محبت کیا ہے ؟

ایک لفظ جس کو سننے کے بعد ایک خوبصورت احساس بیدار ہوتاہے اند ر کا موسم خوشگوار ہوجاتاہے۔چہرے پر مسکان آجاتی ہے ۔ترش رویے میں یکسر نرمی آجاتی ہے ایک فرحت ایک راحت ایک چین ایک سکون ملنے لگتاہے ۔اور ہو لفظ ہے لفظ محبت ۔ایک سوال اُٹھتاہے ۔محبت ہے کیا؟

تو پھر جان لیجیے کہ محبت ایک فطری اور طاقتور جذبہ ہے جو کبھی بھی، کسی کو بھی ، کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ محبت میں بھی دو پہلو ہیں ایک قاب تحسین اور ایک قابل مذ مت یعنی ایک پاکیزہ محبت اور ایک ناپاک محبت۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیابات ہوئی چلئے اس بات کی بھی وضاحت پیش کرتاہوں ۔پاکیزہ محبت خلوص،ایثار اور وفاداری پر قائم ہوتی ہے اور ہمیشہ پائیدار اور دائمی رہتی ہے۔ اور ہر قسم کے ذاتی مفاد، خود غرضی اور بے وفائی سے پاک ہوتی ہے۔جبکہ ناپاک و قابل مذمت محبت وہ ہوتی ہے جو مالی، ذاتی اور جنسی رذیل مفادات، خودغرضی اور بے وفائی پر قائم ہوتی اور ہمیشہ کمزور رہتی اور جلد ختم ہوجاتی ہے،بلکہ اس کا انجام دشمنی پر ہوتا ہے۔

اب ذرا اسلام کی تعلیمات سے بھی آگاہی حاصل کرلیتے ہیں کہ محبت کے متعلق اسلام کا کیا نظریہ ہے ۔یہ پیغام ہے ۔پوری کائنات میں سب سے زیادہ محبت کا داعی اور فروغِ محبت پر ابھارنے والا مذہب اگر کوئی ہے تو وہ صرف اسلام ہے جس میں محبت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔نبی کائنات جناب محمد رسول اﷲﷺکا ارشادِ گرامی ہے: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو،کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاوں جس سے تم آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ آپس میں سلام کو فروغ دو۔ (صحیح مسلم:کتاب الایمان، باب بیان انہ لاید خل الجنۃ الا المومنون و ان محبۃ المومنین من الایمان )

پیغامِ محبت کا امین دین اسلام چونکہ خود ایک پاکیزہ مذہب ہے، لہٰذا اپنے ماننے والوں کو بھی ہمیشہ اور ہر معاملے میں پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیتا اور صرف پاکیزگی کو ہی قبول کرتا ہے۔ سیدنا محمد رسول اﷲﷺکا ارشادِ گرامی ہے۔اے لوگو!بے شک اﷲ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کرتا۔ (صحیح مسلم: کتاب الزکوٰۃ،باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب)

اسی لئے پاکیزہ محبت صرف وہی لوگ اپناتے ہیں جو اسلام جیسے پاکیزہ دین سے محبت کرتے اور خود بھی مسلمان او ر مومن ہوتے ہیں۔ہر انسان اپنے ہی جیسے انسان سے محبت کرتا ہے۔فطرت انسان میں یہ ابتداء ہی شامل ہے کہ وہ اپنے جیسے کردار کے حامل لوگوں سے محبت کرتا اور ان ہی کی رفاقت کا طالب رہتا ہے۔ جیسے مشرک، کافر، زانی، شرابی، چور، ڈاکو، قاتل وغیرہ سب گنہگار اپنے ہی جیسے گنہگاروں سے محبت کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان اور مومن صرف اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم اور دیگر مومنین سے ہی محبت کرتے ہیں۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ دنیا میں بندہ جن سے محبت کرے گا بروز قیامت انہی کے ساتھ اس کا انجام بھی ہوگا۔قران مجید کی سورۃ نور میں اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمادیا۔ان تعلیمات کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں۔ اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہیں۔

یہ تو دنیا میں ان کی اپنے ہی جیسے کرداروں سے باہمی محبت اور میل جول ہے، اسی طرح آخرت میں بھی یہ لوگ اپنے ہی جیسے کرداروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
قران مجید فرقانِ حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّیُرَوْا اَعْمٰلَہُمْ ()فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہ ()وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :اس دن لوگ اپنے رب کی طرف پھریں گے کئی راہ ہو کرتاکہ اپنا کیادکھائے جائیں۔تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا۔اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔

قیامت کے دن ہر انسان کاانجام اس کی دنیوی دوستی، محبت اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا اور ہر ایک اپنے ہی قبیلے کے فرد کے ساتھ یاتو سخت ترین عذاب دیاجائے گا یا پھر بہترین نعمتوں میں ہوگا۔اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو سمجھ میں آگیا کہ محبت کیا ہے ۔پاکیزہ محبت کے حقدار کون ہیں ؟یہ تو معلوم ہو۔تعلیمات اسلام کی رو سے پاکیزہ محبت کی سب سے زیادہ حقدار اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، پھر اﷲ کے حبیب جنابِ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس اور اس کے بعد تمام اہل ایمان۔ان محبتوں کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ ()وَمَنْ یَّتَوَلَّ اﷲَ وَرَسُوْلَہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ()
ترجمہ ٗ کنزالایمان :تمہارے دوست نہیں مگر اللّٰہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللّٰہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے تو بے شک اللّٰہ ہی کا گروہ غالب ہے ۔ (المائدہ،آیت ۵۵،۵۶)

محترم قارئین :پاکیزہ محبت ہی دنیا میں راحت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے ۔اصل محبت وہی ہے جو بے غرض ہو،پرخلوص ہو اور ہمیشہ سلامت رہے۔ اور اس سے زیادہ پائیدار اور دائمی محبت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو نہ صرف دنیا، بلکہ آخرت میں بھی کارآمد ہو اور نجات کا ذریعہ بن جائے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء َ اﷲِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ()الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ()لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اﷲِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ()
ترجمہ کنزالایمان :سن لو بیشک اللّٰہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللّٰہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(سورۃ یونس ۔آیت:۶۲ تا۶۴)

یہ تو تھی پاکیزہ محبت جس کا ہم نے ذکر کیا اور وہ محبت جو آج کل دیکھنے کوملتی ہے ۔جس میں نفسانی خواہشات ،عریانی و فحاشی کی لذات کی آمیزش ،مفادات کی خاطر لب و لہجہ میں اظہار محبت ،اس طبقہ سے محبت و انسیت رو ارکھنا جس کی ظاہری شان نے دل و دماغ کو مسخر کردیا۔

یعنی ایسی اپاہج محبت کے جس کے لیے لفظ محبت استعمال کرتے ہوئے بھی حیاآتی ہے ۔تفریح گاہوں میں گھومنا،تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام تعلیم میں لڑکے لڑکیوں کا باہم میل جول جس کا انجام قابل مذمت محبت ہوتاہے ۔دنیا میں اپنی خودساختہ دوستیوں پر فخر کرنے والے ، اپنے محبوبوں کی قربت کی چاہت میں اپنی آخرت برباد کرنے والے اور انکے اشارہ ابرو پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے دعویدار قیامت کے دن آپس میں بدترین دشمن بن جائینگے ، اپنی محبت کے اس بدترین انجام پر ایک دوسرے کو مورودِ الزام ٹھہرائینگے اور اپنی حرکتوں پر شرمندگی و پشیمانی کا اظہار کرینگے۔
قران مجید فرقانِ حمید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اَلْاَخِلَّآء ُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّاالْمُتَّقِیْنَ()
ترجمہ کنزالایمان : گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار ۔

آج محبت کافلسفہ ہی بدل چکاہے ۔ماں کو بیٹا دھتکار رہاہوتا ہے ۔ڈانٹ رہاہوتاہے ۔گالیاں دے رہاہوتاہے ۔اور کالج کی گرل فرینڈ کو کہہ رہاہوتا ہے میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لے آوں گا۔والد سے بد تمیزی سے پیش آرہاہوتاہے اور پارک میں بیٹھ کرمحبوبہ کو تحفے تحاف پیش کررہاہوتاہے ۔بہن پر ہاتھ اُٹھانے والاغیر کی بہن پر شفقت کی برسات کررہاہوتا ہے ۔گھر میں ماں کے حکم کو رد کرنے والی ،والدین کے لیے چند منٹ بھی صرف نہ کرنے والی گھنٹوں گھنٹوں اپنے محبوب سے باتوں میں لگی ہوئی ہوتی ہے ۔یعنی آپ اگر کسی سے پوچھیں محبت کیا ہے تو وہ اس کا ایک ایسا مسخ شدہ مفہوم پیش کرتاہے کہ شرم سے نظریں جھک جاتی ہیں ۔محبت ایک عظیم اور پاکیزہ رشتہ ہے ایک پاکیزہ جذبہ ہے جسے مفادات پرستوں ،نفس پرستوں ،حیا سے محروم لوگوں نے آلودہ کردیاہے ۔کہ جیسے ہی محبت کا نام لو ایک دوشیزہ کا تصور ،ایک تفریح گاہ کا منظر ،ایک نہایت ہی غلط تصور باندھ دیاجاتاہے ۔حالانکہ محبت تو ایک عظیم مزاج ،ایک فطری پاکیزہ کیفیت ،ایک قابل تحسین امر ہے ۔محترم قارئین امید ہے کہ میری تحریر آپ کے لیے معاون ثابت ہوگی ۔میرے حق میں دعا کردیجیے گا کہ میرا رب مجھے اپنی اور اپنے محبوب کی سچی محبت عطافرمائے اور انسانیت سے حقیقی محبت سے بہرہ مند فرمائے ۔۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593963 views i am scholar.serve the humainbeing... View More