اہل سنت کے امام……!
(Iqbal Ahmed Akhtar Al Qadri, Karachi)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
چودہویں اور پندرہویں صدی میں اہل سنت کے امام‘ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
محدث بریلوی نور اﷲ مرقدہ کی قد آور شخصیت اور ان کے دینی و علمی اور
اصلاحی و تجدیدی کارنامے اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے…… آپ کا فیض گزشتہ صدی
سے عالم اسلام پر برابر برس رہا ہے……اور جب سے ماہر رضویات سیدی اُستاذی
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رحمۃ اﷲ علیہ نے نئے نئے زاویوں اور جہات سے
آپ کی شخصیت کوعالی سطح پر متعارف کرایا ہے توآپ کے مثبت افکار دنیا جہان
میں پھیل کر اہل خرد کو حیران کر رہے گئے ہیں……کہ
کس طرح اتنے علم کے دریا بہا دیے
علماء حق کی عقل تو حیراں ہے آج بھی
آپ کے افکار اور سلسلہ عالیہ کی مہک روز بروزعالمی پیمانے پر پھیلتی جا رہی
ہے…… لوگ جوق در جوق آپکی صاحبِ علم و فن شخصیت کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں……شہر‘
شہر،ملک‘ ملک آپ کی نسبت سے سمینار، کانفرنسیں اورانٹر نیشنل سمپوزیم کا
انعقاد کیا جا رہا ہے……اور کیوں نہ کیا جائے کہ
آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر میں لیے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا
یوں تو امام اہل سنت ۱۸۵۶ ء کوبھارت کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے مگر آج
دنیا کے ہر ملک اور ہر شہر میں اُن کے نام و کام کے چرچے ہیں ……۱۸۵۶ ء وہ
زمانہ تھا جب بر صغیر کے حالا ت دگر گوں تھے ، خونی انقلا ب آنے والا تھا،
مسلمانوں کے حالات اور افکا ر واعمال میں ایک ہیجان بر پاتھا ، ایسی
تحریکیں چل پڑی تھیں جنہوں نے ایمان ویقین کو کمز ور کر دیا تھا ……
امام اہل سنت نے جب ہوش سنبھا لا تو اپنی خدادادایمانی اور علمی قوت سے
گرتے ہوؤں کو سنبھالا ……
امام اہل سنت نے مسلمانوں کے ایمان ویقین کو متز لز ل اور عشق ومحبت کو
بربادنہ ہونے دیا……
امام اہل سنت نے دلِ مسلم میں عشق مصطفی ﷺ کی ایسی شمع روشن کی جس نے تاریک
فضاؤں کو روشن کر دیا ……
امام اہل سنت نے مسلمانوں میں زندگی کی ایک ایسی لہر دوڑائی جس نے مُردوں
کو زندہ کر دیا……
امام اہل سنت نے دور جدید کی شکستوں اور ناکامیوں میں مسلمانوں کی رہنمائی
فرماکر انہیں جینے کا ڈھنگ سکھایا ……
امام اہل سنت نے پوری اسلامی تاریخ سے کشید کرکے مسلم ثقافت پیش کی ……
امام اہل سنت نے روایتی حکمت ودانش کو زندہ رکھا ……
امام اہل سنت نے جدید سائنس کے مقابل اسلا م کا دفاع کیا ……
امام اہل سنت نے عالمی بر ادری کا اسلا می تصورپیش کیا اور حقیقی اسلامی بر
ادری کا تحفظ کیا ……
امام اہل سنت نے عصر جدید کو مذہب اور تصوف کی شاندا رروایات کو پامال نہ
کرنے دیا……
امام اہل سنت نے عقائد وجماعت کی حفاظت کی ، وہ عقائد جو اسلا م کی اساس
ہیں……
امام اہل سنت ایک عظیم مد بر اورجہاں دیدہ مبصر تھے……
