ڈاکٹر نما جنسی بھیڑیا؟

یہ انسان نہیں بلکہ جنسی بھیڑیئے کا کام لگتا ہے جس نے اپنی ہوس مٹانے کے لیے ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے کو بھی بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اب تو خواتین اسپتال جانے سے قبل کئی بار سوچیں گی کہ کہیں کسی ایسے ہی ڈاکٹر نما جنسی بھیڑیئے کی ہوس کا نشانہ نہ بن جائیں۔ ایسے کرداروں کو تو سرِعام چوراہوں میں اُلٹا لٹکا کر اِن کی تشریف پر لِتر مارنے چاہئیں اور پھر سر مونڈھ کر ، منہ کالا کرکے پورے شہر میں گھمانا چاہئے۔ مہذب پیشے کی آڑ لے کر دوسروں کی ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کی عزتوں سے کھیلنے والے اِس اِنسان نما بھیڑیئے کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ زنا ایک قرض ہے جس کی قیمت زانی کے گھر والوں کو چکانی پڑتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس کی اپنی بیوی کو کسی نے اغواء کر لیا تھا اور وہ کئی روز کے بعد واپس گھر لوٹیں۔ اِسے تب ہی آئینہ پڑھ لینا چاہئے تھا کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، اِنسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا بھی ہے۔ کہتے ہیں ایک ڈاکٹر ماں ہوتا ہے، باپ ہوتا ہے، بھائی ہوتا ہے، بہن ہوتا ہے، دوست ہوتا ہے، سہیلی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر انسان کی شکل میں فرشتہ ہوتا ہے، ایک ایسا کردار ہوتا ہے جس کے آگے سب بے بس ہوتے ہیں۔ حقیقت میں عوام جب مریض بن کر ڈاکٹر کے پاس آتے ہیں تو وہ اپنا سب کچھ اس کے سامنے رکھ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر بسا اوقات مریض کی وہ باتیں جان لیتا ہے جو مریض خود بھی نہیں جانتا۔ ان جگہوں کو دیکھتا ہے جو مریض کی خود نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر مریض کیلئے مسیحا ہوتا ہے، وہ اس کو درد سے راحت دلاتا ہے اور مریض چین حاصل کر لیتا ہے۔ اگر یہی ڈاکٹر شیطان بن جائے اور علاج کی غرض سے آئی سادہ لوح خواتین کی عزتوں سے کھیلنا شروع کر دے تو وہ ڈاکٹر انسان نہیں ڈنگر کہلاتا ہے۔ زمانے گذر گئے ڈاکٹر اور مریض کے عظیم رشتہ کو اور نئے دور میں نئی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ مانسہرہ کی کنگ عبداﷲ اسپتال میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ کنگ عبداﷲ اسپتال کی او پی ڈی میں آنے والی خواتین مریضوں کے ساتھ مبینہ طور پر نازیبا حرکات کرنے والا ڈاکٹر شعیب قبل ازیں مانسہرہ کے ہی علاقہ چھتر پلین کے اسپتال میں بھی رہ چکا ہے۔ مانسہرہ کے کنگ عبداﷲ اسپتال میں تعینات ڈاکٹر شعیب کے کالے کارناموں کی چند جھلکیاں ویڈیو کی صورت میں عوام کے سامنے آ چکی ہیں۔ نہ جانے وہ کب سے اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہے اور کتنے گھر اُجاڑ چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ اسپتال میں ڈاکٹر شعیب کا خواتین مریضوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتوں کا سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری تھا۔ بعض متاثرہ خواتین نے زبان بند رکھی لیکن کچھ باہمت خواتین نے اس جنسی بھیڑیئے کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ٹھان رکھی تھی۔ ویڈیو سامنے آئی تو متاثرہ خواتین کے اہلِ خانہ اور عوام بھی مشتعل ہو گئے۔ ڈنڈہ بردار افراد نے شاہراہ قراقرم پر مظاہرہ کیا، ٹائم جلا کر اہم شاہراہ بلاک کر دی۔ احتجاج کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبائی وزیر صحت شہرام ترکئی نے عوامی احتجاج پر خواتین مریضوں سے نازیبا حرکات اور خفیہ ویڈیو بنانے پر ڈاکٹر شعیب کو معطل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر شعیب اپنے روم میں خفیہ کیمرہ لگا کر علاج کے لیے آنے والی خواتین کے ساتھ جو کچھ کرتا رہا وہ اب راز نہیں رہا اور نہ ہی مانسہرہ میں پیش آنے والا یہ کوئی عام واقعہ ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ویڈیو منظرعام پر آنے اور اصلیت جاننے کے باوجود بھی کچھ سرگرم ہاتھ ڈاکٹر شعیب کو بچانے کے لیے متحرک ہیں اور مبینہ طور پر اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے بھی اس واقعے کو دبانے کے لیے کام جاری ہے۔ ڈاکٹروں کے پاس سب کی ماں ،بہن جاتی ہیں لہٰذا اس پیشے سے منسلک معزز ڈاکٹروں کو بھی اس مبینہ اسکینڈل کے خلاف آواز بلند کرنا اور اپنی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا ہو گا ورنہ آئندہ بھی اگر اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے تو پھر اس مبینہ واقعے سے ڈاکٹری پیشے پر لگا سوالیہ نشان مکمل کالک بن سکتا ہے۔ خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے اس مبینہ اسکینڈل سے جڑے ملزمان اگر سزا سے بچ نکلے تو پھر کسی بھی ماں، بہن اور بیٹی کی عزت محفوظ نہیں ہو گی اور یہ واقعہ مانسہرہ کی عوام کے لیے ایک بدنما داغ بن کر رہ جائے گا اس پر سب کو سوچنا ہوگا۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.