یہ کہ ان کے اقدامات پر تبصرہ کرنا اور غلط پرگرفت قائم کرنا۔‘ بقول عطا ء الحق قا سمی ’’اس طرح گویاانھوں نے چاروں صوبوں کے عوام اور دانشوروں کو محبت کی لڑی میں پرو دیا ‘ ۔

شام ہمدرد کے مقررین اور صدور کی تعداد تقریباً ایک ہزار کے قریب رہی۔ چونکہ شوریٰ ہمدرد کامزاج سیاسی نہیں ہے بلکہ اس کا اعلیٰ ترین مقصد حکومت وقت کو نہ صرف مشورہ دینا بلکہ عوام الناس کو رہنمائی بھی فراہم کرنا تھا اس لیے شوریٰ کے اراکین کی تعداد کو محدود رکھا گیا یہ تعداد مجموعی طور پر ۱۷۳ سے آگے نہ بڑھ سکی اور یہ معزز اراکین اپنا کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ شوریٰ ہمدرد حکیم محمد سعید شہید کی علمی، طبی سماجی، ثقافتی اور تعلیمی خدمات کا ایک عظیم الشان مرکز ہے، ایک ایسا مرکز ہے جو کہ علم کا چراغ جلائے ہوئے ہے اور فکر و عمل کی راہیں نہ صرف کھولتا ہے بلکہ ان راہوں کو کشادہ ہی کرتا جارہا ہے۔ شوریٰ ہمدرد غیر سیاسی فورم لیکن اہل سیاست کی رہنمائی کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ شوریٰ ہمدر د کے ذریعے حکیم صاحب نے علم و ادب میں ایک شان دار اور منفرد روایت قائم کی آپ نے شوریٰ ہمدرد کے ذریعہ خود کو ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا میں فنا ہو کر بھی لافانی کر لیا ہے اور ان کی یہ عظیم الشان خدمت تاریخ ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھے گی ۔

آپ بچوں سے بے انتہا محبت کرنے لگے تھے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں ’’جب میں نے اپنی محبت کو اس قدر بڑھا لیا کہ مجھے پاکستان کا ہر بچہ اور دنیا کا ہر بچہ اپنا لگا تو پھر مجھے بزم ہمدرد نونہال شروع کرنے کا خیال آیا میں جس طرح اپنی اولاد کی بھلائی کی سوچتا ہوں اسی طرح میں ہر بچے کی بھلائی کی سوچتا ہوں۔ یہ اس سوچ کے نتیجہ میں بڑوں کی شام ہمدرد کی طرز پر بچوں کی شام ہمدرد کا تصور سامنے آیا۔ آپ نے اپنے رفقاء کے مشورے سے ’’بزم ہمدرد نونہال‘‘ (نونہال اسمبلی) کی ابتدا کی۔ کراچی کے بعد پشاور، راولپنڈی اور لاہور میں بزم کے اجلاس منعقد ہونے لگے۔ آپ بچوں کے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے۔ بچوں سے محبت اس قدر بڑھی کہ آپ نے بچوں کے لیے باقاعدہ اور مسلسل لکھنا شروع کر دیا اور اس قدر لکھا کہ نو نہال ادب کے تمام مصنفین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 1992ء میں لکھی گئیں بارہ ’’سچی کہانیاں‘‘ بچوں کے ادب میں ایک انمول اضافہ ہے ۔ بچوں کے لیے جتنی تعداد میں سفرنامے لکھے شاید ہی کسی اور نے بچوں کو اتنی اہمیت دی ہو۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت، غذاؤں، ، حفظان صحت اور اخلاق پر بے شمار مضامین اور کتب تحریر کیں۔ ’’تعلیم و تعلم کی اہمیت کو حکیم سعید نے اس حد تک سمجھا اور اشاعت تعلیم کے لیے اس قدر کام کیا کہ بچوں کے سرسید کہے جانے لگے ۔ بقول الطاف حسین قریشی ’وہ بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے بعد اس نتیجہ تک پہنچے تھے کہ پاکستان کی بہترین خدمت یہ ہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا معیاری انتظام کیا جائے اور لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے اخلاق سنوارنے پر بھرپور توجہ دی جائے‘۔