امام اہل سنت کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وقت نے آپ کو سچااور صحیح ثابت کیا اور
وقت کی گو اہی سچی اور اٹل ہے ۔
بلا شبہ امام اہل سنت ایک ہمہ گیر اور عالم گیر شخصیت تھے ……
ماہر رضویات حضرت مسعود ملت نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:
’’ امام اہل سنت کی ہمہ گیریت اور عالم گیریت کی ایک نشانی تویہ ہے کہ جو
علو م وفنون اُن کے علم میں تھے اُن علو م وفنون میں تو آپ نے تصانیف
یادگار چھوڑیں ہی ہیں مگر یہ حقیقت نہایت حیرت ناک ہے کہ انہوں نے مستقبل
کے اُن علوم وفنون کی بھی نشان دہی کی جوابھی باقاعدہ وجود میں بھی نہیں
آئے تھے……دوسری نشانی یہ کہ آپ نے ملت اسلامیہ کے دینی ، اخلا قی ، معاشی ،
تعلیمی اور سیا سی مسائل کا جو حل پیش کیاتھا‘ ایک صدی گزر جانے کے باوجود
عالم اسلا م کے مسائل کے لیے آج وہ اسی طرح مؤثر ہیں …… تیسری نشانی یہ کہ
اُن کی حیات وتعلیمات اور علمی آثار پر دنیا کے چار براعظموں : بر اعظم
ایشیاء ، بر اعظم یورپ، براعظم امریکہ اور براعظم افریقہ کی جامعا ت اور
تحقیقی اداروں میں کا م ہواہے اور ہورہا ہے ۔ اس کی تفصیلات فقیر کی کتاب
’’ امام احمد رضا اور عالمی جامعات ‘‘ (۱۹۹۰ء کراچی ) میں دیکھی جاسکتی
ہیں‘‘ ۔
امام اہل سنت نے اپنے علمی تبحر سے علمائے اسلا م اور حکمائے اسلا م کی یاد
تازہ کر دی اور ان کے شاند ار تسلسل کو قائم رکھا…… منقولات اور معقولات
میں آپ نے اردو، فارسی اور عربی میں جو لا تعداد تصانیف اور شرح وحواشی پیش
کیں ان سے آپ کی حیرت انگیز و سعت علمی کا اند ازہ ہوتاہے …… آپ کے بہت سے
قلمی مخطوطات کے عکس خانوادہ عالیہ کے علاوہ’’ ادارۂ تحقیقات امام احمد
رضا‘ کراچی‘‘، ’’رَضا لائبریری‘نارتھ کراچی‘‘ اورحضرت ماہر رضویات کے ذاتی
کتب خانے میں موجود ہیں ۔
امام اہل سنت نے اپنے فتاوٰی کا ایک عظیم ذخیر ہ چھوڑا ہے جو منقولا ت اور
معقولات کا جامع ہے …… ’’فتا وٰی رضویہ‘‘ کی بارہ جلدیں ہند وستان وپاکستا
ن سے شائع ہوچکی ہیں …… جس پر علامہ مفتی عبد القیو م ہز اروی کی قایم
کردہ’’ رضا فاؤنڈیشن ، لا ہور‘‘ نے تخریج و تحقیق کا کام کیا تو وہ ۳۳؍
جلدوں تک جا پہنچا……ماشاء اﷲ…… تاریخِ فتاوٰی میں اُن کا فتاوٰ ی رضویہ
اپنی نظیرآپ ہے۔ ایک ایک فتو ے میں بیسیوں حوالے ہیں جن کو پڑھ کر غیر مفتی
بھی مفتی بن ر ہے ہیں ۔
امام اہل سنت کے زمانے میں حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے
اورجھوٹی نبوت کا دعو ٰی کرنے والے پیدا ہوئے تو انہوں نے ناموس مصطفی ﷺ کی
حفاظت فرمائی اور نا م نہاد کذاب کی سخت مزاحمت فرمائی ، مسلسل رسالے لکھے
اور فتاو ٰی جاری کیے …… سیر ت ِپاک سے متعلق اگر اُن کے رسائل اور فتو ے
جمع کیے جائیں تو سیرت النبی ﷺ پر ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے……حقیقت یہ
ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اُن کی ہر تحریر اور ہر کتاب
میں سیرت ہی سیرت جگمگا رہی ہے……
امام اہل سنت نے ادب وشاعر ی کو مجازی محبوبوں سے نجات بخشی اور حقیقی محبو
