ناراض

کئی افراد چھوٹی سی بات پر ناراض ہو کر شدید غصے میں آجاتے ہیں اور کئی لوگ آسمان ٹوٹ پڑنے پر بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ،سب جانتے ہیں کہ غصہ اچھا نہیں ہوتا کیونکہ غصے میں انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور ایسی حرکات کر گزرتا ہے جس کا خمیازہ تمام عمر بھگتنا پڑتا ہے ،لیکن غصہ کیوں آتا ہے ، انسان کیوں ناراضگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کیا نقصانات ہیں۔محقیقین کا کہنا ہے غصے یا ناراضگی کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک شدید اور دوسری پر سکون لیکن دونوں اقسام کی ناراضگی انسانی صحت کیلئے شدید مضر ہیں دونوں انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر بیمار کرتی ہیں کیونکہ غصہ عام طور پر ہر انسان کے اندر ہر وقت موجود رہتا ہے مثلاً ایک بچہ مٹی یا ریت سے بھرے گندے موزے قیمتی قالین پر جھاڑ رہا ہے تو غصہ آتا ہے یا باس نے کیوں اتنی رات گئے میٹنگ رکھی ہے یا آپ کی آنکھوں کے سامنے سے بس نکل جائے جس میں سفر لازمی تھا وغیرہ تو انسان کا رد عمل سوائے غصے کے کیا ہو سکتا ہے،غصہ ایک بنیادی احساس ہے اور انسان کیلئے روزمرہ کا معمول بن چکا ہے غصے کی مثال کپ اور چائے جیسی ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے اعداد و شمار کے مطابق ایک نارمل انسان ہفتے میں دو بار شدید غصے کا اظہار کرتا ہے اوسطاً غصہ انسان کو ایک گھنٹہ اپنے حصار میں جکڑے رکھتا اور پھر بھاگ جاتا ہے،ناراضگی اور غصہ ایک لحاظ سے بہن بھائی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کہ خوف ، نفرت،دکھ،حیرت،خوشی،جلن اور قہقہے انسان کے اندر پائے جاتے ہیں ایسے ہی غصہ بھی اپنا مقام رکھتا ہے،ناراضگی یا غصہ مختلف موقعوں پر آتا ہے اور ایک مخصوص مقدار میں حالات کے پیش نظر ہی آتا ہے انسان کے جذبات اور محسوس کرنے پر منحصر ہے کہ وہ جسمانی اور اندرونی طور پر کتنا مستحکم ہے کہ غصہ آنے کی صورت میں اپنے آپ کو کس حد تک کنٹرول کر سکتا ہے بدیگر الفاظ اس میں کتنا صبر اور برداشت کا مادہ پایا جاتا ہے کہ غصہ پی جائے یا اظہار کرے۔ناراضگی،غصے اور کشیدگی کی حالت میں انسانی جسم کے ہارمون کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جو لوگ غصے میں رہتے ہیں یا چہرے کے تاثرات مثلاً آنکھیں سکیڑنا، ماتھے پر بل آنا یا نفرت سے گھورنا وغیرہ ایسے افراد جسمانی اور ذہنی طور پر انجانے میں اپنے اندر بیماری پالتے ہیں کیونکہ ریسرچ کے مطابق ایسے افراد فوری طور پر نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں جسے طبی زبان میں فائٹ یا فلائٹ کہتے ہیں یعنی جھگڑا کرو یا بھاگ جاؤاور ایسے لمحات میں ماحول یقینی طور پر ہائی اور ریڈ الرٹ ہو جاتا ہے یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب غصہ بلڈ پریشر ہائی کرتاہے اور ہارمون کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، پٹھوں ،خون، اور نبض کی رفتار کئی گنا تیز ہونے کے ساتھ ساتھ گہری سانسیں خارج ہوتی ہیں جسم کانپنے لگتا ہے اور یہ ہی وہ علامات ہوتی ہیں جہاں سے بیماریوں کا آغاز ہوتا ہے۔غصہ آخر ہے کیا اور کیوں آتا ہے؟انسان کے اندر کی مشین،موٹر یا انجن کیوں اور کیسے تبدیل ہوتے ہیں؟کیا غصہ ورثے میں ملتا ہے؟ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شاخسانہ ہوتا ہے یادوسرے انسانوں کے منفی رویے کی پیداوار ہے؟ صحت پر ریسرچ کرنے والے جرمن ڈاکٹر بئیر جو کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں کا کہنا ہے غصہ ایک ناخوشگوار احساس ہے جو انسان کو فوری تبدیل کرتا ہے مثلاً ہم باس کو نہیں کہہ سکتے کہ کیوں اتنی رات کو میٹنگ طلب کی ،یا بس نکل گئی تو بس والے پر غصہ کرنے یا پاؤں پٹخنے کا کوئی فائدہ نہیں عقل مندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ناراضگی اور غصے سے اپنے اندر پلنے والے قہر پر قابو پایا جائے ، منفی سوچ کو ملتوی کر دینا اور خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہوتا ہے،لیکن اکثر اوقات غصے کے پیچھے دوسرے کئی احساسات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ،مثلاً غصہ انسان کو شدید نقصان اس وقت بھی پہنچاتا ہے جب وہ کسی بات پر اچانک حیران ہو جیسے کہ تمام دن کام کاج کے بعد گھر واپسی پر لائف پارٹنر کو کھانا لگانے میں چند منٹ کی تاخیر ہو جائے تو انسان چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے بھوک یا کھانا دیر سے لگانا اصل وجوہات نہیں ہوتیں بلکہ دن بھر کے واقعات انسان کے پیٹ میں مڑور ڈالتے اور غصہ دلاتے ہیں اور انسان انہیں واقعات کو ذہن سے جھٹکنے کی بجائے مزید اندر ہی اندر جگہ دیتا اور پاگل پن کا شکار رہتا ہے اکثر افراد اپنے آپ کو اکیلا ، بے بس ، اداس اور تنہا محسوس کرتے ہیں غصے کو بریک نہیں لگا سکتے اور نتیجہ کچھ بھی نکلے ایسے افراد کو غصہ گھر کی چار دیواری کی بجائے بیرونی واقعات و معاملات کے پیش نظر آتا ہے نہ کہ بچے کی گندی جرابیں جھاڑنے پر یا کھانا تاخیر سے ملنے پر۔یونیورسٹی آف کیرولینا کے محقیقین کا کہنا ہے جسم اور روح کے لئے اہم ہے کہ انسان غصے سے نمٹنا جانتا ہو،مستقل غصہ دل کیلئے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا تمباکو نوشی یا ہائی بلڈ پریشر، محقیقین نے درمیانی عمروں کے خواتین اور مردوں کا مطالعہ کیا جو دن میں اکثر ناراض یا غصے کے عالم میں رہتے ہیں اور بات بات پر غصہ میں آجاتے ہیں ان کیلئے انتہائی رسک ہوتا ہے کہ وہ بہت جلد ہارٹ اٹیک کا شکار ہو جاتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے ایسے انسان عام انسانوں سے تین گنا زیادہ رسک سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں اور وقت سے پہلے موت کا شکار ہو تے ہیں۔ دیگر محقیقین کا کہنا ہے غصہ ڈائریکٹ پیٹ پر اٹیک کرتا ہے جس سے سر درد میں اضافہ ہوتا اور زندگی کم سے کم ہوتی رہتی ہے،ریسرچ کے مطابق ایک عام انسان کے مقابلے میں غصہ کرنے والے افراد دو گنا موت کے قریب رہتے ہیں کیونکہ کئی بار غصے کی حالت میں کئی انسانوں کی اموات ہو جاتی ہیں مثلاً ہارٹ اٹیک ہونے کے بعد کسی قسم کی فزیکل تھیراپی لاعلاج ہوتی ہے ،ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ بیالوجی میکانزم کے تحت مزید اور کیا پوشیدہ ہے لیکن موجودہ اعداد وشمار کے مطابق یہ طے ہے کہ بیس فیصد افراد دشمنی سینڈروم میں مبتلا ہونے کے سبب غصے میں آجاتے ہیں اور اس قدر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ غصے پر قابو نہ پانے کی صورت میں انسان کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ماہرین کا کہنا ہے چیخنے چلانے والے افراد غصے پر جلد قابو نہیں پا سکتے اور کافی دیر تک اس کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں لیکن غصے کی حالت سے باہر نکلنے کیلئے تین چار بار گہری سانسیں لی جائیں اور دس تک گنتی گننے سے کمی واقع ہو سکتی ہے اور اس کے بعد سوچنا شروع کیا جائے کہ مجھے کس بات پر غصہ آیا تھا ،فیصلہ انسان نے خود کرنا ہے کہ مزید غصہ کرنا صحت کیلئے اچھا ہے یا مضر،غصے کی حالت سے باہر نکلنا آسان نہیں لیکن انسان محسوس تو کر سکتا ہے کہ جس چیز کو محسوس کر کے غصہ آسکتا ہے تو کس شے کو محسوس کرنے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ مشی گن کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے غصے میں مبتلا افراد کو نارمل حالت میں لانے کیلئے قریبی افراد کا فرض ہے کہ وہ انسان کا دھیان بٹائیں، خوشگوار باتوں میں الجھائیں اور لطیفے سنائیں جسے سن کر اس کا غصہ بھاگ جائے،ایسے افراد کو بھڑکانے سے گریز کیا جائے ورنہ وہ طیش میں آکر بھڑکانے والے کی بھی جان لے سکتا ہے۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246086 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.