حصول علم ،تخلیق علم، فروغ علم اورتحفظِ علم کے حوالے سے حکیم محمد سعید کی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔ پاکستان کی ۵۸ سالہ تاریخ میں ہمیں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملی کہ کسی فرد واحد نے علم کے حوالے سے اس قدر عظیم خدمات سر انجام دی ہوں۔ تصانیت کے حوالے سے آپ کی تخلیقات تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ تعلیم کے بارے میں آپ کی رائے یہ ہے کہ ’ تعلیم کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا اور تربیت کے بغیر انسانیت میں نکھار پیدا نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت کے بغیر آدمی ایسا ہے کہ جیسے بے روح، ایک جسد بے حیات۔ تعلیم کے بغیر ایک ملت زندگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی اور تربیت کے بغیر ایک ملک عظمت حاصل نہیں کر سکتا‘۔

ہم فخر ملت حکیم محمد سعید کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انھوں نے باری تعالیٰ کے احکامات اور آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو پہلے فنافی العلم کے درجہ پر پہنچایا اور پھر فروغ علم کو اپنا سچا اور کھرا نصب العین قرار دیا۔ حتیٰ کہ اپنی زندگی بھی اسی کی خاطر قربان کر دی‘۔مدینتہ الحکمہ میں قائم بیت الحکمہ اور دیگر تعلیمی اداروں میں قائم کتب خانے اوران میں جمع اور محفوظ لاکھوں کتابیں اور ان سے استفادے کا مربوط نظام علم کو جمع، محفوظ، ترتیب و تنظیم و ترسیل علم کی واضح مثال ہے۔ بقول ڈاکٹر انیس خورشید ’’حکیم صاحب خود بھی کتاب کے رسیا ہیں اور عوام تک ان کو پہنچانے کے لیے کتب خانوں کے قیام ان کو قابل استعمال بنانے اور فروغ دینے کے لیے ایک ملک گیر مربوط نظام کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اپنی بیٹی کی شادی پر آپ نے کتابوں کی ایک قابل استعمال لائبریری بھی جہیز میں دی تھی۔ کتب خانوں کی تحریک کے حوالے سے ملک بھر میں آپ نے جو کام کیا ہے وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے‘ ۔فروغ علم کے حوالے سے آپ کا سب سے بڑا خواب شہر علم و ثقافت بسانا تھا۔ 1977ء میں مکہ مکرمہ میں پہلی عالمی اسلامی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی حکیم محمد سعید شہید اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جارہے تھے کہ راستے میں شہر علم بسانے کا منصوبہ زیر غور تھا۔ آپ کا کہنا ہے کہ وجدانی کیفیت میں جو نام ذہن میں آیا وہ مدینتہ الحکمت تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’قیام مکہ کے دوران میں نے طواف کعبہ کے بعد، مقام ابراہیم پر بیٹھ کر قرآن حکیم سے راہنمائی طلب کی تو وجدانی کیفیت کی تصدیق ہوگئی۔‘‘ 18اگست 1983ء کوحب ڈیم سے ۲۳ کلو میٹر پہلے اور ناظم آباد سے26 کلومیٹر دور 1260 ایکڑ زمین اس مقصد کے لیے خریدی گئی۔ اس شہر علم کا سنگ بنیاد 15دسمبر 1983ء کو ملک کے 150 دانشوروں، عالموں، صحافیوں، ممتاز سیاست دانوں، ماہر تعلیم کے علاوہ مختلف ممالک کے سفارتکاروں اور مذاکرہ ملی تعلیمات نبویؐ کے مندوبین کی موجودگی میں رکھا گیا۔ ہر ایک مندوب نے اپنے اپنے نام کی ایک ایک اینٹ نصب کی۔