ب کا ایسا رنگ دکھا یا کہ سارے رنگ پھیکے پڑگئے ……فن شاعر ی میں نعت کو
اتنا بلند کیا کہ پوری اردو شاعر ی تکتی رہ گئی ……آپ نے اپنی نعتیہ شاعری
سے ملت میں ایک نئی روح پھونک دی ……آپ کا نعتیہ کلا م’’ حدائق بخشش‘‘
کانہایت ہی خوب صورت اڈیشن ’’ رضااکیڈمی‘ بمبئی ‘‘ نے ۱۹۹۷ء میں شائع کیا
ہے اورحضرت ماہر رضویات کا مرتبہ ’’ انتخاب حدائق بخشش ‘‘ کا خوب صورت
اڈیشن سرہند پبلی کیشنز ، کر اچی نے ۱۹۹۵ ء میں شائع کیا ہے ……اُن کی عربی
شاعری کا پورا مجموعہ ’’بساتین الغفران ‘‘ کے عنوان سے جامعہ از ہر‘مصر کے
اُستا دڈاکٹر شیخ حازم محمد احمد عبد الرحیم المحفوظ مصر ی نے مرتب کیا ہے
جو ۱۹۹۷ ء میں لا ہور سے شائع ہوا ہے…… اس کے علاوہ حضرت ماہر رضویات نے
امام اہل سنت کا فارسی کلام جمع فرمایا تھا جو’’ارمغان رضا ‘‘ کے نام سے
کراچی سے شائع ہوا ہے۔
امام اہل سنت کے عہد میں معاشرے میں بہت سی بد عات رائج ہوگئی تھیں ……
انہوں نے سختی سے اُن کا رَد فرمایا اورایک ایک بدعت کے رَدمیں تحقیقی
مقالے ، رسالے اور فتو ے صادر فرمائے ……مولانا یسٰین اخترمصبا حی نے اپنی
کتاب ’’ اما م احمد رضا اور ردبدعات و منکر ات ‘‘ اورحضرت پر وفیسر ڈاکٹر
محمد مسعود احمد نے اپنی کتاب ’’فاضل بریلو ی اور ردبد عت ‘‘اور’’نئی نئی
باتیں‘‘ اور راقم نے اپنے رسائل ’’پردہ اُٹھتا ہے‘‘……’’بول کہ لب آزاد ہیں
تیرے‘‘……’’غور سے سن تو سہی!‘‘میں ایسی بہت سی بد عات کی نشاند ہی کی ہے جس
کے خلا ف امام اہل سنت نے بھر پور قلم اُٹھایا تھا……آج ہمارے معمو لات میں
بھی بہت سی ایسی چیز یں داخل ہوچکی ہیں جس کی انہوں نے سخت مخالفت فرمائی
ہے ……ایسے امور کی نشاندہی کے لیے فقیر نے کئی سال سے’’محاسبہ‘‘ کے نام سے
ایک سلسلہء مضمون جاری کیا ہوا ہے جو ماہ نامہ المظہر کراچی میں ہر ماہ
شائع ہو رہا ہے……الغرض ! اُن کے افکار وخیالات کی روشنی میں ہمیں اپنی اصلا
ح کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے ……
سائنسی ایجادات اور جدید علو م عقلیہ نے جوانوں کو مبہوت کر دیا تھا ……امام
اہل سنت نے اپنے عہد کے سائنسد انوں کو چیلنج کر کے جوانوں کو حیران کر دیا
اور ان کا ایمان متز لز ل نہ ہونے دیا ……:
’’۱۷؍ دسمبر ۱۹۱۹ ء کو کششِ ثقل کے نتیجے میں آفتاب میں گھاؤ پیدا ہونگے
جس سے زمین کے بعض علا قوں میں قیامت صغرابر پاہوگی ‘‘۔
جب اُن کو انگریزی اخبار Daily Express(شمار ہ ۱۸؍اکتو بر ۱۹۱۹ء)کا تر اشہ
ترجمہ کر کے یہ خبر سنائی گئی تو انہوں نے اس کو لغو قراردیا …… پھر اس پیش
گوئی کے رَدمیں ایک مقالہ ’’ معین مبین بہر دورشمس وسکو ن زمین ‘‘ قلم بند
فرمایا، جس میں ۱۷؍دلائل سے پروفیسرالبر ٹ ایف پورٹا کی پیش گوئی کا رَد
فرمایا ……چنانچہ ۱۷ ؍دسمبر ۱۹۱۹ء کو سب نے دیکھا کہ امام اہل سنت نے جو
فرمایا تھا وہی سچ ثابت ہوا …… امام اہل سنت نے مذکور بالا رسالے کے بعد
علم ھیٔت پراور دو دقیق مقالے’’فوز مبین دَر رَدّ حرکت زمین‘‘اور’’الکلمۃ
الملھمہ فی الحکمۃ المحکمہ لوھاء فلسفہ المشئمہ‘‘قلم بند فرمائے ‘جن میں جد
