شناخت
(Zaib Mahsud, Drammen. NORWAY)
یہ آرٹیکل ہم غیر ملک میں رہنے والوں کے بارے میں ہے ہم باہر جاکر بھی ملک سے نہیں اپنے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں قید ہیں |
|
شناخت انسان کی اہم ضرورت ہوتی
ہے جسکا زکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوں تو تمام
انسانوں کوبرابر پیدا کیا ہے مگر سب کو مختلف گروہوں ،مذا ہیب۔ اور ملکوں
میں تقسیم کیا کہ ہم ایک دوسرے کو پہچان اور شناخت کر سکیں اوراس لیے ہر
ملک اپنے شہریوں کے لیے شناختی کارڈ یا پرسنل نمبردیتی ہے ۔ اور اسطرح ہر
اُس شخص کی بنیادی معلومات اُس کے کارڈ یا مخصوص نمبر سے ملتی ہے اسطرح ملک
سے باہر دوسرے ملکوں کے لیے اپنے شہریوں کی شناخت کے لیے حکومت پاسپورٹ کا
اجرء کرتی ہے ۔جو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انسان کی ملکی شناخت
کہلاتا ہے ۔لیکن اسکے علاوہ ہر انسان اپنی ذات کی الگ پہچان اپنے اخلاق اور
کردار سے بناتا ہے جس سے انسان کی نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا کردار بنتا اور
بگڑتا ہے ۔اس لیے ہر محب وطن اور زمہ دار لوگ اس بات کا بیرون ملک خصوصی
طور پر خیال رکھتے ہیں کہ انکے کسی بھی عمل سے ملک کی عزت پر حرف نہ آئے
مگر اس سب کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں ہمارے پاکستانی باہر ہیں مگر کوئی
واضع کردار پاکستان کے لیے ادا نہیں کر سکے سوائے چند ھنتی کے افراد کے !
اگر ہم زرا سی حب الوطنی اور شعور کا مظاہرہ کریں تو ہم اپنے پاک سرزمین کے
لیے قابلِ فخر کردار ادا کرسکتے ہیں جو اگرچہ کہ بنیادی طور پر ہمارے سفراء
کے ادا کرنے کی زمہ داری ہے مگر افسوس کہ آج کے دور میں جبکہ دنیا میں ہر
سفیر اپنے ملک کے نہ صرف مفاد اور وقار کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے ہیں
بلکہ اپنے شہریوں کی ہر طرح کی رہنمائی اور مدد کرتے ہیں وہاں اپنے ہاں چند
سفیروں کے علاوہ باقی کا باواآ دم ہی نرالہ ہے ۔اور اس طرح خود ہمارا عام
لوگوں کا بھی یہی رویہ ہے کہ ہم ملک سے باہر بھی گروہوں اور فیرقوں میں بٹے
ہوئے ہیں۔پاکستان میں ہم لوگ تو صوبائی ، علاقائی ،مذہبی اور لسانی طور پر
درجنوں کے حساب سے اور علاقائی طور پر تو خدا جانے کتنے ہزاروں گروہوں میں
تقسیم در تقسیم ہوچکے ہیں اور یہ تقسیم ہم کو آکٹوپس کی ما نند اس طرح سے
جھکڑے ہوئے ہے کہ ۱۹۷۱ میں ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہونے اور کروڑوں لوگوں کے
جدا ہونے سے نہ ہم نے سبق سیکھا نہ ہم کو ہوش آیا !کتنی عجیب بات ہے کہ جب
ھماری ذاتی زمین جائیداد کا معاملہ ہو تو چند گز زمین چند ہزار روپوں کی
خاطر اپنی جان دینے اور دوسروں کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتے جبکہ وطن یا
ملک صرف زمین کے چند گز کا ٹکڑا نہٖیں ہوتا بلکہ وہ اپنے شہریوں کے لیے ماں
کی طرح پہلی اور آخری نہ صرف پناگاہ ہوتی ہے بلکہ ماں جیسے بے لوث اور بے
غرض ہوتی ہے اس لیے دنیا نے وطن کے ساتھ مادر کا لاحقہ لگا کر یوں ہی اس کو
تقدس سے نہیں نوازاہ بلکہ دل سے مانا بھی اسی لیے ہر باضمیر شخص بہت پیار
سے اس کا ذکر مادرے وطن کے نام سے کرتے ہیں اور میرے نقطہ نظر سے اس کی ایک
وجہ یہ بھی ہے کہ پیدائیش سے پہلے ہم انسانی ماں کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں
اور مرنے کے بعد ہم دھرتی ماں کے وجود کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ جس طرح ایک
باغیرت اور با ضمیر انسان اپنی ماں کے تقدس کا خیال کرتا ہے ویسے ہی اپنے
ملک یا وطن کی عزت اور مفاد کا خیال بھی لاذمی رکھنا چاہیے ۔کیونکہ ملک سے
باہر ہم صرف پاکستان کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں کوئی ہمیں شعیہ سُنی یا
پنجابی ،سندھی،بلوچی اور پشتون اور دوسرے چھوٹے گرہوں سے نہیں جانتے یہ
ڈییڈ انچ کی گروہی شناخت ہم کو کم از کم پاکستان میں ہی چھوڑ کر آنا چاہیے
۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ا اگر میں اپنی ایجنسی سے باہر کسی اور
ایجنسی میں جاتا ہوں تومحسود سے میری شناخت ہوتی ہے اگر میں شہر میں ہوتا
ہوں تو قبائلی ہونے کے نام سے پہچانا جاتا ہوں اس وقت میری’’ محسودیت‘‘ کی
کوئی اہمیت نہیں رہتی اسی طرح جب میں پنجاب سندھ یا بلوچستان جاتا ہوں
تووہاں لوگ مجھے سرحد کی پشتون سے پہچانیں گے اور جب میں ملک سے باہر جاؤں
گا تو لازمی بات ہے میں پاکستانی کہلاؤں گا وہاں کوئی مجھے سندھی ،بلاچی
،پنجابی اور پشتون کے گروہی اور لسانیت کی بنیاد پر کوئی نہیں پہچانے گا۔
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم فقط اپنے گھر اور خاندان کیلئے ایک فرد ہوتے
ہیں جبکہ گھر سے باہر نکلتے ہی ہم لوگوں کا وجود ایک خاندان ٗ ایک قوم کا
نمائندہ بن جاتا ہے ایسے میں خود بخود انسان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے لہذا
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے کرداراورہماریا اعمال کی اچھائی اور
برائی کا اثر فقط ہماری ذات پر ہی نہیں بلکہ ہماری پوری قوم اور ملک پر
پڑتا ہے اس وجہ سے ہمیں اپنے اندر وہ مثبت تبدیلیاں لانی ہونگی جس سے ہم
دنیاکے سامنے شر مندہ نہ ہوں۔ اور اپنی خوبیوں کو مزید نکھاریں تاکہ دوسری
قوموں کیلئے مثال قائم کر سکیں ۔ اور یہ بات ہرپاکستانی مرد اور عورت اچھی
طرح جان لے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے اچھے اور برے اعمال سے پور ے پاکستان
کو نیک نام یا بدنام کرسکتاہے لہذا اپنی ڈیڑ ھ انچ کی مسجد سے باہر نکل کر
اس پور ی کائنات پر نظر ڈالواور دیکھو کہ ہمارے رب نے کیا کیا نعمتیں اپنے
بندوں کیلئے پیدا کی ہیں جنہیں اس نے تسخیر کرناہے ۔ ہم کو بھی اپنے علم
اور شعور کی بدولت اپنی شناخت کرانی چاہیے ۔ یہ قبل از اسلام کی نام نہاد
رسم و رواج کے نام پر جہالت کا لبادہ جو ہم نے اوڑھ رکھا ہے اسے اتار
پھیکنا چاہیے ۔ دین اسلام کی روشنی میں آج کے اس سائنسی دور کے تحفوں کے
ذریعے یعنی کمپیوٹر انٹر نیٹ اور سٹلائیٹ کے ذریعے ایسا مقام اس دنیا میں
بنائیں کہ انسانیت پاکستانیوں پر فخر کرے ۔ وہ جنہوں نے سائنس کے ذریعے
دنیا میں اس قدر انقلاب برپا کیاہوا ہے وہ بھی تو ہم اور آپ کی طر ح دو
ہاتھ پاوٗں والے ہم جیسے انسان ہیں لہذا ہم کو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ
باہر جا کر پاکستان کا نام روشن کرنے کے بھر پور کو شش کرنی چاہیے ۔جس کا
پہلا اصول اتفاق و اتحاد ہے ۔اسطرح متحد ہو کرہم اپنے ملک کے لیے بہتر
کردار ادا کر سکتے ہیں مثلا اس سال نوبل پرائیز کے لیے ہم سب کو مل کر عبد
ل ستا ر ایدی کے لیے کوشیش کرنی چاہیئے تھی کیونکہ نام تو پاکستان کا روشن
ہونا تھا مگر ہم ایسے موقعے گنواء دیتے ہیں ۔ اس طرح کوئی بھی پاکستانی
اچھا کام کرے ہیں اُس کو بھرپور سپورٹ کرنا چاہیے ۔۔کیا خوب کسی نے کہا ہے
کہ( اپنے تو کملے بھی سیانے لگتے ہیں) مگر ہم کتنی عجیب قوم ہے کہ ڈاکٹر
عبدل سلام کو اُس کے مذہبی عقائید کہ بنا پر سپورٹ کرنا تو دور کی بات اُن
کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور نتیجہ کیا نکلا کہ اغیار نے اُن کو سر
آنکھوں پر بیٹھایا اور ان کی علم کی دولت سے اپنے ملک کو فائیدہ پہنچایا
جبکہ اُس کو ملنے والے نوبل پرایئز پر تو پاکستان کا قومی ترانہ ناروے سمیت
دنیا بھر میں گونجا اس طرح ملالہ نے نوبل پرایئز کی تاریخ میں کم عمر ترین
ونر ہونے کا ریکارڈ قائم کیا جو شاہد ہی کوئی تھوڑ سکے ! مگر اُس کے بارے
میں پاکستان میں کیا کیا کہانیاں گھڑی گئیں اس لیے گذارش ہے کہ کسی کی ذات
پات نسل اور مذہب و عقائید سے ہٹ کر صرف پاکستان اور پاکستانیت کا خیال کرو
بھلے وہ کوئئ سکھ ،عسائی ہندو یا کوئی بھی مذہب عقیدہ اور رنگ و نسل رکھتا
ہو لیکن اگر وہ پاکستانی ہے تو ہم کو اُسکے اچھے کام پر سپورٹ کرنا ہم سب
کا فرض بنتا ہے !
|
|