مدینتہ الحکمہ میں سب سے پہلے پائے تکمیل کو پہنچنے والی عمارت ’’بیت الحکمہ‘‘ (لائبریری) کی تھی۔ جس کا افتتاح ۱۱ ستمبر 1989ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا۔ اس شہر علم میں قائم ہونے والے دیگر اداروں میں ہمدرد یونی ورسٹی (سنگ بنیاد ۱۷ جون 1985ء بہ دست صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق) ہمدرد اسکول (سنگ بنیاد 16 جون1987ء بہ دست صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق)، ہمدرد کالج، ہمدرد ولیج اسکول ہاؤس، ہمدرد کالج آف اسکالرز ایسٹرن میڈیسنز (طب مشرق) ہمدرد کالج آف میڈیسنز (ایم بی بی ایس)، ہمدرد کالج آف مینجمنٹ سائنسز، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائسنز، ہمدر دانسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل ریسرچ، بائیو ٹیکنالوجی سینٹر برائے ہربل میڈیسن، ہمدرد کالج آف کامرس، ہمدرد انڈسٹریل سٹی، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، الفرقان ہوسٹل، بین الاقوامی کانفرنس سینٹر، ہمدرد سیٹر آفاایکسی لینس فار ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، سائنس مرکز، اسپورٹس کمپلیکس، اسٹاف کالونی، باغ اور عظیم الشان مسجد قائم ہے۔

حکیم محمد سعید کی زندگی کا ہر لمحہ علم و حکمت کے میدانوں میں پیش رفت سے عبارت تھا ۔ شام ہمدرد کے ذریعہ آپ نے پاکستان میں ایک فکری انقلاب بر پا کیا۔ ہمدرد رسائل و جرائد کے ذریعہ سے انہوں نے نہ صرف پاکستان میں حسن فکر و عمل کی دعوت مسلسل دی بلکہ عالمی سطح پر دنیا نے آپ کی خدمات جلیلہ کا بر ملا عتراف کیا۔ جریدہ ہمدرد نونہال نے تعمیر اذہان کا بے مثل کارنامہ انجام دیا، ہمدرد صحت نے پیام صحت دیا، ہمدرد میڈیکس (انگریزی) نے دنیا میں طب عربی کا آوازہ بلند کیااور ہمدرد اسلامیکس (انگریزی) نے عالمی سطح پر اسلام کا پیغام پہچانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ فروغ علم اور اسے عام کر نے کے باب میں آپ کا ایک عظیم الشان کارنامہ سندھ کے گورنر(19جولائی 1993ء ۔ 17 نومبر1993ء) کی حیثیت سے انتہا ئی مختصر عر صہ میں شدید جدوجہد کر کے چار یونیورسٹیاں قائم کر ادیں۔ آپ نے گورنر ہاؤس میں 18کتوبر 993ء ‘ 20 ربیع الثانی 1414 ہجری ‘ جمعتہ المبارک کو عید مسلمین بنا دیا پاکستان کی چار یونیورسٹیوں (سرسید یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی، بقائی یونیورسٹی اوف ہیلتھ سائنسز، جامعہ قائد اعظم (سندھ مدرستہ الا سلام) اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین) کے قیام کے لیے دستاویزات (چارٹرز) عطا فرمائے ۔ اس موقع پر گورنر ہاوس میں منعقدہ تقریب میں سندھ کی تمام جامعات کے وائس چانسلر صاحبان سے خطاب کر تے ہوئے شہید حکیم محمد سعید نے کہا کہ ’میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کر تا ہوں کہ اس گورنر ہاؤس میں کہ جہاں قائد اعظم نے زمام اقتدار سنبھا ل کر تعمیر پاکستان کے ذیل میں کل پاکستان اول تعلیمی کانفرنس کی داغ بیل ڈالی تھی آج میں سندھ میں چار جامعات کے قیام کی اجاذت دینے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔یہ درس گاہیں تعلیم و تر بیت اور تدریس کی خدمت جلیلہ میں نہایت لگن‘ ذمہ داری اور اخلاص کے ساتھ مصروف ہیں۔ ان کا مر تبہ اور معیار بلند کر نا ایک سعادت ہے ۔ ایک فرض ادا کرنے کے مترادف ہے جامعات کا درجہ ملنے سے ان کا مراکز علم و حکمت کو اپنے نیک عزائم اور بلند تر مقا صد کی تکمیل میں سہولت ہوگی ۔

