لغت میں شہید کے معنیٰ
حاضر،ناظر،گواہی دینے والے ،خبر دینے والے اور صادق و امین کے ہیں۔اسی طرح
وہ کہ جسے محسوس کیا جا سکے ،کو شہید کہتے ہیں۔ہماری ثقافت میں شہادت سے
مراد وہ موت نہیں کہ جس پر دشمن انسان کو مجبور کرے ،بلکہ شہادت ایک من
چاہی موت کا نام ہے ۔جسے شہید آگاہی ، شعور،بصیرت و بیداری اور منطق کے
ساتھ خود اختیار کرتا ہے ۔
لیکن ڈاکٹر شریعتی کے مطابق شہادت کی دو اقسام ہیں، ایک یہ کہ مجاہدمیدان
جنگ میں فتح کے لئے جاتے ہیں اورشہید ہو جاتے ہیں انکا ہدف کامیاب ہونا اور
دشمن کو شکست دیناہوتا ہے ۔دوسری قسم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں حسینی شہادت
ایسی شہادت ہے کہ آپ پورے شعور اور آگاہی کے ساتھ شہادت کا استقبال کرتے
ہیں ۔یہ ہی وجہ تھی کہ آپ ؓ شہادت سے قبل پوری توجہ کے ساتھ اپنے کو صاف
کرتے ہیں، سنوارتے ہیں،اپنا بہترین لباس زیب تن کرتے ہیں، سب سے اچھا عطر
لگاتے ہیں۔
امام حسین ؓ کی شہادت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو کر
اصل اسلام کی طرف پلٹتے ہیں ۔آج بھی اسلام دوستی کے ثبوت کے لئے وقت کے
یزید سے نبرد آزما ہونا غلامانِ امام حسین رضی اﷲ عنہ پر فرض ہو چکا ہے ۔
جو ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اس میں بندوں کا بنایا ہوا نظام
حکومت (جمہوریت) رائج ہے اور اس سے بڑھ کر مذہبی جماعتیں اپنے مفادات کو
سامنے رکھ کر نفاذ اسلام کو بھول چکی ہیں ۔ان میں سے( اکثریت ) کا طرز عمل
ذاتی مفادات پر مبنی ہے ۔
اس وقت امریکہ ،بھارت،اسرائیل اور ان کے دوست ممالک ملتِ اسلامیہ (مسلمانوں)
کو دستور اسلام سے ہٹانے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں ۔ان میں اتفاق ہے،
مسلمانوں میں نا اتفاقی ،آج بھی خاموش اکثریت ہے کوفیوں کی طرح ۔واقعہ
کربلا نے تاریخ پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔علامہ اقبال نے فرمایا کہ
قتل حسین اصل مین مرگ زید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام حسین ؓ کے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالبؓ اورحضرت فاطمہ زہرا
بنت رسول اﷲ آپ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ
علیہ و آلہ و سلم امام حسین ؓکے نانا اور حضرت ابو طالب ان کے دادا ہیں۔
جمعرات تین شعبان سنہ چار ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے ۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کو آپ کی ولادت کا پیغام ملتے ہی آپ ﷺ حضرت
فاطمہ زہر ؓکے گھر تشریف لے گئے ۔مبارک مولود کا نام حسین ؓ رکھا ۔آپ کی
کنیت صرف ابوعبداﷲ تھی، البتہ القاب آپ کے بے شمارہیں، جن میں ، شہیداکبر،
اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔
امام حسین ؓنے اپنی عمر کے چھے سال، چھے مہینے اور چوبیس دن اپنے پیارے
نانا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے زیر سایہ گزارے ۔
سرور کائنات صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین سے بہت زیادہ محبت
کرتے تھے جس کا انھوں نے متعدد مواقع پر برملا اظہار بھی کیا۔ اس کی ایک
مثال یہ حدیث شریف ہے(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔)پیغبراسلام ﷺ
کی حدیث (حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں)
معاویہ ؓ نے یزید کو وصیت کی تھی کہ وہ حسین بن علیؓ عبداﷲ بن زبیر ؓ اور
عبداﷲ بن عمر ؓ سے بیعت طلب نہ کرے مگر اس نے شام میں تخت نشین ہوتے ہی خط
کے ذریعے ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ وہ امام حسین ؓ سے بیعت لے ۔ آپ ؓ نے
بیعت سے انکار کر دیا ۔
کوفے کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں امام حسین ؓ کوخط لکھے تھے اور آپ سے
درخواست کی تھی کہ وہ وہاں آ کر ان لوگوں کی ہدایت فرمائیں۔ مکے اور مدینے
کے ناموافق حالات دیکھنے کے بعد حضرت سید الشہدا ؓ اپنے اہل خانہ اور اصحاب
و انصار کے ساتھ کوفے جانے کا فیصلہ کیا تاہم وہ ابھی کوفے پہنچے بھی نہیں
تھے کہ کچھ منزلیں پہلے ہی یزیدی لشکر نے انہیں روک دیا اور یزید کی بیعت
کرنے کا مطالبہ کیا تاہم آپ ؓ نے کہا کہ وہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو
ترجیح دیتے ہیں۔
چنانچہ اس چھوٹے سے لشکر نے کربلا کے چٹیل میدان میں قیام کر لیا ۔دس محرم
سنہ61 ہجری میں امام حسین ؓ نے کربلا میں 56 سال 5 ماہ اور 6 دن کی عمر میں
جام شہادت نوش کیا اور اسی مقام پر دفن ہوئے ۔ |