ید وقدیم فلسفیو ں اور سائنسد انوں کا رَد فرمایا ہے ۔یہ دونوں رسالے پاک و
ہند سے متعدد بار شائع ہو چکے ہیں بلکہ فوزمبین کا تو انگریزی اور ہندی میں
ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
اسلا می حکومت مزاج کے اعتبا رسے غیر مذہبی نہیں ، خالص مذہبی ہوتی ہے
کیونکہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی
کرتاہے ……امام اہل سنت کے آخر ی زمانے ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۱ء کے درمیان تحریک
خلافت اور تحریک ترک موالا ت چلیں اور ہند ومسلم اتحاد کی باتیں ہونے لگیں
توانہوں نے اس خیال کی سخت مز احمت ومخالفت فرمائی اور دوقومی نظریہ کا
احیا ء کیا ‘ یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم محمد علی جنا ح اورعلامہ ڈاکٹر
محمد اقبال بھی ایک قومی نظریہ کے حامی تھے…… اُن کی انقلابی جد جہد نے اِن
دونوں قائدین کی رہنمائی کی ……ہم ابھی تک امام اہل سنت کے سیاسی تد بر کو
خراج عقید ت پیش نہیں کر سکے ……اﷲ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ۔
امام اہل سنت نے اپنے رسالہ ’’المحجۃ المؤتمنہ ‘‘ میں دوقومی نظریہ کی خوب
وضاحت فرمائی ہے جسے حضرت ماہر رضویات نے اپنی کتاب ’’ فاضل بریلوی اور ترک
موالا ت ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے اورامام اہل سنت کے سیاسی تد
بر اور فکر ی گہر ائی کواحسن انداز میں اُجاگر کیا ہے ……کو لمبیایونیورسٹی
کی ایک فاضلہ ڈاکٹر اوشاسانیا ل نے بھی اپنے مقالہء ڈاکٹر یٹ (مطبوعہ دہلی
۱۹۹۶ء) میں ان کے سیاسی تدبر کا ذکرکیا ہے ……
نصاب تعلیم ، اسلا می طر ز حکومت میں بنیا دی اہمیت کا حامل ہے ……امام اہل
سنت نے جدید نظام تعلیم کے خلاف سخت جد وجہد فرمائی جو انگریز حاکموں نے
مسلمانوں کے مزاج و معاشرت کے بدلنے اور اسلا م سے دور کر نے کے لیے نا
فذکیاتھا …… امام اہل سنت نے نظام تعلیم اور اقتصادی نظام کا ایک خاکہ بھی
پیش کیا ہے ،جس کا تفصیلی ذکرگجرات(پاکستان) کے علامہ جلا ل الدین قادری نے
اپنی کتاب ’’ امام احمد کا نظر یہ ء تعلیم ‘‘ میں……حیدرآباد،سندھ کے پر
وفیسر رفیع اﷲ صد یقی نے اپنے مقالے ’’فاضل بریلوی کے معاشی نکا ت‘ جدید
معاشیات کے آئینے میں‘‘ اور کمیبرج یونیورسٹی کے انگر یز نو مسلم اُستاد
ڈاکٹر محمد ہارون نے اپنے مقالے ’’ امام احمد رضا محدث بریلو ی کا عظیم
اصلاحی منصوبہ ‘‘ میں بیان کیا ہے ……
المختصرامام اہل سنت اپنے دور کی ایک عظیم شخصیت تھے‘ اُن کا علم ہمہ گیر
اور عالمگیر تھا‘ اُن کے اثرات بھی ہمہ گیر اور عالمگیر ہیں ……ہمیں ہر قسم
کے تعصب اور تنگ دلی سے بالا تر رہ کر اُن کے حیرت انگیز کمالات کا مطالعہ
کرناچاہیے ……دنیا ئے اسلا م امام اہل سنت کے پیغام سے بہت کچھ حاصل کر سکتی
ہے ……ڈاکٹر محمد ہارون نے اپنے مقالے ’’ امام احمد رضا کی عالمی اہمیت
‘‘میں اس حقیقت کو خوب آشکا ر کیاہے ……وقت آگیا ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں او
جو کچھ نہ دیکھا تھا وہ دیکھیں
کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ |
|