حکیم محمد سعید سیاسی آدمی نہ تھے، لیکن سیاست کے لیل و نہار سے اچھی طرح واقف تھے۔ بلکہ سیاست کے نباض تھے۔ بے شمار سیاست دانوں، سربراہان مملکت، وزیروں، سفیروں، بادشاہوں، شہزادوں غرض بڑے بڑے امیر کبیر لوگوں سے آپ کے بہت اچھے اور گہرے تعلقات رہے، لیکن آپ نے کسی بھی دور میں کسی ایک سے بھی ذاتی فائدہ حاصل نہ کیا۔ پاکستان میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں اور جرنل محمد ضیاء الحق سے آپ کے بہت اچھے اور قریبی تعلقات تھے۔ جرنل محمد ضیاء الحق کے دور میں آپ مشیر طب (978ء ۔ 1982ء) بھی رہے۔آپ کا درجہ مرکزی وزیر کے برابر تھا۔ جب تک آپ اس عہدہ پرفائز رہے اپنی اصل حیثیت کو برقرار رکھا یعنی مطب برقرار رکھا اور اپنی دیگر تمام تر مصروفیات اور خدمات کا سلسلہ ویسے ہی جاری رہا۔ اس دور میں تمام تر اخراجات خود کیے سرکاری مراعات حاصل نہ کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مولانا کوثر نیازی کی وجہ سے جو آپ کے دوست تھے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن اپنی مرضی کے بغیر لڑا جس میں کامیابی نہ ہونا تھی نہ ہوئی، کیوں کہ آپ اپنے اصولوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ بقول ڈاکٹر اعوان ’ان کے اجلے نام کو پاکستان کے مقتدر حکمرانوں نے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا،مگر اس میں ناکام رہے‘ ۔

’شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی ساری زندگی راہ عمل و تعمیر کی ایک روشن مثال ہے۔ انھوں نے تادم مرگ علم و آگہی، خدمت خلق اور تدبر و تدبیر کی شمع جلائے رکھی‘۔ وہ مٹھاس ہی مٹھاس۔ ایسی مٹھاس جس سے روح میں تازگی آجاتی ہے۔ وہ ایک ماہر طبیب، ایک صاحب اسلوب ادیب، ایک سرگرم سیاح اور ایک مستعد چانسلر تھے ۔ نذیر ناجی نے درست کہا ’وہ مکمل طورپر تہذیب و تمدن میں ڈھلی ہوئی شخصیت تھے۔ ان کا رکھ رکھاؤ طرز گفتگو،لباس، طور اطوار اور شائستگی، کسی چیز میں بناوٹ نہیں تھی ان کا سب کچھ سچ تھا وہ ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کے مالک تھے ‘۔ مفتی تقی عثمانی نے حکیم محمد سعید کے با رے میں اپنے ایک مضمون میں تحریر فر مایا’ حکیم صاحب ایک وضع دار شخصیت تھے، انہوں نے پاکستان کے ابتدائی دور میں فقرو افلاس کا بھی خاصا وقت گذارا، ہمدر د دواخانہ کے قیام کے لیے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اُس دور کی مشکلات کو انہوں نے جس خندہ پیشانی سے جھیلا، اس کی داستان کبھی کبھی وہ بڑے مزے لے لے کرسنایا کر تے تھے۔ حضرت والد صاحب (مولانا مفتی محمد شفیع ؒ)سے انہیں ابتدا ہی سے عقیدت اورمحبت تھی چنانچہ حضرت والد صاحب کے پاس ان کا کثرت سے آنا جانا رہتا تھا اور اسیِ تعلق کے نتیجے میں دارالعلوم کے قیام کے وقت وہ اس کے بانی ارکان میں شامل ہوئے۔ مشاغل کے تنوع اور ہجوم کے با وجود وہ ہمیشہ پر سکون رہتے تھے، انہیں کبھی بھی گھبراہٹ سے مغلوب نہیں دیکھا، ان کا نظام الاو قات اتنا مستحکم اور معمولات اتنے مضبوط تھے کہ وہ ہر کام اپنے وقت پر انجام دیتے اور مطمئن رہتے تھے‘۔ حکیم محمد سعید ایک بااصول انسان تھے اپنے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہو کر ہی آپ نے زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کی۔ اپنی زندگی کے آخری انٹرویو میں آپ نے کرن خلیل کے ایک سوال کے جواب میں فر مایا ’’میں اپنے خاص اصول رکھتا ہوں اور ان اصولوں کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کسی سے انتقام نہیں لیا۔ میں کسی سے نفرت کرنا نہیں جانتا۔ میں محبت کرتا ہوں، احترام کرتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ جو برا کہتے ہیں ان کو اچھا کہتا ہوں۔ جو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کی راحتوں کا سامان کرتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں۔ وقت ضائع نہیں کرتا، وقت کا احترام کرتا ہوں ۔

وقت کے اس قدر پابند کہ لوگ آپ کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کر لیا کرتے درحقیقت آپ اپنے اس قول’وقت اﷲ کی امانت ہے اس کا صحیح استعمال عبادت ہے‘ کی عملی تفسیر تھے۔شہید پاکستان کی صاحبزادی محتر مہ سعدیہ راشد صاحبہ نے راقم الحروف کو زیر نظر تحقیق کے لیے بطور خاص انٹرویو دیتے ہو ئے فر مایا کہ’ انہیں حکیم صاحب کی وقت کی قدر کر نے اور اس کی پابندی کر نے کی عادت نے سب سے زیادہ متاثر کیا‘۔ روزنامہ پاکستان لاہور کے ڈاکٹر اجمل نیازی کو انٹرو یو دیتے ہوئے آپ نے اپنی آرزو کے بارے میں کہا ’میری آرزو، آرزو پاکستان۔ میری تمنا، پاکستان میں صد فی صد تعلیم۔ میری خواہش صحت سے سرشار ملت پاکستان۔ میرا مقصود پاکستان علم و حکمت کا گہوارہ، میرا مطمع نظر پاکستان میں امن و چین۔ شرافت و صداقت، امانت و دیانت۔ میری جستجو پاکستان میں قناعت‘ ۔اپنے فلسفہ زندگی کے بارے میں پاکستان ٹیلی وژن پر نعیم بخاری کو انٹر ویو دیتے ہو ئے واضح کیا کہ’ میرا فلسفہ زندگی خدمت اور کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے‘۔ اپنی شہادت سے چند روز قبل (9 ستمبر1998ء) کو اپنے بڑے بھائی کے نام اپنے آخری خط میں مطب سے ریٹائر ہونے کے بارے میں لکھ چکے تھے۔ آپ نے تحریر فر مایا’میں ۹ جنوری 2000ء کو مطب سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ ۹ جنوری ۱۹۴۰ء کو دہلی میں مطب کا آغاز کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ خدمت خلق کا حق اس طرح بھی ادا کر دیا ہے میں نے ‘۔

آپ کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں 1966ء میں حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیازسے نوازا ، 1981ء میں استنبول یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے سرٹیفکیٹ آف میرٹ دیا گیا، 1982ء میں فاؤنڈیشن برائے ترویج سائنس، کویت نے اسلامک میڈیسن پرائز سے نوازا۔1984ء میں آپ کی نمایاں سائنس خدمات کے اعتراف میں آپ کو اسٹاک ہوم سوئیڈن میں منعقد ہونے والے ایکو پنکچر اور متبادل ادویہ کے سیمپوزیم کے خصو صی اجلاس میں ’’ڈاکٹر اوف سائنس کی اعزازی ڈگری‘‘ عطا کی گئی، ایک خصو صی کا نو کیشن میں جو 3 جون 1984ء کو منعقد ہوا ڈاکٹر نو بیل نے یہ اعزازی ڈگری آپ کو پیش کی۔ کمشنر بہاول پور نے بہاولپور کے عوام کی جانب سے صادق دوست ایوارڈ سے نوازا۔ 1993ء میں ہیومن رائٹس سوسائٹی پاکستان نے آپ کی ہمہ جہت خدمات کے اعتراف میں ’’انسانی حقوق ایوارڈ‘‘ سے نوازا، 1995ء میں عالمی ادارہ (WHO) کی جانب سے ’’ورلڈ نوٹو بیکو ڈے میڈل ایوارڈ‘‘ ، 1996ء ایوارڈ کانفرنس (پاکستان لیگ امر یکہ) برائے صحت تعلیم اور سماجی خدمات اور1996ء میں رو ٹری کلب، اسلام آباد کی جانب سے آؤٹ اسٹینڈنگ پاکستانی ایوارڈ، سے نوازا گیا۔ 1998ء میں بو علی سینا انٹرنیشنل پرائز، 1999ء میں آپ کو ’’جناح ایوارڈ‘‘ اور انٹر نیشنل ایسو سی ایشن اوف لائنز کلبز کی جانب سے ’’لائنز نیشنل پرائڈ ایوارڈ 1999ء‘‘ سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی میڈیسن کے شعبے میں قابل قدر خدمات کے اعتراف میں 14اگست 2000ء کو انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ (بعد از وفات) دینے کا اعلان کیا، 23 مارچ 2001ء کو ایوان صدر میں ایک شاندار اور پر وقار تقریب میں صدر پاکستان جنابِ محمد رفیق تارڑ نے یہ اعزاز حکیم محمد سعید کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کو عطا فر ما یا’شہید حکیم محمد سعید کو مختلف القابات سے بھی نوازا گیا جن میں’بچوں کے سرسید‘ ،’ سرسید ثانی‘، ’ عہد جدید کے ابن سینا ‘،’مجدد طب‘ وغیرہ شامل ہیں۔ شہادت کے بعد آپ ک’ شہید پاکستان‘، ’ شہید وطن‘ ،’ فخرملت ‘ کے القابات سے نوازا گیا۔ حکیم محمد سعید ایک مکمل انسان تھے۔ انسانیت کی خدمت کو انھوں نے اپنا نصب العین بنایا، اسی کے لیے جئے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو انھوں نے اسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ ہر سانس کو انسا نیت کی خدمت کے لیے وقف کیا اور اسی مقصد عظیم کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کر دی۔ جئے جس کے لیے جان اس پہ دے دی یہی بس داستان زندگی ہے ۔ بقول حکیم نعیم الدین زبیری ’ حکیم صاحب جو آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اٹھ گئے تو سہارا بھی ایسا لگتا ہے اٹھ گیا ‘۔

17 اکتوبر1998ء بروزہفتہ(25 جمادی الثانی 1419ھ)، روزہ کی حالت میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد کراچی میں مریضوں کی خدمت کے لیے اپنے مطب پہنچتے ہی شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوئے۔ وطن عزیز پر جان نثار کرنے والا، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیکھنے والا، وہ جس نے اپنا تن من دھن سب
کچھ قوم اور ملک پر نچھاور کر دیا حتیٰ کہ اپنی جان بھی اس پر نثار کر دی۔ اس عظیم انسان کی قربانیوں کی کوئی حد، کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ وہ مملکت پاکستان کا ہی نہیں امت مسلمہ کا سرمایہ تھا۔ وہ زندہ ہے او زندہ رہے گا۔ حکیم محمد سعیدکی شخصیت، خدمات اور کارناموں پر بہت لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کے ہر ہر پہلو پر تحقیق کی جاسکتی ہے اسی طرح خدمات اور کارناموں پر الگ الگ تحقیق ہو سکتی ہے۔(16اکتوبر2015، مصنف سے رابطے کے لیے ای میل:[email protected])
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1272021 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More